(مولانا) ابوعمار زاہد الراشدی
ترکی کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو دلچسپ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کو ترکی سے یہ شکایت ہے کہ وہ پون صدی تک مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے اور اس کے ایجنڈے کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد اب کچھ فیصلے آزادانہ بھی کرنے لگا ہے، جس سے امریکہ اور یورپی یونین کو صرف ترکی یا یورپ کی حد تک نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس بغاوت کے اثرات وسیع ہوتے چلے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ نے مغربی استعمار کی کمان سنبھالی تھی تب سے مسلسل صورتحال یہ ہے کہ امریکہ بہادر عسکری قوت، لابنگ، میڈیا اور معاشی بالادستی کے پورے ہتھیاروں کے ساتھ عالمِ اسلام کو اپنے کنٹرول میں رکھنے اور مغربی فلسفہ و تہذیب کو امت مسلمہ پر مسلط کر دینے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ جبکہ مسلم امہ کے حکمرانوں کا عمومی رویہ ’’یس سر‘‘ کے جذبہ کے ساتھ اس کے احکامات کی ہر حال میں تعمیل کرنے کا چلا آرہا ہے۔ مختلف اوقات میں مشرق وسطٰی میں جمال عبد الناصر، شاہ فیصل، مشرق بعید میں ڈاکٹر عبد الرحیم سوئیکارنو، مہاتیر محمد، جبکہ جنوبی ایشیا میں ذوالفقار علی بھٹو مرحومین جیسے لیڈروں نے اس جال کو توڑنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے مگر ’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘ کے مراحل سے گزر کر بھی ان کی بغاوت بالآخر دم توڑ گئی۔ اب بھی مشرق وسطٰی سمیت پورے عالم اسلام میں امریکی پالیسیوں کی حکمرانی ہے اور ڈالر اپنی چمک دمک کا پوری قوت کے ساتھ مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کی تھوڑی بہت جھلک پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ترکی کو ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ کم و بیش چار صدیوں تک عالم اسلام کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے اس لیے اس کے خلاف شکنجہ زیادہ مضبوط اور بظاہر مستحکم تیار کیا گیا تھا جس نے پون صدی تک اسے جکڑے رکھا۔ مگر ترکی گزشتہ دو عشروں سے جس بیداری کا ثبوت دے رہا ہے اور رجب طیب اردگان کی جرأتمندانہ قیادت میں بظاہر ناقابل شکست نظر آنے والے جال کے ایک ایک حلقہ کو بتدریج توڑتا جا رہا ہے، اس نے جہاں عالم اسلام میں ترکی اور امت مسلمہ کے کے بہتر مستقبل کے حوالہ سے امید کی کرن روشن کر دی ہے وہاں استعماری شکنجہ کے آپریٹروں کے لیے بھی الجھن اور پریشانی کا سامان پیدا کر رکھا ہے۔ ایک طرف دنیا بھر کے باشعور مسلمان ترکی اور اس کے صدر اردگان کی سرخروئی کے لیے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہیں جبکہ دوسری طرف ماضی، حال اور مستقبل کے سبھی استعمار نئی صورتحال کو اپنے اپنے قابو میں کر لینے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ ترکی نے ڈالر کے جال سے نکلنے کے لیے جو تدبیریں اختیار کی ہیں وہ اس کے حوصلہ و تدبر کی علامت ہیں چنانچہ ہم بھی ترکی کے ساتھ اس معاشی جنگ میں ہر ممکن تعاون کرنے والے اداروں کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ مولائے کریم! ترکی کو اس کشمکش میں سرخروئی نصیب فرما اور رجب طیب اردگان کو صحت و عافیت کے ساتھ مغربی شکنجہ سے ترکی اور عالم اسلام کو نجات دلانے کی اس مہم میں کامیابی سے ہمکنار فرما، آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر جی چاہتا ہے کہ ’’معاشی جنگ‘‘ کے تاریخی پس منظر اور خاص طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی معاشی کشمکش کی چند جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائیں تاکہ اس میں کسی بھی سطح پر شریک ہونے والوں کو حوصلہ ہو کہ وہ صرف وقت کی ایک اہم ملی ضرورت کو پورا نہیں کر رہے بلکہ اپنے محبوب پیغمبرؐ کی سیرت طیبہ پر بھی عمل پیرا ہیں۔
معاشی جنگ کا ایک پہلو ہمیشہ سے یہ چلا آرہا ہے کہ جنگ میں دشمن کے شہروں اور علاقوں کا محاصرہ کر لیا جاتا تھا جو بسا اوقات مہینوں جاری رہتا تھا۔ قریش مکہ نے متحدہ عرب قبائل کے ساتھ جنگ احزاب میں ایک ماہ تک مدینہ منورہ کا محاصرہ کیے رکھا تھا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور طائف کے قلعوں کا محاصرہ کیا تھا، اور جنگ یمامہ میں مسیلمہ اور اس کے لشکر کو بھی قلعہ میں محصور کر دیا گیا تھا۔ ایسے محاصرہ کا بڑا مقصد دشمن کو ضروریات زندگی کی فراہمی سے محروم کر کے ہتھیار ڈال دینے پر مجبور کرنا ہوتا تھا، اسلامی تاریخ میں اس قسم کے سینکڑوں محاصروں کا تذکرہ ملتا ہے۔
معاشی جنگ کا دوسرا دائرہ معاشی بائیکاٹ اور اقتصادی ناکہ بندی کا ہوتا تھا۔ مکی دور میں آنحضرتؐ اور ان کے رفقاء کو شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رکھا گیا تھا اور ان کے ساتھ تجارتی لین دین اور انہیں ضروریات زندگی کی فراہمی روک دینے کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ اس زمانے میں درختوں کے پتے کھا کر پیٹ کی آگ بجھایا کرتے تھے اور بکریوں کی طرح مینگنیاں کیا کرتے تھے۔
جناب رسول اکرمؐ نے ہجرت کے بعد قریش کے تجارتی قافلہ کو روکنے کا فیصلہ کیا تھا اور پیش قدمی بھی فرمائی تھی جس کے نتیجے میں غزوۂ بدر کا وقوع ہوا تھا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ مکی دور میں مسلمان ہوئے اور حرم مکہ میں اپنے قبول اسلام کا کھلے بندوں اعلان کیا جس پر قریش مکہ کے نوجوان ان پر ٹوٹ پڑے، انہیں اس قدر زدوکوب کیا کہ جان کا خطرہ لاحق ہوگیا، اس پر حضرت عباسؓ نے، جنہوں نے کلمۂ شہادت بہت بعد میں پڑھا، حضرت ابوذر غفاریؓ کو لوگوں کے نرغے سے یہ پکارتے ہوئے نکالا کہ کس کو مار رہے ہو؟ اس کا قبیلہ تمہارے شام کے تجارتی راستہ میں ہے، یہ اگر مر گیا تو تمہارا شام تک تجارت کے لیے آنا جانا بند ہو جائے گا۔
جناب نبی کریمؐ کی ہجرت کے بعد انصار کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ مکہ مکرمہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے آئے تو ابوجہل نے انہیں روک دیا کہ تم نے محمدؐ کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے میں تمہیں عمرہ نہیں کرنے دوں گا۔ حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ اگر تم نے مجھ سے تعرض کیا تو میرا قبیلہ تمہارے تجارتی قافلوں کا شام کی طرف آنا جانا بند کر دے گا۔
بنو حنیفہ قبیلے کے سردار ثمامہ بن اثالؓ مسلمان ہونے کے بعد عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ آئے تو قریش نے ان سے باز پرس کرنا چاہی، انہوں نے فرمایا کہ مجھے کچھ کہا تو یمامہ کے علاقہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تم تک نہیں پہنچ پائے گا۔ انہوں نے واپس جا کر اپنے علاقہ کے لوگوں کو مکہ مکرمہ پر گندم فروخت کرنے سے روک دیا تو قریش کے بعض سرداروں نے آنحضرتؐ کو ’’صلہ رحمی‘‘ کا واسطہ دے کر یہ پابندیاں ختم کرانے کے لیے کہا چنانچہ حضورؐ کی ہدایت پر یہ پابندیاں ختم کر دی گئیں۔
صلح حدیبیہ کے بعد قریش میں سے حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ گئے تو جناب نبی اکرمؐ نے معاہدہ کے تحت انہیں واپس کر دیا۔ انہوں نے راستہ میں ہی گرفتار کرنے والوں میں سے ایک کو قتل کر کے مکہ مکرمہ واپس جانے کی بجائے ایک جگہ کیمپ قائم کر لیا جس میں اس طرح کے مسلمان ہونے والوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہوتی گئی اور انہوں نے قریش کا تجارتی راستہ غیر محفوظ کر دیا، جس سے مجبور ہو کر قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی مذکورہ شرط واپس لے کر یہ ’’ناکہ‘‘ ختم کروایا۔
چند واقعات اس لیے عرض کیے ہیں کہ ’’معاشی جنگ‘‘ کے یہ مختلف پہلو بھی جہاد کا حصہ ہیں اور سنت نبویؐ ہیں، اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اسی جذبہ کے ساتھ ترکی کو سپورٹ کریں اور اس کی استقامت کے لیے مسلسل دعاگو بھی رہیں۔