ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اس نے آخری سانس لی۔ پورے ملک نے بظاہر رنج و غم کی چادر اوڑھ لی۔ اخبارات نے خصوصی ضمیمے نکالے۔ الکٹرانک میڈیا نے سپرد آتش ہونے تک تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی شخصیت نے ان کے لئے اچھے سے اچھے الفاظ کا استعمال کیا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ملک کا آخری اچھا انسان گذر گیا۔ ہر کسی کو اس کی اچھائیاں ہی اچھائیاں یاد آتی گئیں‘ شاید اس لئے کہ ان کی نظر میں اُسی جماعت کے‘ اُسی قبیل کے اور دوسرے جو لوگ اب موجود ہیں‘ ان کی برائیاں، ان کے کردار، سے تقابل کرنے پر گذرنے والی ہستی ان سے بہتر نظر آئی۔ وہ شاعر بھی تھے، ادیب بھی، سیاست دان بھی اور پھر اس ملک کے سب سے جلیل القدر عہدہ پر خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل کرنے والی شخصیت بھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کم از کم ہمارے ذہن میں ایسی تین ہستیوں کے نام ہیں جن کی جڑیں‘ فرقہ پرستی کی زمین میں دھنسی ہوئی رہیں‘ جو غیر معمولی ذہین رہے اور اپنی ذہانت سے فرقہ پرستی کو ہتھیار بناتے ہوئے وہ ملک کے سب سے اعلیٰ جلیل القدر عہدہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے دو کا تعلق ایک ہی جماعت سے رہا اور ان دو کے درمیان وہ تیسری ہستی تھی۔ اگرچہ کہ اس کا تعلق فرقہ پرست جماعت سے نہیں تھا مگر اس کی رگوں میں دوڑنے والے لہو میں یقیناً فرقہ پرستی اور تعصب پرستی کے اجزاء شامل تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس درمیانی ہستی نے اپنے آپ کو سیکولر جماعت کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے بھی اپنے دور میں وہ کام انجام دےئے جانے کا موقع فراہم کیا جس کی بدولت فرقہ پرست جماعتوں کے لئے اس ملک کا عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے راستہ آسان ہوگیا۔ بقول شاعر ’دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے‘ کے مصرعہ کو عملی شکل دی۔ شاید فرقہ پرست جماعتوں نے اسے مزید اعلیٰ عہدوں پر براجمان کرنے کا وعدہ کیا ہوگا‘ جو پورا نہیں کیا گیا۔ وقت گذر گیا‘ نام نہاد سیکولر اور علی الاعلان فرقہ پرست ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں کے ہم خیال ہم ذہن عناصر نے تیس برس پہلے اس ملک کی تاریخ کو اپنی مرضی سے اپنے انداز سے مرتب کیا۔ اور جس کردار کیلئے ہمارا ملک ساری دنیا میں مشہور رہا‘ اس کردار کو اس عمارت کے ملبے تلے دفن کردیا جو ایکتا، مروت، رواداری، کی علامت سمجھی جاتی رہی۔
یہ سچ ہے کہ جس وقت اس مقدس عمارت کی ایک ایک اینٹ توڑی جارہی تھی‘ صدیوں کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا تھا۔ اس وقت یہ ہستی اس مقام پر موجود نہیں تھی‘ مگر سننے میں یہی آیا تھا کہ وہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی۔مقام واردات پر ان کی عدم موجودگی میں بھی پریوار کی مصلحت اور منصوبہ بندی تھی۔ وہ ایک طرح سے ان کے دامن کو بے داغ رکھنا چاہتی تھی۔
ایک محب وطن کی موت پر سارا ملک غمزدہ ہوتا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ محب وطن کی تعریف و تشریح کیا ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے وطن ہندوستان کو ’ہندو‘ ستان کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے‘ کیا اُسے محب وطن کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اُن ہستیوں کو کیا کہا جائے گا جنہوں نے اس ملک کو سیکولر بنانے کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔ مان بھی لیتے ہیں کہ وہ سیکولر تھے‘ بھلے ہی اُس دور میں جب گاندھی جی کی قیادت میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے لئے پورا ملک ایک ہورہا تھا یہ ہستیاں انگریزوں کے ایجنٹس کے طور پر کام کررہی تھیں۔ ویسے بھی وقت کے ساتھ ساتھ ملک کا کردار بدل دیا گیا۔ مہاتما کے قاتلوں کو اپنا آئیڈیل سمجھا جانے لگا۔ وہ تنظیم جس نے کبھی ترنگے کو اہمیت نہیں دی‘ وہ قوم پرستوں کی نمائندہ قرار دی گئی۔ اور جس نے نسل در نسل اس ملک کے شہریوں کو ذہنی اور فکری آلودگی دی۔ وہی اس ملک کے محافظ کہلانے لگی۔ وقت وقت کی بات ہے۔ یہ فکری زوال قوم کے عروج کی علامت سمجھا جانے لگا۔ بچپن سے لے کر اپنا ہوش و حواس کھونے تک اس ہستی کا تعلق کٹر فرقہ پرست جماعت سے رہا‘ جس پر اُسے فخر رہا اس کے باوجود وہ ملک کے عظیم ترین محبان وطن کی فہرست میں شامل ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب اقتدار ملا تو نظریاتی اختلاف کے باوجود اس نے کچھ ایسے کام کئے جس کی وجہ سے سینے میں نرم گوشے پیدا ہوجاتے جیسے ان کی پالیسی کی بدولت 17برس کے طویل صبر آزما وقفہ کے بعد دو پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات بحال ہوئے۔ بچھڑے ہوئے خاندانوں میں دوبارہ ملاپ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ اقتدار ملا تو ملک سے باہر نکلنے کے لئے سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی گئیں۔ ہمسایہ ملکوں سے دوستی بحال ہوئی اگرچہ جنگ بھی لڑی گئی اور فتح بھی حاصل ہوئی۔ ایک طرف اس ملک کے ایک طبقہ کو اس ہستی سے امیدیں پیدا ہوئیں مگر ایک ریاست میں اسی طبقہ کی نسل کشی اور تاریخ کے بدترین فسادات نے اِن امیدوں پر پانی پھیر دیا کیوں کہ ملک کی عنان اقتدار اسی کے ہاتھ میں تھی۔ اور وہ چاہتے ہوئے بھی اُس ریاست کے مقتدر اعلیٰ کو اس کے منصب سے ہٹا نہیں سکے۔ کیوں کہ جو شخص 58برس سائے کی طرح اس ہستی کے ساتھ رہا اور بس ہاتھ ملتا ہی رہ گیا‘ اُس نے ریاست کے حاکم کو اس کے منصب سے ہٹانے کی مخالفت کی اور ڈھکے چھپے لہجہ میں پارٹی میں بغاوت، گروہ بندیوں کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ ایک طاقتور انسان جس نے ایک فرقہ پرست تنظیم کی ایک جڑ کو اپنی صلاحیت، ذہانت، مقبولیت، دور اندیشی سے تناور درخت میں بدل دیا تھا۔ وہ اپنی ہی پارٹی میں کمزور و بے بس ہوکر رہ گیا۔ اگر وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے تو شاید آج ملک کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ مگر ان کے سائے میں پروان چڑھنے والوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ملک کی اقلیت کی نعشوں پر جو کامیابی کا اب پرچم لہرارہے ہیں‘ وہ مستقبل میں دارالحکومت میں قومی پرچم لہرائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دراصل ’’پریوار‘‘ کے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ کیوں کہ جس طرح اکثر ممالک میں اقتدار پر وہی لوگ فائز ہوتے ہیں‘ جن کے تانے بانے ’’فری میسن‘‘ سے ملتے ہیں‘ اُسی طرح ہمارے پاس اقتدار اُسی کو ملتا ہے یا دیر تک اسی پر برقرار رہتا ہے جس کی باگ ڈور پریوار کے ہاتھ میں ہوتی ہے چاہے وہ اپنے آپ کو کتنے ہی سیکولر ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کرے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو سیکولرزم کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے‘ وہ خاکی چڈی کی ذہنیت کے حامل تھے۔ اردو میں بات کرنا‘ مشاعروں میں شرکت موقع بے موقع ٹوپی پہن لینا اور کندھوں پر رومال ڈال لینے سے کوئی سیکولر نہیں بن جاتا کیوں کہ یہ تو بہروپ ہے۔ ورنہ تلک دھاری بھی سیکولر ہوسکتے ہیں۔ ہم جس کا ذکر کررہے ہیں‘ انہیں پریوار نے بہت منصوبہ بند طریقہ سے اعتدال پسند شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ باقاعدہ مارکیٹنگ کی گئی‘ کیوں کہ ملک کے عوام کے لئے ایسی ہی قابل قبول شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس کے دل میں بھلے ہی زہر ہو مگر زبان میں شہد کی چاشنی ہو۔ کبھی کبھی دل کا زہر شہد کی چاشنی پر غالب آجاتا‘ جیسے 1983ء میں آسام کے نل لی فسادات سے پہلے ہوچکا ہے۔ جب ان کی زہر آلود تقریر مسلمانوں کے قتل عام کا سبب بنی۔ ویسے بنگلہ دیشی مہاجرین کا مسئلہ بھی انہوں نے ہی چھیڑا تھا اور کویتاؤں میں انسانیت اور بھائی چارہ کا درس دینے والے نے گوا میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ ان کی پارٹی کو مسلمانوں کی ووٹوں کی ضرورت نہیں۔ 2002ء میں بھی ایک رسمی جملہ ادا کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ورنہ چاہتے تو بہت کچھ ہوسکتا۔
ان کے دور میں ملک کی صدارت پر ایک ایسی شخصیت کو ضرور فائز کیا گیا جس نے ملک کی پرواز کو خلا تک پہنچادیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا تعلق اسی اجڑی اور کچلی ہوئی قوم سے تھا جس کی نسل کشی کی گئی تھی اور جس نے صدارتی عہدہ پر فائز کئے جانے کے باوجود فساد زدہ ریاست کا دورہ کیا تاکہ اپنی آنکھوں سے اپنی قوم کی بربادی کے آثار دیکھ سکے۔
ایک طویل عرصہ تک موت و حیات کی کشمکش کے بعد بالآخر وہ چل بسے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کیا جانا فطری ہے کیوں کہ وہ بہر حال ملک کے باوقار منصب پر فائز تھے۔ اپوزیشن کی صفوں میں تھے تب بھی ان کا قد واضح اور نمایاں تھا۔ اچھے شاعر، اچھے مقرر، کامیاب سیاست دان تھے۔اس سے زیادہ پریوار کے نمائندے تھے۔ بظاہر کشاہ دل کشادہ ذہن، اعتدال پسند تھے۔ مگر اندر سے پریوار کے کٹر نمائندے تھے۔ اور آخری دم تک ویسے ہی رہے۔ انہوں نے تو یہ کہا بھی تھا کہ آج جس عہدہ پر ہوں ہوسکتا ہے کہ کل نہ رہوں گا مگر پریوار کا حصہ تو ہمیشہ رہوں گا۔ وہ اس پر قائم رہے۔ عجیب لوگ ہیں ہمارے بھی! تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں‘ شاید یہ ان کی اپنی مجبوریاں ہیں‘ ہم تو مجبور نہیں جو سچ ہے کہیں گے، لکھیں گے چاہے تنقید کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑ
ے۔
(مضمون نگارگواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226






