یہ قدرت کا انتقام تو نہیں !!!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
آپ نے بھی خبر پڑھی! کسی نہ کسی ٹی وی چیانل پر بھی ضرور دیکھی ہوگی کہ میجر گوگوئی کے خلاف کورٹ مارشل کے احکام دے دےئے گئے ہیں۔ کورٹ مارشل دراصل فوجی عدالت میں مقدمہ اور اس کی جانب سے سزاہے۔ ہندوستان کے بشمول بیشتر ممالک میں سوائے فرانس اور کناڈا کے کورٹ مارشل کا رواج ہے‘ اس میں جنگی مجرمین اور جنگی قیدیوں پر بھی مقدمہ چلائے جاتے ہیں اور ڈسپلن شکنی، فوجی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور سزاء تجویز کی جاتی ہے۔
میجر گوگوئی کون؟ جی ہاں وہی میجر جس نے 19؍اپریل 2017ء کو کشمیر میں فاروق احمد ڈار نامی ایک کشمیری کو اپنی فوجی جیپ کے بونٹ پر باندھ کر پورے علاقہ میں گشت لگائی تھی‘ ایک طرح سے پتھر بازوں کے خلاف انہوں نے اس شخص کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس پر عالمی سطح پر تنقید ہوئی‘ تاہم ان کے اقدام کو فوجی سربراہ جنرل بیپن راوت نے سراہتے ہوئے انہیں اعزاز سے نوازا تھا۔ ایک غلط کام پر انعام سے نوازے جانے پر گوگوئی شاید اپنے آپ میں نہیں رہے۔یا پھر ان کے ستارے گردش میں تھے یا پھر قدرت کو انتقام لینا تھا۔ اور میجر کو انعام کی جگہ سزا دلوانی تھی‘ ورنہ دن کے اُجالے ہوں کہ رات کے اندھیرے کشمیری خواتین کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا۔ کتنے کیفر کردار تک پہنچتے ہیں اور کتنے اپنے گناہوں کے لئے اپنے سینوں پر تمغوں کا اضافہ کرتے ہوئے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ انہیں قدرت کیا سزا دیتی ہے اس کا پتہ نہیں چلتا۔ میجر گوگوئی کے واقعہ نے اس ایقان کو مزید پختہ کردیا کہ انصاف ملنے یا کسی غلط کام کے سزا کے لئے دیر ضرور ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔ایسا ہی ہوا۔
مئی میں میجر گوگوئی سرینگر کی گرینڈ ممتا ہوٹل میں ایک کشمیری لڑکی کے ساتھ پکڑے گئے۔ان پر قواعد کی خلاف ورزی، ڈسپلن شکنی کا الزام عائد ہوا کیوں کہ قواعد کے مطابق ڈیوٹی پر تعینات فوجیوں کو مقامی عوام سے بالخصوص خواتین سے دور رہنے کی ہدایت ہے۔ میجر صاحب لڑکی کے ساتھ بھی پائے گئے اور بلااطلاع اپنے ڈیوٹی کے مقام سے بھی دور پائے گئے۔ وقتی طور پر تواس واقعہ کو دبادیا گیا تھا تاہم فوجی حلقوں میں کھلبلی تھی۔ فاروق احمد ڈار کو بونٹ پر باندھنے کے لئے ایوارڈ دینے والے جنرل راوت نے میجر کو خاطی پائے جانے پر سخت ترین سزا دینے کا اعلان کیا تھا‘ وہ خاطی پائے گئے تحقیقات سے پتہ چلا کہ ضلع بڈگام کے بیروا کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کو میجر کے حکم پر فوجی جوان اسے گھر سے لے جایا کرتے تھے۔ اس لڑکی کا باپ اپنے گھر سے کئی کیلو میٹر دور اینٹوں کی بھٹی میں کام کرتا ہے‘ جب اسے اس واقعہ کا علم ہوا تو اس پر کیا گذری ہوگی‘ اس کا اندازہ کوئی غیرت مند باپ ہی کرسکتا ہے۔ یہ لڑکی جو دسویں جماعت کی طالبہ ہے‘ اب اپنے رشتہ داروں کے پاس رہتی ہے۔ ایک طرح سے پورا خاندان شرم اور غیرت کی وجہ سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ابھی اس بات کا پوری طرح سے پتہ نہیں چل سکا کہ یہ لڑکی کس طرح میجر کے جھانسے میںآگئی تھی؟ کیا وہ جبری طور پر اس کا استحصال کرتا رہا تھا‘ یا اس کی معاشی بدحالی کا استحصال کیا جارہا تھا۔ اس لڑکی اور میجر کے درمیان‘ درمیانی دلال کا جو رول ادا کررہا تھا وہ مقامی شخص سمیر ملاح ہے اسے بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ سوال ذہن میں ضرور ہے کہ کیا اس لڑکی کا صرف میجر ہی استحصال کررہا تھا یا درمیانی افراد بھی؟میجر گوگوئی تو اپنے عہدہ کے لحاظ سے اپنے اثرات و رسوخ سے ایک اسٹار ہوٹل میں علی الاعلان عیاشی کرنے چلا تھا اور یقیناًاپنی گرفتاری سے پہلے اس نے بہت کچھ کیا ہوگا۔ ویسے کشمیر میں 1948ء سے لے کر اب تک فوجیوں کی جانب سے کشمیری خواتین کے مسلسل جنسی استحصال کے واقعات کی انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار تنظیمیں شکایت کرتی رہی ہیں‘ہندوستانی فوج چاہے وہ زمینی ہو کہ سمندری یا فضائی اس سے وابستہ عہدہ داروں اور کم رتبے کے افسروں کے بارے میں بھی آئے دن یہ انکشافات ہوتے رہتے ہیں کہ کس طرح سے وہ سیکس اسکینڈلس کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی مقامی لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ تو کبھی خود اپنے ساتھیوں کے بیویوں کے ساتھ جنسی تعلقات سے ہندوستانی فوج کا وقار متاثر ہوا ہے۔
اسی سال جون میں دہلی میں میجر نکھل ہانڈا نے اپنے ساتھی کی بیوی شیلیجہ کا بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تھاکیوں کہ ایک عرصہ تک ناجائز تعلقات اس نے اپنے شوہر کی وارننگ پر نکھل ہانڈا سے ملاقات ترک کردی تھی جس کا اس نے بھیانک انتقام لیا تھا۔ ایسے عہدہ داروں کے خلاف بھی کورٹ مارشل کیا گیا جنہوں نے اپنے ساتھیوں کی بیویوں سے تعلقات پیدا کی ہیں۔ اور اُن عہدہ داروں کے خلاف بھی شکنجہ کسا جو دوسرے ممالک کے خاتون جاسوس کے شکار ہوکر اپنے ملک کے اہم راز انکے حوالے کرنے لگے تھے۔ جیسے مارچ 2018ء ہی میں ملٹری گروپ کیپٹن ارون مرواہا کواپنے موبائل فون سے آئی اے ایف ہیڈ کوارٹر کی اہم ترین تصاویر واٹس اَیپ کے ذریعہ کسی اور کو بھیجنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا اور کئی عہدہ داروں کو پاکستان اور چین کی حسیناؤں کے بھیس میں جاسوسوں کا شکار بننے کی پاداش میں سخت ترین سزائیں بھی سنائی گئیں۔
کشمیر میں تو جو کچھ ہوا ہے‘ ہوتا رہا ہے اور جانے کب تک ہوتا رہے گا؟اجتماعی عصمت دری کے واقعات تو عام ہیں‘ کشمیری حریت پسندوں کے خلاف یہ ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اور اسے برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اور بیشتر واقعات میں ارتکاب جرم کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے یہ واقعات عام ہیں۔شوپیان کا واقعہ‘ یاپلند پاشپورہ‘ ریاست کے مختلف علاقوں میں ہونے والے واقعات ، سپاہیوں اور فوجیوں کے رویے اور ان کے غیر انسانی سلوک کی داستانیں اب تاریخ کا ایک جز ہے۔ ملک و بیرون ملک کے اسکالرس نے تک اس پر ریسرچ کی ہے اور کئی تحقیقی مقالے اور کتابیں اس موضوع پر شائع ہوچکی ہیں۔ جہاں عوامی احتجاج نے شدت اختیار کی وہاں دباؤ کے تحت خاطیوں کے خلاف کاروائی ضرور کی گئی۔
یہ موقع اس پر روشنی ڈالنے کا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ دیش کی سرحد کی حفاظت کرنے والوں کا ہم احترام کرتے ہیں۔ اور کئی ایسے واقعات بھی ہیں جب اپنے ساتھ سپاہیوں کے مظالم کے خلاف خود ان کے ساتھی کمربستہ ہوئے ہیں تاہم لاء اینڈ آرڈر پر کنٹرول‘ سرحدوں کی حفاظت یا پھر دوسرے ممالک میں قیام امن کے لئے تعینات ہمارے جوانوں نے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے ملک کے نام کو بدنام کیا۔ جیسے کانگومیں قیام امن فوج تعینات کی گئی تو نہ صرف انہوں نے امن کو قائم کیا بلکہ وہاں کے خواتین سے بھی اپنے رشتے استوار کئے اور وہاں کی خواتین کو اپنے بچوں کی ماں بنادیا۔کانگوں میں ہندوستانی امن فوج نے تعینات سکھ رجمنٹ کے بارہ اعلیٰ عہدیدار اور 39جوانوں کے خلاف عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں اس وقت کے فوجی سربراہ وکرم سنگھ بھی شامل تھے وہ کانگو میں پیش آنے والے اس بدترین واقعہ کے وقت ڈپٹی فورس کمانڈر تھے۔ اگرچہ کہ حکومت نے انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے فوجی سربراہ مقرر کیا تھا۔
بہرحال! یہ واقعات ہندوستانی فوج کے ماتھے کا کلنک ثابت ہوا۔ کشمیر، آسام، سکم جیسے علاقوں میں فوج کا رویہ کردار ان کے جنسی جرائم کے خلاف ہر گوشے سے آواز اٹھائی جاتی رہی ہے تاہم اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔آرمڈ فورسس اسپیشل پاورس ایکٹ AFSPA کا جس قدر غلط استعمال ہوتا رہا ہے وہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔اس قانون کے تحت ہندوستانی فوج کو جولائی 1990ء میں جنگی جرائم تک اختیارات دےئے گئے تھے۔کشمیر کوجنت ارضی کہا جاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ جہنم ارضی ہے جہاں کے عوام کو ایک طرف امن وقانون کے محافظین سے خطرہ لاحق ہے تو دوسری طرف ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے نام نہاد حریت پسندوں نے ان کا جینا حرام کررکھا ہے۔جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں کبھی سیکوریٹی فورسس تو کبھی انتہا پسندوں کی جانب سے عزتیں پامال ہوتی ہیں‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہیں‘ یہاں امن کب قائم ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔ جب تک دو ہمسایہ ممالک ہیں‘ اپنے سیاسی مفادات کے لئے حالات کو بگاڑتے رہیں گے۔ اور امن و قانون کے محافظین کو قانون شکنی کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔ کچھ خود کو زمینی خدا سمجھ کر حالات کا استحصال کریں گے اور ان میں سے کچھ کو قدرت تصویر عبرت بناکر دنیا کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔
(مضمون نگار گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں