انصاف کا خون …!

طاہر مدنی

کل لکھنؤ جیل میں خصوصی عدالت نے 2007 کے کچہری بم بلاسٹ مقدمہ میں حکیم طارق قاسمی اور اختر وانی کو عمر قید کی سزا سنادی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ 23 اگست کو عدالت نے مکمل بحث سنے بغیر ہی ان کو مجرم قرار دے دیا تھا اور 27 اگست فیصلہ سنانے کے لیے مقرر کیا تھا۔
23 نومبر 2007 کو کچہری بم بلاسٹ کا سانحہ ہوا تھا. 12 دسمبر 2007 کو رانی سرائے چیک پوسٹ ضلع اعظم گڑھ سے دن دہاڑے اغوا کیا گیا، جس کی شہادت علاقہ کے بہت سارے لوگوں نے دی، احتجاج بھی ہوا، پہر 16 دسمبر کو مڑیاہوں سے خالد مجاہد کو دن کی روشنی میں اغوا کرلیا گیا، جس کے خلاف بھی احتجاج ہوا، بعد میں 22 دسمبر 2007 کو ان دونوں کی گرفتاری بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن سے دکھائی گئی اور کچہری بلاسٹ کا ملزم قرار دے دیا گیا. گرفتاری مشکوک تھی، مختلف حلقوں کی جانب سے شک کی انگلی اٹھائی گئی اور انکوائری کا مطالبہ کیا گیا چنانچہ اس وقت کی وزیر اعلی مایا وتی نے جانچ کمیشن جسٹس نمیش کی قیادت میں مقرر کردیا. اس کی رپورٹ آنے تک اکھلیش یادو سرکار آگئی، کمیشن نے سیکڑوں گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر گرفتاری کو مشکوک قرار دے دیا اور گرفتاری کرنے والے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی۔
اگر اکھلیش سرکار نے ایمانداری سے کام لیا ہوتا تو حکیم طارق قاسمی اور خالد مجاہد رہا ہوگئے ہوتے اور متعلق افسران کٹگھرے میں ہوتے، مایا وتی کے زمانے میں غلط گرفتاری ہوئی، اکھلیش یادو کے دور میں نمیش کمیشن کی رپورٹ آئی اور کوئی ٹھوس کاروائی نہیں ہوئی، بعد میں پیشی سے واپسی کے دوران بارہ بنکی میں خالد مجاہد کی پر اسرار طریقے سے موت واقع ہوگئی، مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کی کوشش سے 42 افسران اور پولیس والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا جو آج تک معرض التواء میں ہے. مقدمہ چلتا رہا اور ابھی بحث مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ آنا فاناً میں 23 اگست کو ملزموں کو مجرم قرار دے دیا گیا اور 27 اگست کو عمر قید کی سزا سنادی گئئ، ملک کے ساتھ غداری اور اقدام قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور عمر قید کے ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے. اس دوران رہائی منچ کے صدر اور اس کیس کی پیروی کرنے والے ایڈوکیٹ جناب محمد شعیب صاحب نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ جیل میں حکیم طارق قاسمی کا قتل بھی ہوسکتا ہے. مقدمہ کی پیروی کے دوران خود ایڈووکیٹ محمد شعیب صاحب پر حملہ کیا گیا تھا اور ان کو زخمی کردیا گیا تھا.
اس پورے معاملے میں کئی پہلو بہت غور طلب ہیں؛
1… جب 12 اور 16 دسمبر 2007 کو اٹھایا گیا تو گرفتاری 22 دسمبر کو کیوں دکھائی گئی، کوئی افسر، کوئی وکیل یا کوئی جج اس کا جواب دے سکتا ہے.
2… اعظم گڑھ اور جونپور سے اٹھایا گیا تو گرفتاری بارہ بنکی سے کیوں دکھائی گئی؟
3 جب نمیش کمیشن نے انتہائی چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ میں گرفتاری کو مشکوک قرار دے دیا تو حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس کیوں نہیں لیا گیا،
4 .. نمیش کمیشن کی سفارش کے مطابق متعلق افسران پر مقدمہ کیوں نہیں قائم کیا گیا؟
5 . خالد مجاهد کی پر اسرار موت کے بعد درج مقدمہ پر کاروائی اب تک کیوں نہیں کی گئی؟
6.. بحث کی تکمیل سے پہلے فاضل عدالت نے مجرم کیسے قرار دے دیا؟
اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جو عدالتی کاروائی کو شک کے دائرے میں لاتے ہیں. ان بنیادوں پر ہائی کورٹ میں اپیل ہوگی اور امید ہے اعلی عدالت سے انصاف ملے گا لیکن اب تک 11 قیمتی سال ضائع ہوچکے ہیں اور بے گناہ ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں اور پتہ نہیں آئندہ ابھی حصول انصاف میں کتنی دیر لگے گی؟
انصاف میں تاخیر بھی بہت بڑی ناانصافی ہے…… اسے بھی انصاف کا خون ہی کہا جائے گا۔
★ جنرل سیکرٹری، راشٹریہ علماء کونسل

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں