شیر میسور ٹیپو سلطان کی یاد

احتشام الحق آفاقیEhteshamul Haq

یوں تواس دنیا میں ہزاروں بچے جنم لیتے ہیں اور مرجاتے ہیں ہزاروں کلیاں کھلتی ہیں اور باد سموم کے تھپیڑوں کی تاب نہ لاکر مرجھا جاتی ہیں مگر وہ موت جو حق اور راستی کی راہ میں آئے ، حیات جاوداں بن کر آتی ہے ۔جو موت آئے تو زندگی بن کر آ ئے ، قضا کی نرالی ادا چاہئے۔

تاریخ ولادت

دس دسمبر1750 ء میں حیدرعلی ؒ کے خانوادہ دیوانے حالی میں اماں فاطمہ فخرالنساءبیگم کی گود میں پیدا ہونے والا جہادی جزبوں سے لبریز ، انصاف پسند حکمراں ، روشن خیا ل ، تعلیم یافتہ،  تہجد گزار ، شب زندہ دار ، نوافل گزار ، قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا نقش ثانی اور عظیم یادگار ،نظرعقابی جن سے غیرت و خود اری اور مومنانہ فراست کی کرنیں پھوٹ رہی تھی ، بجلی کی چمک  شیر کی دھاڑ وگرج دوستوں کے دوست دشمنوں کے دشمن اتنی ساری خوبیوں و صفات کے حا مل شخص کو دنیا سلطان ٹیپو کے نام سے جانتی ہے ، سلطان شہید کی پیدائش دس دسمبر1750ء کو میسور میں ہوئی تھی انکا نام فتح علی تھا اور انکے والد محترم کا نام حیدر علی تھا اور انکی والدہ محترمہ فاطمہ فخرالنساء بیگم تھیں ۔

تعلیم وتربیت

جب ٹیپو کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو انکےوالد حیدر علی نے خود خواندہ ہو نے کے با وجود اس زما نے کے رواج کے مطابق اپنے فرزند کی دینی تعلیم کا بند وبست کیا قرآن کریم اور عربی فارسی زبان دانی کیلئے معلم مقرر کئے گئے اس زمانے کے مشہور شاعر علی حسین اور نصرالدین وغیرہ تھے اسکے بعد حدیث و فقہ کی بھی تعلیم دی گئی اور تحقیق یہ ھیکہ کنڑ اور دیگر مقامی زبا نوں کے علاوہ انگریزی و فرانسی تعلیم کا نظم کیا گیا ۔ غرض یہ کہ ہر علم و فن کی تعلیم و تربیت کیلئے حیدر علی نے ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کی ٹیپو چونکہ فطری طور پر بہت ہی ذہین اور چست و چالاک لڑکا تھا اسلئے انکو کسی چیز کے سیکھنے میں وقت نہیں لگتا تھا اور جلد ہی وہ ان تمام علم فنون کے ماہر ہوگئے اس زما نے کے حالات وضروریات کے پیش نظر جنگی فنون شہسواری تیر اندازی سپہ گری وغیرہ کی بھی تربیت دی گئی اعلٰی وارفع ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ان کیلئے، سلطان کو گھوڑ سواری کا بیت شوق تھا پالکی میں سوار ہونے کو وہ معیوب اور مردوں کے شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔

 صلاحیت و لیاقت 

جب آ پکی عمرپندرہ سال کی ہوئی تو آپنے اپنے والد محترم کے ساتھ  جنگی معاملات میں بھی دلچسپی لینی شروع کر دی تھی کیونکہ سلطان کے والد حیدر علی میسور میں آرمی کے ملازم تھے لہٰذا آپ گاہے بگاہے جنگی مشقون میں بھی حصہ لیا کرتے تھے سلطان مزید بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے حساب و سائنس کا علم آپکے پاس وافر مقدار میں موجود تھا سلطان پڑھائی لکھائی کے دلدادہ تھے اور ہزار سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر سلطان نے اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنا رکھی تھیں ، جن میں زیادہ تر جنگی اسلامی اخلاقی اور سائنسی موضوعات پر مشتمل تھیں ٹیپو سلطان دور اندیش اور صاحب بصیرت شخص اور ٹائگر اوف میسور کے نام سے مشہور تھے ۔

 سلطان کی خدمات

ٹیپو کے والد حیدر علی اگر چہ نا خواندہ تھے لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کو ہر علم وفن سے آراستہ کیا تھا اس طرح خود ٹیپو کو تعلیم کی اہمیت کا غیر معمولی اندازہ تھا چونکہ اس وقت پوری سلطنت خدا داد میں مجموعی طور پر نا خواندگی کی شرح بہت زیادہ تھی اسلئے اس نےسری رنگا پٹنم ہی میں جامع الا مور کے نام سے ایک یو نیور سٹی قائم کی جہان بیک وقت دینی ودنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا ںظم تھا اور سرکار کی طرف سے ہر علم و فن کے ماہرین کو اعلٰی تنخواہ پر یہاں مقرر کیا گیا تھا اسی وقت سلطان کو وہ وعدہ بھی یاد آ گیا جو انہوں نے درویش فقیر سے کیا تھا ، اپنے نو عمری کے وقت تقریباًچھ یا سات سال کی عمر میں فقیر سے کیا گیا وعدہ بھی یاد آگیا مسجد بنانے کی، اسی طرح انہون نے ایک مسجد کی تعمیر کی جو انکے شاہی محل سے متصل تھی مسجد کا کام 1787ء میں شروع کیا گیا اور دو سال کے اندر مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی اور چھ لاکھ روپے اس میں خرچ ہوئے مسجد اقصٰی کے وزن پر اس مسجد کا نام مسجد اعلیٰ رکھا گیا ماہر خطاطوں سے اس مسجد میں چار کتبے تحریر کئے گئے ، ایک میں مسجد کی تاریخ تھی ، دوسرے میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنہ تھے ، تیسرے میں حضور اقدس ﷺ کے ننانوے اسمائے گرامی تھے ، اور چوتھے میں جہاد کے احکام ، سلطان کو اس بات کا خیال تھا ، کہ جب وہ اپنے محل سے مسجد میں جائے گا، بحیثیت بادشاہ کے لوگ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونگے تو بھیڑ ہوگی اس سے نمازیوں کو بھی تکلیف ہوگی ، اسلئے انھوں نے قصر شاہی سے مسجد میں آنے کے لئے شمالی جانب ایک الگ دروازہ بنوایا جہاں سے وہ خاموشی کے ساتھ مسجد میں آتے تھے ۔

شعری و ادبی ذوق

                سلطان ٹیپو شہید ؒ کو شعر و ادب کا بھی کافی ذوق تھا اور اپنے تجربات کی بنا پر عمدہ اقوال بھی جو موقع بموقع دلوں کے جذبات کو ابھارنے کے لئے کہا کرتے تھے ان کے مشہور اقوال یہ ہیں : شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیڈر کے سو سال کی زندگی سے بہتر ہے ” تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا سلطان ٹیپو شہید ؒ کی طرف علامہ اقبال کے منسوب کردہ کلام :

               تو رہ نوردِ شوق ہے منزل  نہ  کر   قبول

               لیلی بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ  کر  قبول  

               اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز

               ساحل تجھے  عطا ہو  ساحل  نہ کر   قبول

               کھویا    نہ    جا صنم   کدہ   کائنات    میں

               محفل   گداز گرمی   محفل  نہ   کر    قبول

               صبح   ازل  یہ  مجھ   سے کہا جبرئیل نے

               جو  عقل  کا  غلام  ہو  وہ   دل نہ کر قبول

               باطل   دوئی    پسند ہے  حق لا شریک ہے

              شرکت    میانہ   حق   باطل    نہ کر   قبول

وفات

                 سلطان ٹیپو شہید ؒ اپنی پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے کچھ حاسدین درباری کی غداری سے 4 مئی 1799 ء کو اپنے سینے میں گولی کھا کر داعئ اجل کو لبیک کہا، انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

تاثرات

              سلطان ٹیپو شہیدؒ اگر چہ بادشاہ تھے ، لیکن انھوں نے کبھی بھی بادشاہت کی زندگی نہیں گزاری ، کیو ں کہ جس شخص کے اندرون میں صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت ، فاروق اعظم کی جلالت ، عثمان غنی کی سخاوت ، علی مرتضی کی شجاعت موجود ہو وہ شخص کس طرح ان سب خصوصیتوں کو پیچھے رکھ کر عیش کی زندگی  گزار سکتا ہے ۔(ملت ٹائمز)