شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ڈاکٹر کلپنا نے حج پر بھی گفتگو کی ہے، ان کو اعتراض ہے کہ” حج میں صرف مسلمان کیوں جاتے ہیں، اور دوسرے لوگ کیوں نہیں جا سکتے؟ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور یہاں دوسروں کو سکھاتے ہیں، حج کے لئے ہمارے بھائی پیسے بھیجتے ہیں، شاید ان کی مراد یہ ہے کہ حکومت حج میں سبسیڈی دیتی ہے، جو عوامی پیسہ ہوتا ہے، اور اس میں ہندو عوام کے پیسے بھی شامل ہوتے ہیں“ — غور کیا جائے تو حج سے متعلق انہوں نے جو باتیں کہی ہیں، ان میں کوئی معقولیت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ حج کی عبادت پر یقین رکھتے ہیں، وہی تو حج کے لئے جائیں گے، جو لوگ اللہ کو ایک نہیں مانتے، جن لوگوں کا انبیاءپر ایمان نہیں ہے، جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان نہیں رکھتے،جن کے طریقہ کے مطابق حج کیا جاتا ہے، وہ حج کے لئے کیوں جائیں گے؟ اگر کسی دوسرے ملک کا شخص کہے کہ ہم بھی تو انسان ہیں، ہم ہندوستان کی پارلیامنٹ کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ جو لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اور جن کا اس ملک کے دستور پر یقین ہی نہیں ہے ، وہ کیسے یہاں کی پارلیامنٹ کے رکن ہوسکتے ہیں؟ ہندو بھائی غور کریں کہ ان کے یہاں تو بعض مندروں میں کسی بھی غیر برہمن کا داخلہ نہیں ہوسکتا، بعض میں دلتوں کا داخلہ نہیں ہو سکتا،بعض میں غیر ہندو کا نہیں ہو سکتا اور بعض میں خواتین کا نہیں ہو سکتا، حد تو یہ ہے کہ ملک کے بعض صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کو بھی ان مندروں میں داخلہ کی اجازت نہیں ملی؛ لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا کہ ہم آپ کی مندروں میں کیوں نہیں جا سکتے؟ اس لئے کہ جب ہم اس مذہب پر یقین نہیں رکھتے تو ہمیں اس کے مقدس مقدمات میں جانے پر اصرار کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلمان حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے ہیں—یقیناََ مسلمان حج میں بہت کچھ سیکھتے ہیں؛ لیکن وہ نفرت نہیں سیکھتے، محبت سیکھتے ہیں، سیاہ و سفید، ما لدارو غریب، حکمران و محکوم، تعلیم یافتہ اور جاہل، الگ الگ زبانیں بولنے والے اور الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے دنیا کے کونے کونے سے حج کے لئے پہنچتے ہیں، نہ ان میں کوئی بڑا سمجھا جاتا ہے نہ چھوٹا، حج کے ہر عمل میں ہرشخص کی شرکت ہوتی ہے، اور انسانی مساوات کا ایسا منظر سامنے آتاہے کہ شاید ہی دنیا میں کہیں اس کی مثال مل سکے، اور کیوں نہ ہو؛ کہ حج ہی کے اجتماع میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی عربی کو غیر عربی پر رنگ ونسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۶۱) یہ سبق مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں واپس ہو کر برادران مذہب اور برادران وطن کو دیتے ہیں، اور ہندو بھائیوں کو تو اس پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،اگر آپ اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ سبق سیکھ لیں تو ملک کا کتنا بھلا ہو جائے!
آپ کی کتابِ شریعت” منوسمرتی“ میں پیدائشی طور پر انسانی تفریق اور ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کی جو تعلیم دی گئی ہے، شاید ہی پیدائشی نابرابری اور انسان اور انسان کے درمیان تفریق کی ایسی کوئی اور مثال ملتی ہو، جیسے منوجی فرماتے ہیں: شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک (دوزخ) میں جاتا ہے۔ (17:3) برہمن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے، (99:4) اور نہ شودر کا کھانا کھائے، (211:4) جو شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا، وہ بھی اس شودر کے ساتھ جہنم میں جائے گا، (17:3) منو جی کی تعلیمات میںہے: اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک روزہ رکھے، اور اگر عمداََ کھالے تو اس کا وہی کفارہ ادا کرنا چاہئے، جو حیض، پاخانہ یا پیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے، (322:4)— یہ تو چند معمولی نمونے ہیں؛ ورنہ منو سمرتی میں ایسے ایسے اقتباسات موجود ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی گراں گزرتا ہے، یقیناََ حج میں انسانی مساوات کا جو سبق ملتا ہے، وہ ایسی بات ہے، جس کو ہمارے ملک میں عام کرنے اور ملک کے تمام شہریوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک حج سبسڈی کی بات ہے تو ایسی سہولتیں ہر مذہبی گروہ کے لئے مہیا کی جاتی ہیں، کنبھ کے میلوں اور ہندو بھائیوں کی مختلف یاتراو ¿ں پر اتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے کہ حج سبسڈی تو شاید اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو، اس طرح کی رعایت عیسائی بھائیوں کے لئے بھی بیت اللحم (فلسطین) کے سفر کے لئے دی جاتی ہے؛ اور یہ ایک معقول بات ہے؛ کیوں کہ ہر طبقہ کے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اور ہم تمام ہندوستانی بھائی بھائی ہیں، ہمیں ایک دوسرے کو سہولت پہنچا کر خوش ہونا چاہئے نہ کہ ناراض، ملک کی عوام کو بلا امتیازِ مذہب وملت سہولت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لیکن اگر غور کیجئے تو مسلمانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی حیثیت ایک خوب صورت دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے، پہلے سفر حج کے لئے پانی جہاز کی سہولت تھی، جس میں کم اخراجات آتے تھے، حکومت نے اسے ختم کر دیا، اس کے بعد سبسڈی کا سلسلہ شروع ہوا؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر عام مسافروں کے لئے زمانہ حج میں ہوائی جہاز کا کرایہ چوبیس پچیس ہزار ہوتا ہے تو حاجیوں کے لئے پینتالیس پچاس ہزار ،حج کمیٹی کو حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بولی لگوائے، اور جو ائیرلائنز سستا ٹکٹ فراہم کرے، اس سے اپنے حاجیوں کو بھیجے؛ بلکہ وہ پابند ہے کہ ایک طرف سے ائیر انڈیا اور دوسری طرف سے سعودی ائیر لائنز ہی کا ٹکٹ حاصل کرے، ائیر انڈیا کی پابندی تو حکومت کی طرف سے ہے؛ لیکن سعودی ائیر لائنز کی پابندی بھی ہندوستان اور سعودیہ کی ہوائی کمپنی کے باہمی معاہدے کی بنیاد پرہے، اگر حج کمیٹی ائیر لائنز کے انتخاب میں آزاد ہوتی تو حکومت جتنی سبسڈی دیتی ہے، اس سے بھی کم رقم میں حجاج کا سفر ہوتا، پھر بھی مسلمانوں پر سبسڈی کا احسان رکھنا کیسی ناانصافی کی بات ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے اپنی اس تقریر میں خاص طور پر جہاد کی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ چودہ سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہے، ان کو ہم دھارمک کہتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ہی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے، اللہ کا کام رکے گا نہیں،یعنی جہاد جاری رہے گا، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اسلام میں ہر کافر واجب القتل ہے، یہ اللہ کا حکم ہے، اور جو اللہ اور جبرئیل کو نہ مانے وہ کافر ہے —- ڈاکٹر کلپنا کی یہ ساری باتیں خلاف واقعہ اور غلط فہمی پر مبنی ہیں، جہاد کا مقصد کافروں کو ختم کرنا نہیں ہے؛ بلکہ ظلم کو روکنا ہے، مسلمانوں کو اُسی وقت جہاد کی اجازت دی گئی ہے، جب ظلم کیا جاتا ہو، اور ان ہی لوگوں سے جہاد کرنے کو کہا گیا ہے، جو ظلم ڈھاتے ہوں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُذن للذین یقاتَلون بأنھم ظُلموا (الحج: ۹۳)
جن سے جنگ وجدال کی جار ہی ہے، ان کو جہاد کی اجازت دی گئی؛ کیوں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔
جو لوگ کفر پر قائم ہیں؛ لیکن وہ معاشرہ میں امن وامان کے ساتھ رہتے ہیں، دوسروں پر ظلم نہیں کرتے اور انہیں گھر بدر نہیں کرتے، ان کے ساتھ جنگ کا نہیں، حسن سلوک کا حکم ہے:
لاینھا کم اللّہ عن الذ ین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیا رکم إن تبروھم وتقسطوا إلیھم إن اللّہ یحب المقسطین (الممتحنہ: ۸)
جو لوگ تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھر وں سے نکالا ہے، اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف برتنے سے نہیں روکتے، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ جو تم سے جنگ کرے، ان ہی سے جنگ کرنے کی اجازت ہے اور اس میں بھی زیادتی کرنے کی گنجائش نہیں ہے:
قاتلوا فی سبیل اللّہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللّہ لا یحب المعتدین (بقرہ: ۱۹۱)
اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کر رہے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
جو غیر مسلم مسلمانوں سے بر سر جنگ نہ ہوں، اس کی زندگی اتنی ہی قابل احترام ہے، جتنی ایک مسلمان کی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل معاھداََ لم یرح رائحة الجنة، وإن ریحھا یوجد من مسیرة أربعین عاما۔ ( بخاری عن عبد اللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۶۶۱۳)
جس نے کسی معاہد(وہ غیر مسلم جس سے پُرامن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا؛ حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات فرمائی کہ غیر مسلموں کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں:
دماءھم کدماءنا وأموالھم کأموالنا (نصب الرایہ: ۴۹۶۳)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کسی انسان کو ناحق قتل کر ڈالے؛ چاہے وہ کسی مذہب کو ماننے والا ہو، گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے:
من قتل نفساََبغیر نفس أو فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا (مائدہ: ۲۳)
اس لئے یہ سمجھنا کہ ہر کافر اسلام کی نظر میں واجب القتل ہے، بالکل غلط ہے، جہاد ظالموں سے ہے نہ کہ کافروں سے، اگرخود مسلمان ظلم کریں تو ان سے بھی جہاد کا حکم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس کی مثالیں موجود ہیں، اور اگر غیر مسلم امن وامان اور انصاف کے ساتھ رہیں تو ان سے بھی جہا دجائز نہیں ہے، پس جہاد کی بنیاد ظلم ہے نہ کہ کفر۔ (جاری)