ہاجیلا ٹیم نے آسام میں عوامی وسائل اور کاشتکاروں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا ہے
محمدبرہان الدین قاسمی
ترجمہ: محمد جاوید اقبال
1985 میں اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی اور آل آسام اسٹودینٹس یونین (آسو) کے مابین آسام اکارڈ قرار پانے کے تقریبا 33 سال بعد، نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس (این آر سی) کے اسٹیٹ کو آر ڈی نیٹر پرتیک ہاجیلا نے این آر سی کا مکمل مسودہ جاری کیا۔ مئی 2015 کے بعد سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے پیش نظر چار سالوں کی چھان بین کے بعد 30 جولائی 2018 بروز پیر این آر سی کا فائنل ڈرافٹ شائع کیا گیا۔ریاست کے نظر ثانی شدہ این آر سی کا پہلا ڈرافٹ 31 دسمبر 2017 کی آدھی رات کو جاری کیا گیا تھا جس میں 1.90 کڑور نام شامل تھے۔بقیہ تمام مستند اور تصدیق شدہ شہریوں کے نام اس دوسرے اور مکمل مسودے میں شائع ہوئے ہیں جو 3.29 کڑور عرضی گزاروں میں سے صرف 2.89 کڑوں لوگوں پر مشتمل ہےجبکہ 40 لاکھ لوگ اس فہرست سے تاحال خارج ہیں۔
دعوؤں اور اعتراضات کے مکمل جائزے کے بعد این آر سی کی ترمیم شدہ حتمی فہرست کا آنا ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کی حتمی تاریخ طے نہیں کی ہے لہذا فی الواقع ایسا کب ہو پائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔تاہم سپریم کورٹ نے معاملہ کی سنگینی کی جانب دوسری بار اشارہ کرتے ہوئے مورخہ 31 جولائی 2018 کے اپنے حکم نامے میں بی جے پی کی قیادت والی ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو 16 اگست 2018 کو دوپہر 2 بجے تک این آر سی کی مکمل لسٹ کے حوالے سے معیاری طریقہ کار (اسٹنڈرڈ آپریشنل پروسیجر) پیش کرنے کو کہا ہے ۔31 جولائی 2018 کے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر حالیہ مسودے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی حیثیت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ “اس سلسلہ میں عدالت کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ شائع ہوا ہے وہ این آر سی کا مسودہ ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ بحیثیت مسودہ یہ کسی بھی ادارے کے لیے کسی طرح کی کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتا”۔
مسودے کی ترتیب کے دوران ریاستی حکومت کی بے ضابطگیوں کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں ایک درست اور قابل قبول فیصلہ کن لسٹ کے امکانات بہت کم ہی ہیں،الا یہ کہ سپریم کورٹ بذات خود آسام میں تمام ساز و سامان کے ساتھ پروفیشنل شمار کنندگان کی ٹیم بھیج کر اسے یقینی بنائے۔اب ریاست کی سخت کوشی بھی فہرست کے جاری ہونے کے بعد کھلے طور پر سامنے آ چکی ہے۔اس صورت حال میں شاید وہ لوگ کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں جو2016 میں لوک سبھا میں پیش ہونے والے بھاجپا قیادت والی موجودہ مرکزی حکومت کے شہری ترمیمی بل تک معاملے کو طول دینا چاہتے تھے۔
مذکورہ بل جو 15 جولائی 2016 کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا کا مقصد سیٹیزن شپ ایکٹ 1955 میں ترمیم کرنا تھا تاکہ افغانستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمانوں کے علاوہ دیگر غیر قانونی مہاجرین کو مذہب کی بنیاد پر شہریت عطا کی جا سکے۔ سوائے بی جے پی کے جو 2016 سے آسام میں بر سر اقتدار ہے،تمام آسامی باشندگان نے،خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم جیسےآسام اکورڈ کی موسس آسو ،اے جی پی، کانگریس اور مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت والی اے آئی یو ڈی ایف سب نے یکساں طور پر اس بل کی پرزور مخالفت کی ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندستانی ریاست آسام میں مسلمانوں کی کل تعداد1.06 کروڑ تھی جو ریاست کی مجموعی آبادی کا 34.22 فیصد ہے۔تقریبا نو اضلاع میں مسلمان اکثریت میں ہیں خصوصا براک ویلی میں کچھاڑ،کریم گنج ،ہیلا کنڈی ، نشیبی آسام میں دھوبڑی ،گوالپاڑا اور برپیٹا جبکہ ریاست کے مرکزی خطے میں نوگاؤں ،موری گاؤں اور ہوجائی وہ اضلاع ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔اگر فیصد ی تناسب کا لحاظ کیا جائے تو بھارت میں جموں وکشمیر کے بعد یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی اکثریت قرار پاتی ہے۔ریاست آسام،شمال مشرق ہندوستان میں، 33 اضلاع ، مجلس قانون ساز کے 126 انتخابی حلقوں اور قومی پارلیامنٹ کے 14 حلقوں پر مشتمل ہے۔
آسام میں نئی این آر سی کیوں؟
روزنامہ انڈین ایکسپریس میں مورخہ 1 اگست 2018 کو ایک مضمون شائع ہوا ،جس میں فاضل مضمون نگار ادریجا رائے چودھری لکھتی ہیں “ما قبل آزادی زمانے میں ہی مہاجرین کے مسئلے نے آسام میں سماجی تعلقات میں کھٹاس پیدا کردی تھی۔ آسام میں مردم شماری کا مطالعہ کرنے والے امریکی سیاست داں مائرن وینیئر نے 1891 کی مردم شماری کے خاکے کو بنیاد بناتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ مہاجرین اور ان کی نسل کی تعداد 8.5 میلین ہے جبکہ اس کے برخلاف مقامی باشندوں اور ان کی نسل کا تخمینہ 6.5 میلین ہے۔آزاد ہندستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1979 تک جب کہ آسام موومنٹ شروع ہوا اس معاملے سے بے رخی برتی گئی ۔لمبے عرصے تک جس چیز نے مہاجرین کے مسئلے کو حاشیے پر رکھا وہ در اصل سماجی رسہ کشی کے حدود کی تعیین میں لسانی مسئلے(بھاشا آندولن ) پر مرکوزیت ہے ۔
” اگرچہ گاہے گاہے مہاجرین کا تنازع زیر بحث آتا رہا لیکن یہ 1979 کی بات ہے جب اس مسئلے نے مستقبل کے لیے مذہبی اور سماجی مراسم کا ایک نیا ڈھانچہ پیش کرکے ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔”اس سے وہ صحت مند سماجی تعلقات برہم ہوئے جن کی نشو نما بہ صد اہتمام ہوپائی تھی اور جو ریاست میں سیاسی استحکام کی بنیاد ہواکرتی تھیں،نتیجتا سیاسی کشمکش کا ایک طویل دور شروع ہوا،” ماہر سیاسیات سنجیب باروا نے اپنی کتاب Immigration, Ethnic Conflict and Political Turmoil- Assam 1979-1985(ہجرت، سماجی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش-آسام 1985-1979)میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔
1979 سے 1985 کے دوران مرکزی آسام کے علاقے نیلی میں ایک بھیانک فساد برپا ہوا جو18 فروری 1983 کی صبح کو 6 گھنٹے تک جاری رہا۔اس قتل عام میں نو گاوں ضلع کے نیلی اور گردونواح کے 14 گاؤں کے 2191 لوگ ہلاک ہوئے (واضح رہے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 10000 سے متجاوز ہے )۔ہلاک شدگان مشرقی بنگال کے وہ مسلمان تھے جن کے آبا ء واجداد نے ما قبل تقسیم برطانوی ہندوستان میں یہاں نقل مکانی کی تھی۔ذرائع ابلاغ سے وابستہ تین افراد انڈین ایکسپریس کے ہمیندر ناراین ،آسام ٹریبیون کے بیدابرتا لکھر اور اے بی سی کے شرما اس واقعہ کے گواہ تھے۔یہ متاثرین ان لوگوں کی آل و اولاد تھے جو بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں برٹش انڈیا کے تحت چلنے والی اس وقت کی آسام حکومت کی راست تولیت کی بنیاد پر آسام آئے تھے۔(ویکیپیڈیا ، آزاد دائرۃ المعارف)
نیلی میں رونما ہونے والا یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب آسام ایجی ٹیشن عروج پر تھا اور اسے ریاست میں رہنے والے بنگالیوں کے خلاف آسوکی زیر قیادت علاقائیت پسند نام نہاد آسامیوں نے انجام دیا تھا۔”اس واقعہ کو جنگ عظیم دوم کے بعد بدترین اقلیت کشی کا نمونہ قرار دیا گیا ہے”(ویکیپیڈیا)
بعد ازاں اس یقین دہانی کے ساتھ آسام اکارڈ قائم ہواکہ ” حکومت واقعی آسام میں غیر ملکی باشندوں کے مسئلے کا اطمینان بخش حل تلاش کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے”چنانچہ آسام میں مہاجرین کے مسئلے کے حل کے لیے قراردادوں کی ایک لسٹ مرتب کی گئی۔
آسام کارڈ میں ایک مرکزی نقطہ یہ بھی تھا کہ آسام میں پہلی این آر سی جسے 1951کے آل انڈیا سینسس کے موافق ترتیب دیا گیا تھا کی بیناد پر ایک نئی ترمیم شدہ این آر سی تیار کی جائے ۔اس نئی این آر سی میں اندراج کے لیے دو شرائط درکار تھے (الف) لیگیسی ڈاٹا (موروثی کاغذات) (ب)یا 24 مارچ 1971 کی آدھی رات تک تسلیم شدہ دستاویزات میں سے کسی ایک میں متعلقہ شخص کا نام موجود ہونیز متعلقہ شخص سے اس کی وابستگی ثابت ہوتی ہو۔”دستاویزات مثلا 1951 این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس) اورمحکمہ انتخاب کے 24 مارچ 1971 کی آدھی رات تک کے ریکارڈ مجموعی طور پر لیگیسی ڈاتاکہلاتے ہیں”(http://nrcassam.nic.in)
این آر سی فائنل ڈرافٹ اور وزیر اعلی آسام
آسام کے وزیر اعلی سروا نند سونووال نے 30 جولائی سے پہلی شام کو گواہاٹی میں ایک کل جماعتی میٹنگ کے بعد میڈیا کو اہم بیانات دیے ۔انھوں نے کہا “آج ہم نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے ساتھ ایک کل جماعتی میٹنگ کا انعقاد کیا ہے ۔ این آر سی ڈرافٹ کا جاری ہونا آسام میں ہم تمام لوگوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ این آر سی کی تجدید کلی طور پر سپریم کورٹ کی دیکھ ریکھ میں انجام دی گئی ہے۔کسی کو بھی اسے آسام میں مذہبی یا لسانی تفریق کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔جو لوگ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی یا سماج میں رخنہ اندازی کی کوشش کریں گے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائےگا”۔
وزیر موصوف نے طےشدہ مزید تین اہم معاملوں کی وضاحت بھی کی جن پر 29 جولائی 2018 کی کل جماعتی میٹنگ میں مشاورت کے بعد فیصلہ لیا گیا۔انھوں نے کہا:
1. یہ این آر سی کا محض ایک کامل مسودہ ہے جو کل پیش ہونے والا ہے، کوئی حتمی فہرست نہیں ہے۔حتمی فہرست بقیہ تمام کارروائیوں کے بعد جاری کی جائے گی۔
2. جن لوگوں کے نام اس ڈرافٹ میں درج نہیں ہیں انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،انھیں فہرست میں اندراج کے لیے این آر سی حکام کی ہدایات کے مطابق دوبارہ دعوی کرنے کا اختیار ہے۔انھیں ایسا کرنا چاہیے اور صوبائی حکومت ،سیاسی جماعتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں ان کا مناسب انداز میں تعاون کریں گی۔
3. جن لوگوں کے نام اس مکمل ڈرافٹ سے خارج ہوں گے انھیں غیر ملکی قرار نہیں دیا جائے گا؛ انھیں حراستی مراکز میں نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی وہ ہندستانی شہریوں کو ملنے والےکسی بھی حق سے محروم کیے جائیں گے۔
این آر سی پر اےآئی یو ڈی ایف کا موقف
آسام کے بڑے سیاسی اور مذہبی لیڈر ،صدر آل انڈیا یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ،ممبر آف پارلیامنٹ (دھوبڑی) اور مسلمانان ہند کی سب سے بڑی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کی صوبائی شاخ کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے بھی 29 جولائی 2018کو تمام شہریوں سے اپیل کی تھی کہ خبروں اور افواہوں کے حوالے سے چوکنا رہیں۔ انھوں نے کہا کہ” ہم نےآسام کے سبھی اضلاع میں اے آئی یو ڈی ایف کے رضاکاروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ ان اصلی باشندوں کے ساتھ جن کے نام کسی وجہ سے اس مکمل مسودہ میں ممکنہ طور پر درج نہ ہو پائے ہوں قانونی چارہ جوئی میں تعاون کریں ۔ہمارے وکلاء اور مقامی کمیٹیاں ضرورت مند لوگوں کی مددکے لیے بلو پرنٹ (مفصل خاکے) کے ساتھ مستعد ہیں۔”
مولانا اجمل نے ڈرافٹ کی اشاعت سے ایک روز قبل پورے وثوق سے کہا تھاکہ 30 جولائی 2018 کو این آر سی کامکمل ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد آسام کے حالات پر امن رہیں گے۔ انھوں نے کہا: ” ہم آسام والےامن پسند لوگ ہیں ،ہمارے شہری برے وقتوں میں بھی آپسی اتحاد اور امن قائم رکھنے کے تئیں کافی با شعور واقع ہوئےہیں”۔
تاہم ، مولانا اجمل نےجو آسام اسمبلی میں 13 ممبران اور لوک سبھا میں بشمول خود تین نشستیں رکھنے والے ایک لیڈر ہیں 30 جولائی کو مکمل این آر سی ڈرافٹ کی اشاعت کے چند گھنٹو ں بعد اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” 40 لاکھ لوگوں کے نام مکمل ڈرافٹ سے حذف کردیے گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے،سسٹم میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے”۔انھوں نے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فائنل رجسٹر میں اپنے نام درج کرانے کے لیے غریب لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کیسے بار بار اپنا اعتراض درج کرانے اور دعوے دائرکرنے کے لیے آفسوں کے چکر لگائے گی۔ “اقلیتوں کی کثرت والے اضلاع کےرجسٹروں سے اتنی تعداد میں ناموں کاغائب ہونا ایک سازش بھی ہوسکتی ہے تاکہ سیاست کے میدان میں مسلمانوں کی نمائندگی کو گھٹایا جاسکے”۔ ان خدشات کا اظہار مولانا اجمل نے 30 جولائی کی شام کو گواہاٹی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
این آر سی کے عمل میں خدشات
مولانا اجمل کے ذریعے ظاہر کیے گیے خدشات قابل توجہ ہیں ۔ ہندستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد یہ مسئلہ گونجتا رہا۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی محترمہ ممتا بنرجی کی طرف سے این آر سی کی کارروائی میں دھاندلی کے خدشہ کا اظہار اور سلچر(جو کہ آسام کے ان علاقوں میں سے ہے جہاں بنگالیوں کی تعداد زیادہ ہے) کی کانگریس ایم پی محترمہ ششمتا دیو کے اعتراضات اس پوری کارروائی اور اس کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔این آر سی آسام کے کو آر ڈی نیٹر مسٹر پرتیک ہاجیلا اپنی ذمہ داری کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانے میں ناکام رہے۔
اس حوالے سے ماضی میں بھی کچھ اہم سوالات اٹھتے رہے ہیں کہ آخر کیسے ایک جانے مانے مجاہد آزادی ،آسام اسٹیٹ کونسل نیز اسٹیٹ اسمبلی کے، 1937 سے 1946 تک،اولین دپٹی اسپیکر مولانا محمد امیر الدین کی حقیقی اولاد کو غیر ملکی ہونے کا طعنہ دیا گیا اور وہ سالہا سال سے فارنر ٹریبیونل کورٹس کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ 12 جولائی 2018 کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو متوجہ کرتے ہوئے آواز پٹیشن آن لائن داخل کی گئی جس میں 29 جولائی تک، ڈرافٹ جاری ہونے سے پہلے، 7.5لاکھ دستخط ہو چکے تھے اور بعدہ1 اگست تک، فائنل ڈرافٹ جاری ہونے کے بعد، دستخطوں کی تعداد 816500ہوچکی ہے، اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ” این آر سی کی اشاعت سے بڑے پیمانے پر تشدد پھیلےگا ، نسل کشی ہوگی اور مسلم اقلیت کے لیے تاحیات جیل کی راہیں کھل جائیں گی”۔
آسام کانگریس نے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنس کے اہل کاروں کے کام کاج میں مداخلت کررہی ہے۔ آسام پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ریپن بورا نے گواہاٹی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ” ہمیں خبر ملی ہے کہ این آر سی محکمہ کو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق یا اپنے طور پر کام کرنے میں آجکل دشواری پیش آرہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ این آر سی کی تجدید میں بی جے پی اپنے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی خاطر دخل دے رہی ہے”۔(www.ummid.com 17 July, 2018)
نارتھ ایسٹ کے معروف انگریزی روزنامہ دی آسام ٹریبیون نے اپنی اشاعت مورخہ 28 جولائی 2018 میں گواہاٹی کی ایک سول سوسائٹی کی میٹنگ کی روداد شائع کی ہے۔جس کا عنوان ہے Public meeting calls for preparation of correct NRC ۔خبر میں بتایا گیا کہ :” اقلیتی طبقے کے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ نئی این آر سی سے ان کے نام ایک سازش کے تحت ڈی ووٹرس کے زمرہ میں شامل کر لیے جاءنگے ۔حکومت کے کچھ لوگ نئی این آر سی کے عمل پر اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے عام لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔”
ذرائع ابلاغ کے بڑے ادارے جیسے انڈیا ٹوڈے ،آؤٹ لوک اور فرنٹ لائن میگزن نے اپنی مسلسل کور اسٹوریز میں این آر سی کی کارروائی اور اس کے بعد پیش آنے والے مسائل پر عوامی خدشات کو بیان کیا ہے۔ اہم غیر سرکاری تنظیمیں جیسے جمعیۃ علمائے ہند،سیٹزن فار جسٹس اینڈ پیس اور کل آسام مسلم اسٹوڈنٹ یونین (آمسو) نے متواتر اعتراضات کیے ہیں اور این آر سی کارڈینٹر پرتیک ہاجیلا سے لے کر وزیر اعلی آسام سربانند سونووال اور گوورنر آسام سے لے کر مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ تک سب سے ملاقاتیں کیں اور اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیاکہ این آر سی کا عمل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق انجام نہیں پا رہا ہےجس سے ڈرافٹ شائع ہوجانے پر مزید انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔
30 جولائی 2018 کو این ار سی کے فائنل ڈرافٹ کی اشاعت کے بعد تمام خدشات درست ثابت ہوئے ۔ اگلی قسط میں ہم تجزیہ کریں گے کہ کس طرح مسٹر ہاجیلا کی ٹیم نے این آر سی کے معاملے میں باشندگان آسام کے خواب کو چکنا چور کیا ہے اور کیسے ایک تاریخی اقدام ریاست کی بد نیتی اور محکمہ کی لا پرواہی کی وجہ سے غارت ہوکر رہ گیا۔(جاری)






