ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندستان میں مذہبی رواداری اورعدم برداشت کے حوالے سے امریکی ادارہ کی رپورٹ نے پوری دنیا کے سامنے ہمارا ننگ اجاگر کردیا ہے لیکن ہماری حکومت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
امریکی کانگریس کے بااختیار امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی ہندستان میں عدم برداشت میں اضافہ کی رپورٹ کو حکومت ہند نے مسترد کردیاہے حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں اس قسم کی کوئی صورتحال نہیں ہے اور اقلیتی طبقہ کے لوگ ہندستان میں محفوظ ہیں۔ہماری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی کمیشن فار انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم ایک بار پھر ہندستان ‘ اس کے آئین اور معاشرے کو سمجھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہندستان کا آئین تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جس میں مذہبی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔
امریکی کمیشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2015 میں اقلیتی فرقوں کو خوف، ظلم و ستم اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ ان ظلم و ستم کے پیچھے ہندو قوم پرست تنظیموں کا ہاتھ تھا پولیس کے تعصب اور عدالتی خامیوں کی وجہ سے اقلیتی برادری ہندستان میں میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہے ۔
یہ اتنی بڑی صداقت ہے کہ اس سے ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا مگر ہماری وزارت خارجہ کا ترجمان اسے امریکہ کی ہندستانی سماج ‘ معاشرت اورآئین سے ناواقفیت قرار دے رہاہے ۔
2014میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں وقتاً فوقتاًایسے کئی واقعات پیش آئے جن میں عدم رواداری اور تشدد کا پہلو صاف جھلکتا ہے۔ 2015میں یہ موضوع اس لیے بھی زبان زد عام ہوگیا کہ اسی کی وجہ سے ملک کے کئی ادیبوں اور فلمی شخصیات نے اپنے انعامات اور اعزازات واپس کردیئے اور اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ میڈیا اپنی تمام تر ’مودی دوستی‘ کے باجود ان واقعات کی رپورٹنگ سے خود کو نہیں روک سکا اور عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی کا سامان کرگیا ۔ امریکی کانگریس کی یہ رپورٹ 2015میں ہوئے ان ہی واقعات کے منظر ‘ پس منظر اور پیش منظر کے حوالے سے ہمیں آئینہ دیکھارہی ہے کجایہ کہ ہم اس آئینہ میں دیکھ کر اپنی صورت گری کریں‘ جمہوریت کی قبا پر عدم برداشت ‘ اور مسلم دشمنی کے واقعات کا داغ دیکھیں ‘اپنے دامن تار تار کو رفو کریں ‘ہماری حکومت رپورٹ کو ہی جھٹلارہی ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے 2014کے بعد سے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں خوف و ہراس ‘ تناؤ ‘ تشدد اور بدامنی کا بول بالا ہے اور ان ہی واقعات پر مبنی ہے امریکی کانگریس کے بااختیار امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی سالانہ رپورٹ ۔
امریکی رپورٹ میں ہر واقعہ کا احاطہ کیاگیا ہے ‘دادری سے لے کر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم باجی راؤ مستانی کے خلاف ہونے والے احتجاج اور کنٹر ادیب ایم ایل گلبرگی کے قتل سے لے کر ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ملازمت کا نہ ملنا ‘شیواجی کو ہندوؤں کے قائد کے طور پرنہ پیش کرنے والے مہاراشٹر کے کمیونسٹ لیڈر‘ سماجی کارکن اور مصنف گووند پانسرے کا قتل ‘ہم کن کن واقعات کو جھٹلائیں گے ۔
کیا ہماری حکومت یہ بھی جھٹلاسکتی ہے کہ 200 افراد کے ہجوم نے ایک مسلمان خاندان کو 28 ستمبر 2015رات کو نوئیڈا کے دادری میں واقعہ بسارا گاؤں میں حملے کا نشانہ بنایااور52 سالہ محمد اخلاق سیفی کا قتل کیا اور ان کے 22 سالہ بیٹے دانش کو بری طرح زخمی کردیا۔ اس حملے کے لیے ہجوم کو اکسانے کا کام مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن کے بیٹے نے کیا تھا۔ اس مسلم خاندان پر گاؤ کشی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کیا ہم اس سے بھی انکار کرسکتے ہیں کہ حیدرآباد یونیورسٹی ‘ جواہرلعل نہرویونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا ۔
کیا ہماری وزارت خارجہ اس واقعہ سے بھی انکاری ہے کہ نومبر 2015میں قومی راجدھانی نئی دہلی میں تقسیم انعامات کے ایک جلسہ میں عامر خان نے ’بڑھتی عدم رواداری‘ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہوں نے اس کا احساس پچھلے چھ سے آٹھ مہینے میں یہ زیادہ محسوس کیا۔ اس کے جواب میں کچھ عناصر نے عامر خان کے خلاف تھپڑ مارنے کی مہم شروع اور حقیقی دنیا میں اس کی عدم تکمیل دیکھتے ہوئے ایک ویب سائٹ کی تخلیق کی گئی جہاں لوگ اپنی نفرت کے اظہار یا تفریح کیلئے عامر خان کو آن لائن تھپڑ مارسکتے ہیں۔
کیا مودی حکومت بالی ووڈ کے مشہور اداکار شاہ رخ خان کی جانب سے ملک میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعدا ن کے خلاف بننے والی مسموم فضا اور ہونے والے تشدد کے واقعات کو بھی جھٹلاسکتی ہے ۔
جس ملک میں شراب، تمباکو پر پابندی عائد کرنی ضروری ہے وہاں مذہبی رواداری کو پیروں تلے روند کر بیف پر پابندی کو ہی اپنی کارکردگی کا طرہ امتیاز سمجھا گیا ہو‘ مختلف ریاستوں میں اس کے خلاف قانون بنائے گئے ہو‘ جہاں گائے نہ بیچ پانے والے غریب کسان کو روٹی کیلئے اپنی بیٹی بیچنی پڑرہی ہو وہاں ایسے ہی ہولناک واقعات جنم لیں گے جس سے عالمی برادری میں ہمارا سر شرم سے جھک جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت آئین میں دی گئی شخصی مذہبی آزادی اور حقوق کی ضمانت ہندستان کے ہرشہری کو مہیا کرائیں ۔(ملت ٹائمز)
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا