ڈاکٹر خالد مبشر
تم ہو علم کے طالب
تم نے مجھ سے پوچھا ہے
مرتبہ معلم کا
میں کہ اک معلم ہوں
کس طرح خود اپنی ہی
عظمتیں بتاؤں میں
یہ تو خود ستائی ہے
لیکن اک معلم ہوں
سو یہ فرض ہے میرا
تم پہ منکشف کردوں
راز ہائے سربستہ
جانتے ہو کیا ہوں میں
کیا ہے مرتبہ میرا
عظمتیں مرے آگے
سجدہ ریز رہتی ہیں
آسمانِ علم و فن
کاسئہ طلب لے کر
میرے در پہ صبح و شام
سر جھکائے رہتا ہے
میں کہ اک معلم ہوں
جانتے ہو کیا ہوں میں
کیا ہے مرتبہ میرا
وہ پیمبرِ آخر
ایک پیکرِ قرآں
اک مدینہء عرفاں
وہ بھی اک معلم ہیں
اور اُسی معلم کا
میں غبارِ نقشِ پا
میں کہ اک معلم ہوں
جانتے ہو کیا ہوں میں
کیا ہے مرتبہ میرا
خود خدا معلم ہے
وہ معلمِ آدم
وہ معلم الاسمائ
وہ معلمِ قرآں
اور اُسی معلم کا
میں ہوں ذرہء تاباں
میں کہ اک معلم ہوں
یہ جو پوچھتے ہو تم
میں نے کیا دیا تم کو
کیا نہیں دیا آخر
یہ جو بولتے ہو تم
یہ زبان کس کی ہے
یہ جو دیکھتے ہو تم
رنگ و نور کے جلوے
یہ جمالیاتی ذوق
کس نے تم کو بخشا ہے
یہ جو سوچتے ہو تم
اور خلق کرتے ہو
ایک عالمِ تازہ
یہ غضب کی خلاقی
کس کی ہے عطا کردہ
میں کہ اک معلم ہوں
رقص کا حسیں آہو
رنگ کا عجب جادو
حرف وصوت کی خوشبو
ان سبھی مظاہر کا
کس نے رمز سکھلایا
میں کہ اک معلم ہوں
کوہ ودشت وصحرامیں
تم بھٹکتے پھرتے تھے
کس نے اک تمدن سے
آشنا کیا تم کو
میں کہ اک معلم ہوں
اقتدار کی قوت
رزم و بزم کی جلوت
زندگی کی یہ لذت
کس کے دم سے ہے قائم
میں مُحَرّکِ پیہم
میں کہ اک معلم ہوں
(ڈاکٹر خالد مبشر جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)