ڈاکٹر زین شمسی
لیفٹ ، رائٹ ، سینٹر ہر طرف ریپ ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ سوال سپریم کورٹ نے سرکار سے پوچھا ہے۔ ویسے موب لنچنگ پر بھی سرکار سے اسی طرح کے سوال سپریم کورٹ پوچھ چکی ہے اور سرکار اس کے جواب میں سخت قانون بنانے کا وعدہ جب تک کرتی ہے تب تک کہیں اور موب لنچنگ یا ریپ کا سانحہ گزر جاتا ہے۔ گویا یہاں پوچھ تاچھ ہی ہوتی رہتی ہے اور ادھر ہوس کے پجاری اور نفرت کے کھلاڑی اپنا کام بے خوف ہو کر کرتے چلے جاتے ہیں۔
تو یہی سوال جو می لارڈ بے حس سرکار سے کرتی ہے وہی سوال عوام عدالت سے بھی کرنا چاہتی ہے کہ معاشرہ میں ہر جگہ سرعام جرم کا تانڈو ہورہا ہے۔ ویڈیو بن رہے ہیں۔ کیمرے کے سامنے قاتل خود کو بہادری کا نمونہ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور آپ انہیں ثبوت کے فقدان میں رہا کر رہے ہیں تو آپ کیا کر رہے ہیں۔ کون سا ثبوت چاہٸے آپ کو۔
شمبھو ریگر نے کھلے عام کاٹ ڈالا۔ سمیع اللہ کو سرعام مار ڈالا گیا۔ رکبر خان آخری سانس تک مدد کی پکار لگاتا رہا اور ان کے قاتلوں کی جے جے کار سنائی دیتی رہی تو آپ کیا کر رہے تھے۔ می لارڈ جرم تبھی ختم ہوتا ہے جب سزا کا خوف قاٸم ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اہک طرف سرکار مجرموں کی پشت پناہی کر رہی ہے تو دوسری طرف پولیس اور انتظامیہ ان کی حوصلہ افزائی میں مصروف ہے تو تیسری طرف میڈیا انہیں بچانے پر مجبور ہے اور چوتھی طرف عدالت ان کی رہاٸی کے لٸے ناقص جواز فراہم کرتی ہے۔
دیکھنے میں تو یہی آ رہا ہے کہ جمہوریت کے چاروں ستون نے بھارت کی ڈیموکریسی کو موبو کریسی میں بدلنے کے لئے اپنا اپنا کردار خوب نبھایا ہے۔ اسی لئے نابالغ بچیوں کا ریپ کرنے والا کیمرے کے سامنے مسکراتا ہے اور سر عام قتل کرنے والے قاتلوں کا استقبال پھول مالاؤں سے ہوتا ہے۔
بات صرف مسلمانوں کی ہوتی تو بھی یہ سوچ کر برداشت کر لی جاتی کہ برسوں کے نفرت کا سبق اب عمل کے دور میں ہے ، لیکن یہاں تو ننھی ننھی یتیم بچیاں جو سماج کے ٹھیکیداروں کے لیے عیش کا سامان بنا دی گئیں ہیں۔ مظفر پور کا معاملہ ہو یا دیوریا کا ، کردار الک ہیں کہانیاں اہک ہیں۔ ایسے خوفناک معاملہ میں میڈیا کو چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لینا چاہیے لیکن دیکھنے میں کیا آیا ، یہ سب نے دیکھا۔
کسی انجنا نے، کسی سدھیر نے ، کسی ارنب نے یہ نہیں بھونکا کہ دیکھئے یوگی کے میدان عمل گورکھپور میں دیوریا سے نابالغ لڑکیاں سپلائی کی جاتی رہیں اور سی ایم صاحب سوتے رہے۔ کسی نے یہ نہیں بھونکا کہ کشاسن بابو کے یہاں یتیم بچییوں کا جسم نوچا جاتا رہا اور ملزم کی اہلیہ کے ساتھ نتیش جی پریس کانفرنس کرتے رہے۔ مگر بیچارے یہ سرکار کے پٹھو میڈیا ولے کریں تو کیا کریں کہ جب یہ دیکھ رہے ہیں کہ رویش ، ابھیسار ، پنیہ پرسون باجپئی پر کیا گذر رہی ہے تو یہ بھی اب اپنی نو کریاں بچا رہے ہیں۔
دیوریا معاملہ میں اے بی وی پی کے رپورٹر کے سامنے جیسے ہی ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ڈی ایم کو ہٹانے سے کیا ہوگا۔ شیلٹر ہوم میں آنے والی ان بڑی بڑی گاڑیوں والے کی گرفتاری کب ہوگی ، ویسے ہی رپورٹر مائیک پھیر لیتا ہے کہ اگر یہ سچ بول گیا تو نوکری گئی سمجھو۔
جب بچیوں کا ریپ کر کے ہنسنا ، موب لنچنگ پر بہادری کا مظاہرہ کرنا ، اور بے روزگاروں کا مذاق اڑانا عام زندگی کا حصہ ہو جائے تو سوچنا ہوگا کہ ہمارا مستقبل کیا ہے۔ اور یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا اب ہمیں خاموشی کے ساتھ موبو کریسی کے ساتھ جینا ہوگا۔