معاذ مدثر قاسمی
انسانی زندگی میں تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، تاریخ کے ذریعے ایک قوم اپنے تشخص کو باقی رکھتی ہے اسی سے تہذیب و ثقافت کو محفوظ رکھا جاتا ہے کیوں کہ تاریخ ایک ایسا رابطہ ہے جو قوموں کو ان کے تاب ناک ماضی سے جوڑتی ہے اسی لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک زندہ قوم کے لئے تاریخ جزء لاینفک ہے، ایسی قوم جس کی کوئی تاریخ نہ ہو وہ بے بنیاد اور محض خیالی قوم تصور کی جاتی ہے۔
قدیم زمانے کے لوگوں میں کسی اہم واقعے یا سانحے سے تاریخ کو محفوظ رکھنے کارواج عام رہاہے، چنانچہ جب زمین پر انسانوں کی آبادی بڑھنے لگی تو لوگوں نے ہبوط آدم سے تاریخ کو شمار کرنا شروع کیا پھر حضرت نوح ؑ کے زمانے میں طوفان نوح سے، اسی طرح حضرت ابراھیمؑ کے زمانے میں نار ابراھیمی سے تو زمانۂ یوسفی میں حضرت یوسف ؑ کو سلطنت مصر کاوزیر بنائے جانے کےوقت سے تاریخ کو شمار کیاجاتا تھا۔
دوسر ی قوموں کی طرح اہل عرب بھی تاریخ کا شمار کسی اہم وقعے یا مشہور جنگ سے کیا کرتے تھے، چناں چہ سب سے پہلے حرب بسوس کو بنیاد بنا کر تاریخ کا آغاز عمل میں آیا۔(ایک مشہور جنگ بکر بن وائل اور بنی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے شروع ہوئی تھی جو مسلسل چالیس سال تک جاری رہی) اسکے بعد جنگ داحس( بنی عبس اوربنی ذبیان کے درمینان نصف صدی تک جاری رہنے والی جنگ) سے پھر جنگ غبرہ، جنگ ذی قار اور جنگ فجار سے تاریخ کی کی حفاظت کا سامان مہیا کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ ایک زمانے تک چلتا رہا جوں جوں واقعات نمودار ہوتے گئے تاریخ کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا گیا، حضور کے اجداد میں ایک بزرگ کعب نامی گزرے ہیں ان کے کسی واقعہ سے سالوں عرب حضرات تاریخ کا حساب لگاتے رہے، پھر اخیر میں اصحاب الفیل کے واقعہ پیش آیا تو عرب باشندوں نے اس کو مدار بنا لیا تا آنکہ وہ سال عام الفیل کے نام سے مشہور ہوا۔
ابتدائے اسلام میں چونکہ تاریخ لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا ، ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ مختلف قوموں کی طرف جو خطوط بھیجے جاتے ہیں اس پر تاریخ لکھنے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ خطوط خلط ملط نہ ہوجائیں تو حضرت عمر کو یہ رائے پسند آئی، اور انہوں نے تاریخ شمار کرنے کے سلسلے میں صحابہ کرام سے رائے لی اور دریافت کیا کہ کس واقعہ سے تاریخ اسلامی کا آغاز ہو۔ مشورہ میں چارطرح کی رائے سامنے آئیں،(1)حضور کی تاریخ پیدائش (2)جس سال وحی کا نزول ہوا(3) ہجرت کا سال(4)جس سال حضور کا وصال ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حتمی فیصلہ ہجرت کے سال پر ہوا اور صحابہ نے بھی ان کی تائید کی۔ اس طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت سنہ638 ء میں ہجرت کے تقریبا پندرہ سولہ سالوں کے بعد اسلامی تاریخ اور اور تقویم اسلامی کا آغاز ہوا۔
سال کے بارہ مہینے ہیں اور یہ باری عز وجل کی طرف سے متعین کردہ ہیں، جیساکہ قرآن میں مذکور ہے۔ترجمہ : یقینا مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اللہ کےکتاب میں اسی دن سے متعین ہیں جس دن آسمان و زمین کی تخلیق عمل میں آئی اور ان مہینوں میں چار مہینے محترم ہیں ۔( 9.36) پھر یہ بات سامنے آئی کہ اسلامی کلینڈر میں ان بارہ مہینوں میں کس ماہ کو مقدم رکھاجائے؟اس موقع پر بھی چار رائیں سامنے آئیں (1) رجب کا مہینہ (2)رمضان (3) محرم (4) ربیع الاول، چوں کہ اسلام کی آمد سے قبل ماہ محرم ہی تاریخ کا پہلا مہینہ شمار ہوتاتھا، اسی لئے حضرت عمر اور دیگر صحابہ نے اسی کو باقی رکھنا مناسب سمجھا، اور ماہ محرم کو اسلامی تاریخ کا پہلا مہینہ قرار دیا۔
محرم ایک عربی لفظ ہے جسکا لفظی معنی “ممنوع”ہے ،یہ ان چار محرم مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ ممنوع تھی، رمضان کے بعد یہ سب سے مقدس مہینہ ہے، اس مہینہ میں حضرت آدم کی دعاء قبول ہوئی، حضرت نوحؑ نے طوفان سے، حضرت ابراہیمؑ نے آگ سے نجات پائی اور موسیؑ کو تورات ملی اسی مہینہ میں حضرت یوسفؑ کو جیل سے اور حضرت یعقوبؑ کو عدم بصارت سے نجات ملی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سال کا اسلامی تاریخ کے آغاز کےطور پر انتخاب فرمایا، جبکہ اس وقت اور بھی کئی اہم واقعات رونما ہوچکے تھے۔ جیسے جنگ بدر فتح مکہ ،حجۃ الوداع اور ان میں تاریخی اور سیاسی اہمیت بھی موجود ہیں، بر خلاف ہجرت کے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اسلام کاکمزور پہلو اجاگر ہوتاہے ، پھر بھی حضرت عمر کی نظر انتخاب اسی پر پڑی، بلاشبہ ہجرت میں بظاہر اسلام کا کمزور پہلو نظر آتا ہے ، مگر در حقیقت ہجرت کے بعد سے ہی اسلام کو ارتقاء اورعروج نصیب ہوا،ہجرت کے بعد ہی مسلمانوں نے بہت سے ممالک میں دعوتی سفر کیا اور انھیں عزت کے ساتھ پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
مزید یہ کہ صحابہ نے اسلامی کلینڈر کاآغازاسلا می فتوحات سے کیا، نہ ہی حضو ؐ کی پیدائش اور وفات کے سال سے۔اور نہ نزول قرآن کے سال سے، اس لئے کہ حضور ؐ کی وفات اور پیدائش میں قوم کے لئے کوئی اہم پیغام نہیں ہے، اس سے یہ سبق ملتاہے کہ اسلام میں کسی کی پیدائش اور وفات پر منائی جانے والی خرافات کی جگہ ہی نہیں ہے ، اگر کسی کی پیدائش کی اہمیت ہوتی تو وہ آپ کی پیدائش کا دن ہوتا اور اسی سے صحابہ ہجری سال کاآغاز فرماتے، اسی طرح کسی کی یوم وفات پر ماتمی مجلس منعقد کی جاتی ہے اسکی بھی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، جب کہ ہجری سال ہر برس مسلمانوں کو چند پیغام دیتاہے(1)اسلام کی خاطر جس جذبہ سے قرن اول کے لوگوں نے قربانی دی وہی جذبہ اسلام کے ہرفرد بشر کے اندر ہونا چاہیے(2)جس طرح انھوں نے اپنے گھر بار اور آل و اولاد پر اسلام کو مقد م رکھا اسی جذبہ کے ساتھ ہر مسلمان کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے(3) کسی کامیابی اور ترقی پر فخر ومباہات کرنےکی بجائے اعتدال کی راہ اپنانا ہی اصل شریعت ہے۔
(مضمون نگار مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ، جوگیشوری، ممبئی کے استاذ ہیں)
muazmuddassir@gmail.com






