اسلام میں قیادت کا تصور

محمد عنایت اللہ اسد سبحانی

عربی لغت میں قیادت کے معنی ہوتے ہیں گھوڑے کی لگام، یا اونٹ کی نکیل تھام کراس کے آگے آگے چلنا،یہیں سے یہ لفظ کسی تنظیم،یا کسی جماعت یا کسی امت کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونے لگا۔اس طرح لفظ قیادت میں بنیادی طور سے دو مفہوم پائے جاتے ہیں،یہ دونوں مفہوم جب تک بیک وقت نہ پائے جائیں،اس وقت تک کوئی قیادت قیادت کہی جانے کی مستحق نہیں ہوتی،اس لیے کہ وہ قیادت کی برکتوں سے یکسر محروم ہوتی ہے، اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی قیادت میں دو شرطوں کا پایا جانا ناگزیر ہے :
پہلی شرط:
قیادت کی پہلی شرط ہے قافلے کی سربراہی ۔ قائد وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ قوم یا جماعت کے آگے آگے چلتا ہے،جس مقصد،یاجس نصب العین نے سب کو یکجا کیا ہے اس مقصد یا اس نصب العین کی راہ میں جدوجہد کرنے،اور اس کے لیے جانی ومالی قربانیاں پیش کرنے میں قائد ہمیشہ سب سے آگے آگے ہوتا ہے، جس سے ہرایک کو اک نیاجذبہ ملتا ہے، نیاعزم وحوصلہ ملتا ہے۔
بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم سفر ساتھی تھک کر چور ہوجاتے ہیں،یا چلتے چلتے ان کے پیروں میں چھالے پڑجاتے ہیں،مگر وہ اس آبلہ پائی کے باوجوداپنا سفر جاری رکھتے ہیں، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا قائد آگے آگے چل رہا ہے،وہ ہرطمع و خوف ، اور ہر سود وزیاں سے بے پروا ہوکراپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
جب قائد وادی پُرخار سے گزرتے ہوئے آگے آگے چل رہا ہو ، اور ساتھیوں کو للکار رہا ہو (تیز ترک گام زن، منزل ما دور نیست!)یعنی (قدم تیز ، ذرا اور تیز بڑھاؤ، منزل ہماری اب دور نہیں ہے!) تو قافلے کو اس کے ساتھ چلتے ہوئے اک لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک اچھا قافلہ کبھی ایسے بے لوث اورباعزم قائد کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہیں کرسکتا۔
اس کی بہترین مثال ہمیں اپنے قائدو رہنما حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ میں ملتی ہے،غزوۂ احد کا موقع ہے،اس غزوے میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے،سرمبارک میں کوئی بھاری پتھر آکر لگا،سر مبارک پر آہنی ٹوپی تھی،اس کی کچھ کڑیاں سرمبارک میں گھس گئیں ، اورسر سے خون کے فوارے جاری ہوگئے، اور دیر تک جاری رہے، فطری طور پر آپ کو کافی نقاہت ہوگئی، مگر آپ کے جوش وہمت میں کوئی کمی نہیں آئی،آپ آخر تک لوگوں کے لیے بلند ہمتی اور جاں بازی کا قابل تقلیدنمونہ بنے رہے۔
پھر جنگ ختم ہوئی،اور صحابۂ کرامؓ میدان احد سے مدینے واپس آگئے،اور اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے،رات میں آپ کو خود اندازہ ہوا،یا کسی نے آکر اطلاع دی،کہ لوگ آج رات سوئے نہیں ہیں،میدان احد میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی،اس سے بہت غم زدہ ہیں !
آپ نے سوچا ،لوگ گھروں پر رہیں گے،تو انہی باتوں کو یاد کر کر کے روتے اور غم میں گھلتے رہیں گے، ضروری ہے انہیں فوری طور پر کسی مہم میں مشغول کردیا جائے۔
آپ نے رات میں ہی اعلان کرادیا : صبح سویرے ہی قریشی لشکرکا پیچھا کرنا ہے،تاکہ رہی سہی کسر پوری کردی جائے،لہٰذا کل جنگ میں جولوگ شریک تھے، وہ سب لوگ صبح سویرے نکلنے کے لیے تیار ہوجائیں، اس بات کا خیال رہے کہ اس مہم میں کوئی ایسا شخص نہیں نکلے گا، جو کل کی جنگ میں شریک نہیں تھا !
یہاں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ پیارے نبی ﷺ خود زخموں سے چور تھے،مگرقریشی لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے بنفس نفیس تیار تھے ! ایسی صورت میں کوئی شخص یہ عذر کیسے کرسکتا تھا،کہ میں زخمی ہوں،یا میرے ساتھ یہ مجبوری ہے !
یہاں عذر کرنے کا کیا سوال تھا ؟ یہاں تو صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص زخموں کی شدت سے نڈھال تھا،وہ اس قابل نہیں تھا کہ اپنے پیروں سے چل سکے، یا خوداپنے جسم کو سنبھال سکے،تو وہ اپنے بھائی سے یہ منّت کررہا تھا، کہ وہ اسے سہارا دے،یا اسے اپنی پیٹھ پر لاد کر اس مہم پرلے چلے !
چنانچہ یہ تھکی ماندی اور زخموں سے چور اسلامی فوج صبح سویرے ہی اپنے قائداعلی کی فرماں برداری میں قریشی لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑی،اور حمراء الاسد تک ان کا پیچھا کیا، جو مدینے سے آٹھ میل پر واقع ہے،لیکن قریشی لشکر کو کسی طرح یہ بھنک مل گئی، کہ مسلمان ان کے تعاقب میں نکلے ہیں،لہٰذا وہ کہیں ٹھہرے بغیر بے تحاشا بھاگتے چلے گئے۔
حمراء الاسد پہنچ کر آپ نے لوگوں کو حکم دیا، کہ یہیں ٹھہر جائیں، اس سے آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے،وہیں آپ ساتھیوں کے ساتھ تین دن ٹھہرے رہے،ان کو مختلف کاموں اور پروگراموں میں مصروف رکھا،یہاں تک کہ ان کی طبیعت بہل گئی،غم کی شدت کم ہوگئی، پھر آپ انہیں ساتھ لے کر مدینے واپس آگئے۔
صحابہ کرام کے اندراپنے قائدکی بے چون وچرا اطاعت کایہ جذبہ کہاں سے آیا ؟ اس جوش وجذبے کا راز اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا،کہ ان کا قائد صحیح معنوں میں قائد تھا ! آپ لوگوں کو جس کام کا حکم دیتے تھے، اس کام کو انجام دینے میں سب سے پیش پیش رہتے تھے، اور صحابۂ کرام آپ کے پیچھے پیچھے دوڑ تے تھے۔
دو سری شرط:
قیادت کی دوسری بنیادی شرط بے لوث محبت، فراخ دلی اور کشادہ ظرفی ہے،قائد وہ ہوتاہے، جس کا دل بہت بڑا، ظرف بہت کشادہ، اوردائرۂ محبت وتعارف بہت وسیع ہوتا ہے،وہ اپنے قافلے کے ہر ہر فرد کو براہ راست جاننے، ا س کے کام آنے ، اس کے حالات اور اس کی صلاحیتوں سے واقف ہونے کی کوشش کرتا ہے۔اور قافلے کا کوئی بھی فرداس سے ملنا چاہے، ا س سے کوئی رہنمائی حاصل کرنا چاہے،تو اس کے لیے اس کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔وہ ہر ایک سے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ملتا ہے،اور ملنے والے کو اس سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔
ایک قائداور اس کی قوم،یا اس کے ساتھ چلنے والے قافلے کے درمیان وہی قرب ہوتا ہے،جو قرب ایک شہسوار اور اس کے گھوڑے،یا ایک شتر سوار اور اس کے اونٹ کے درمیان ہوتا ہے۔
قیادت کی یہی روح ہوتی ہے،جو کسی قائد کا رأس المال ہوتی ہے،اور جب کسی قائد کے اندر یہ روح پائی جاتی ہے،تو وہ ایک کامیاب اور ہر دل عزیزقائد ہوتا ہے۔ہمارے قائد ورہنما حضرت محمد ﷺ کے یہاں یہ روح قیادت بدرجۂ اتم موجود تھی۔
صحابۂ کرام میں سے ہرشخص براہ راست آپ کے رابطے میں ہوتا،نہ صرف رابطے میں ہوتا،بلکہ آپ کی شفقتوں اور محبتوں سے جی بھر کے سیراب ہوتا،آپ سے ملنے کے بعد ہرایک کا یہ احساس ہوتا کہ وہ آپ کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔
خلفائے راشدین کی قیادت:
صحابۂ کرام نے آپ کے اندریہ خوبیاں دیکھیں،اور آپ سے یہی خوبیاں سیکھیں،چنانچہ خلفائے راشدین کے ہاں کوئی حاجب اور کوئی دربان نہیں ہوتا تھا،ہر ایک شخص خلیفۂ وقت سے جب چاہے مل سکتا تھا۔
خود خلیفۂ وقت کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی تھی،کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اس کی سلطنت میں کوئی مظلوم اور پریشاں حال ہو،اور وہ کسی مجبوری سے اپنی مظلومیت اور پریشاں حالی سے خلیفہ کو آگاہ نہ کرسکا ہو!
راتوں میں اٹھ اٹھ کر خلیفۂ و قت انسانی آبادیوں میں گشت لگاتا تھا، کہ کہیں کوئی کسی مصیبت سے تو دوچار نہیں ہے؟کہیں کوئی بھوکا اور پیاسا تو نہیں ہے؟ کہ وہ اسے کھانا مہیا کرسکے،یا اس کی مصیبت دور کرسکے۔
خلیفۂ وقت کی یہ فکرمندیاں اہل مدینہ یا اہل مکہ کے لیے خاص نہیں ہوتی تھیں، ان کی محبتیں اور ان کی غم خواریاں سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی کی طرح سب کے لیے عام ہوتی تھیں۔
قریہ قریہ اور شہر شہر تو گھومناان کے لیے ممکن نہیں تھا،مگرجب حج کا موسم آتا تھا، اورسلطنت اسلامیہ کے کونے کونے سے حاجیوں کے قافلے مکے آتے تھے،تو خلیفۂ وقت منی اور عرفہ کے میدانوں میں لگے ہوئے لاکھوں خیموں میں خودجاجاکرایک ایک حاجی سے ملتا اوراس سے پوچھتا تھا:
تمہیں کوئی شکایت تو نہیں ہے؟ تمہارے علاقوں میں تمہاری خدمت کے لیے ہماری طرف سے جو نمائندے بھیجے گئے ہیں،وہ صحیح طور سے اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ وہ تمہارے ساتھ کوئی سختی ،یا زیادتی ، یا نا انصافی تو نہیں کرتے؟
خلفائے راشدین کا یہ معمول تھا جس پر وہ سختی سے کاربند تھے،مگر یہ سب کچھ کرکے بھی انہیں اطمینان نہیں ہوتا تھا،خلیفۂ وقت ہمیشہ اس تصور سے لرزتارہتا تھا،کہ اپنی اس وسیع سلطنت میں اگرکوئی ایک شخص بھی اپنے حقوق سے محروم رہ گیا،کسی ایک شخص پر بھی اگر ظلم ہوا اور وہ انصاف نہیں پاسکا،تومیں حساب کے دن اپنے رب کریم کو کیا جواب دوں گا! اور اپنے محبوب قائدورہنمانبی ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟!
یہ ہے قیادت! اور یہ ہے قیادت کی شان! اوریہ ہے قیادت کے باب میں اسوۂ رسول خدا، اور اسوۂ صحابۂ کرام!
جب تک امت مسلمہ کو یہ مثالی قیادت حاصل رہی، اﷲ تعالی کی رحمتیں اس پر سایہ فگن رہیں،اوراس کی برکت سے پوری نوع انسانی مسرت وشادمانی سے ہم کنار رہی،اور جب اس طرح کی قیادت سے ملت محروم ہوئی،تو یہ صرف ملت اسلامیہ کی محرومی نہ تھی، بلکہ تمام نوع انسانی کی محرومی تھی۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے،کہ اس معیار کی بیدار اور مخلص قیادت ، جو تمام انسانوں کے لیے رحمت ہو،اورکسی بھید بھاؤ کے بغیر تمام نوع انسانی کو اپنی آغوش شفقت میں اٹھائے ہوئے ہو،ایسی قیادت خلفائے راشدین کے بعدباقی نہیں رہی،وہ ان کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔
قیادت کی تقسیم:
خلفائے راشدین کے بعد یہ قیادت دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی:ایک سیاسی قیادت، دوسری مذہبی قیادت،اور یہی تقسیم قیادت ملت کے لیے، بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔کہنے والے نے بالکل صحیح بات کہی ہے۔ ع
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی !
سیاسی قیادت، جو دین ومذہب سے بے پروا، اور خوف خدا سے عاری تھی،اس نے واقعی چنگیزیت کا روپ اختیار کرلیا،اورظلم وسفاکی، اور سنگ دلی وبے رحمی کی انتہا کردی ! اس نے فرعونیت اور نمرودیت کی تمام سنتیں تازہ کردیں !
اس کے مقابلے میں مذہبی قیادت،جواقتدار وقت کی نگاہوں میں معتوب، اور عزت وقوت کے تمام مظاہر سے محروم تھی،رفتہ رفتہ انتشار کا شکار ہوتی گئی،اورملت واحدہ بے شمارفرقوں اور گروہوں کا مجموعہ بن گئی !
اسلام میں قیادت کی تقسیم سرے سے نہیں ، سلطنت کے جتنے بھی شعبے ہوں گے،ان شعبوں کے اگرچہ الگ الگ ذمے دار ہوں گے، لیکن وہ سارے ذمے دار قائد اعلی کے ماتحت اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں گے،اور خودقائد اعلی قانون الٰہی یا شریعت کے سامنے جواب دہ ہوگا، گویاقانون الٰہی کے نفاذ میں اگراس سے کوتاہی یا تساہلی ہوتی ہے،تو بلاتاخیر اس کا احتساب ہوگا،یہ احتساب کرنا اس کی مجلس شوری کا فرض ہوگا،اور اگر مجلس شوری اپنے اس فرض سے غافل ہوتی ہے،تو ملت کا کوئی گروہ یا کوئی بھی فرد اس کا،اور اس کی شوری کا بھی احتساب کرسکتا ہے۔
قیادت کی بنیاد شورائیت:
اسی طرح اسلامی قیادت کی بنیاد شوری پر ہوتی ہے،یہ شوری تمام معاملات میں قائد کی مددگارہوتی ہے،گویا قائدتمام اہم معاملات میں اس کے ساتھ مشاورت کا پابند ہوگا،اورشوری کی موافقت کے بغیرکوئی اہم اقدام کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔
خود شوری بھی اس بات کی پابند ہوگی،کہ شریعت الٰہی کے دائرے سے تجاوز نہ کرے،وہ اپنے قائد کو جو بھی مشورہ دے،یا جس کام کے لیے بھی سفارش کرے،یا اس کی جس رائے کی بھی تائید کرے،کسی مضبوط دلیل شرعی کی بنیاد پر کرے،بغیر کسی واضح دلیل کے اگر شوری کسی بات پر اتفاق بھی کرلیتی ہے،تواس اتفاق رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،اور قائداعلی اس کا ذرا بھی پابند نہیں ہوگا۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ دین وشریعت سے متعلق جتنے بھی معاملات ہوں،یعنی ایسے معاملات جن میں حق اور باطل یاجائز اور ناجائز کا سوال اٹھتا ہو،وہاں کثرت رائے، یا اتفاق رائے کی کوئی اہمیت نہیں،وہاں فیصلہ کن چیز صرف دلیل شرعی ہوگی،چاہے وہ کسی نص شرعی کی صورت میں ہو،یا اس سے استنباط کی صورت میں۔
چنانچہ کسی معاملے میں اگرپوری شوری کا رجحان ایک طرف ہو،مگر اس کی کوئی واضح دلیل نہ ہو،اورتنہا ایک شخص کوئی دوسری رائے پیش کرتا ہو،اور وہ اپنی رائے کی پشت پر کوئی واضح دلیل رکھتا ہو،تو اس ایک شخص کی رائے قابل ترجیح ہوگی،بقیہ رائیں قابل رد ہوں گی۔
خلفائے راشدین کے ہاں واضح طور سے یہی بات نظر آتی ہے،انہوں نے ہمیشہ اپنے فیصلوں کی بنیاد دلیل پر رکھی،کبھی کثرت رائے پرکسی فیصلے کی بنیاد نہیں رکھی۔مانعین زکاۃ سے جہاد کے معاملے میں خلیفۂ اولؓ تنہا تھے،ورنہ دوسرے تمام لوگ اس کے حق میں نہیں تھے کہ مانعین زکاۃ سے جہاد کیا جائے،مگر عمل خلیفۂ اولؓ کی رائے پر ہوا،اس لیے کہ ان کی دلیل سب سے زیادہ معقول، اورسب سے زیادہ وزن دار تھی۔
اب اگر قائد امت،یا قائد ملت، یا قائد جماعت شوری سے مشورے لینے کا پابند ہوتا ہے،اور قائد اور مجلس شوری دونوں اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی رایوں اورفیصلوں کی بنیادواضح اورصحیح دلیلوں پر رکھیں،کسی بھی مسئلے میں ہاتھوں اور سروں کو گننے کی غلطی نہ کریں،تو اس سے تمام فتنوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں،اور جماعتوں اور تحریکوں میں جو سیاسی جوڑ توڑہوتے ہیں،جن کے نتیجے میں ان کے قبلے بدل جاتے ہیں،اور وہ اپنی منزل کی طرف دوڑنے کے بجائے منزل کو پیٹھ دکھا دیتی ہیں، ان تمام فتنوں سے عافیت ہوجاتی ہے۔
اسلامی شوری اور سیکولر جمہوریت میں جوبنیادی فرق ہے،وہ اس کے علاوہ اور کیا ہے؟ کہ جمہوریت میں بندوں یا سروں کو گنا جاتا ہے، اور اسلامی شوری میں بندوں یا سروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی،اہمیت ہوتی ہے تو صرف اس بات کی،کہ اس معاملے میں شریعت کا حکم کیا ہے؟
اسلامی نظام میں سارے لوگوں کی کوشش اور تمنا یہی ہوتی ہے، کہ اگر سارے لوگ نہیں تو ہم میں کا کوئی ایک شخص تو درپیش معاملے میں حکم شرعی تک پہنچ جائے ! اور اگرایک شخص بھی کسی معاملے میں حکم شرعی کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا،تو یہ تنہا اس کی کامیابی نہیں ہوتی ،یہ پوری مجلس اور پوری امت کی کامیابی ہوتی ہے۔اور ظاہر ہے اس کا فیصلہ دلائل سے ہوگا،کثرت رائے سے نہیں ہوگا۔
یہ ہے اسلامی قیادت ۔اس قیادت کی بنیاد خالص تقوی وخشیت الٰہی، اخلاص ودل سوزی ، نیک نفسی و بے لوثی،انسانوں کی خیرخواہی وغم خواری،اور قرآنی علم وبصیرت پر ہوتی ہے۔
یہ قیادت اگرمیسّر آجائے،تو قوم کی ترقی اور کامیابی یقینی ہوتی ہے،دنیا کی کوئی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی،مگریہ ملت اسلامیۂ ہند کی بدقسمتی ہے کہ اسے اس وقت اس طرح کی کوئی قیادت حاصل نہیں ہے،ورنہ وہ اس قدر زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی !
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ تعلیم کا مسئلہ آج ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی دشوار اور پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے ؟آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں بے شماردینی تعلیمی ادارے ہیں، چھوٹے چھوٹے ادارے بھی ہیں، بہت بڑے بڑے دارالعلوم اور جامعات بھی ہیں،مگر یہ سارے ادارے بالکل بے فیض ہوکر رہ گئے ہیں،نہ وہاں ٹھوس تعلیم ہے،نہ اچھی تربیت،آج جو نسلیں ان اداروں سے نکل رہی ہیں،سماج کو ان سے کیا مل رہا ہے؟
آج کوئی شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانا چاہے،تو وہ حیران وپریشان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کہاں لے جائے کہ وہ دین کی مطلوبہ تعلیم بھی حاصل کرلیں ،اور ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بگڑیں بھی نہیں!
علامہ اقبالؒ نے آج سے بہت پہلے فرمایا تھا،اور بہت صحیح فرمایا تھا،مگرقائدین ملت نے غالبا اسے نری شاعری سمجھ کرکوئی اہمیت نہیں دی: ؎
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غم ناک!
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ !
وہ اکابر،جو ان دینی اداروں کے کرتا دھرتا ہیں، اور جو آج قیادت کے منصب پر فائز ہیں،کیا وہ اس صورت حال سے واقف نہیں ہیں؟ کیا انہیں یہ پتہ نہیں ہے کہ ان اداروں میں کیا ہونا چاہیے تھا، اور کیا ہورہا ہے؟
مولانا مودودیؒ نے کسی موقع پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں فرمایا تھا، کہ یہ تعلیم گاہیں نہیں، قتل گاہیں ہیں !ان کا مقصد واضح تھا، وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ مسلم بچے اور مسلم نو جوان ان سیکولر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاکر بگڑجاتے ہیں، وہ اپنا دین وایمان سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں ! لہٰذا مسلمانوں کوخود اپنے طور پر ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں،جہاں جدید علوم کی تعلیم وتدریس کا اچھا انتظام ہو، تاکہ ہمارے بچے اور ہمارے نوجوان یہ سارے علوم حاصل کریں،مگر باکرداراور خداترس پروفیسرس کی نگرانی وسرپرستی میں، تاکہ وہ نظام باطل کی لعنتوں سے محفوظ رہیں !
یہ بہت ہی اہم پہلو تھا،جس پر ہمارے مسلم قائدین کوسنجید گی سے غور کرنا چاہیے تھا، جدید تعلیم کے بے شمار ادارے اس طور سے قائم کرنے کی جدوجہد ہونی چاہیے تھی،کہ ان کی تعلیم معیاری، اور ماحول پاکیزہ ہو،مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی !
ظاہر ہے جب ہم دینی تعلیم وتربیت کا ہی صحیح انتظام نہ کرسکے،تو جدید علوم کی تعلیم وتدریس کا انتظام کہاں سے کریں گے؟
یہ ایک مثال ہوئی،زیادہ مثالیں دینے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ مجموعی صورت حال یہ ہے، کہ ملت بڑی تیزی کے ساتھ بربادی کی طرف جارہی ہے،کوئی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہو،کوئی نہیں ہے جو اسے صحیح مشورہ دینے والا ہو،کوئی نہیں ہے جواس کے درد کو سمجھنے والا، اور سنجیدگی سے اس کے مسائل کو حل کرنے والا ہو !!!
قائدین بے شمار ہیں،مگر وہ اپنی اپنی دنیا ؤں میں مست ہیں، وہ اپنی مسندوں سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں! ناخداؤں کی کمی نہیں ، مگر وہ سفینے کو سنبھالنے اور اسے غرق ہونے سے بچانے کے لیے فکرمند نہیں !!!
اس کی وجہ کیا ہے؟یہ ایک بہت اہم سوال ہے،جس کا صحیح جواب شاید قائدین ملت خود ہی دے سکتے ہیں! البتہ ہم ان کی آسانی کے لیے ایک شعر ان کی خدمت میں نذر کرتے ہیں ۔ ؎
طائف میں مقدس خوں ٹپکا ! مکے میں کبھی پتھر کھائے !
بس ایک تڑپ تھی ،کیسی تڑپ؟ انسان ہدایت پا جائے!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں