محمد آصف ا قبال
ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ طویل عرصہ سے یہ سلسلہ جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں نہ صرف قیاس اور غیر مصدقہ معلومات کی بنا پر گرفتار شدہ اشخاص حد درجہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ جن نفسیاتی ، معاشی اور معاشرتی دشواریوں اور پریشانیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں ، وہ اس فرد کی گرفتاری سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور خطر ناک ہے جو فرد واحد پر گزرتی ہے۔ یہ بات بھی ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیادہ تر مسلم نوجوان جن وجوہات کی بنا پر گرفتار ہوئے ہیں، اس میں دہشت گردی کا مسئلہ ہی دراصل وجہ گرفتاری ہے، پھر جب ایک طویل مدت کے بعد وہ بے قصور ثابت ہوتے اور باعزت بری ہوتے ہیں، اس وقت انہیں وہ معاوزہ نہیں ملتا، جوانہیں ملنا چاہیے۔اس پورے عمل میں جہاں ایک جانب حکومت وقت ذمہ دارہے تو وہیں پولیس کا وہ نظام بھی جوابدہ ہونا چاہیے، جس کے عمل کے نتیجہ میں یہ تمام مسائل سامنے آتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پولیس کی ذمہ داریوں میں اہم ترین ذمہ داری غیر اخلاقی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہے وہیں مختلف سطح پر نظم و نسق کو بگاڑنے والی کوششوں کو ناکام کرنا ہے تاکہ عوام ،معاشرہ اور ملک مختلف قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنے سے بچ جائیں۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پولیس کچھ بھی کرے اور جبکہ وہ ثبوت بھی فراہم نہ کر پائے، تو اپنے عمل کی جوابدہی سے بھی وہ بچائی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں پولیس آزاد نہیں ہوتی اور ہمارے ملک میں بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ پولیس جو نظم و نسق کو برقرار رکھنے والی ہے اس پر مختلف اوقات میں سرپرست ذمہ داران یا اداروں کا پریشر ہوتا ہے،کہ وہ نظم و نسق کو درست رکھے اور جو حادثات ہوئے ہیں، متعلقہ خاطیوں کو وہ گرفت میں لائے،لیکن کچھ مخصوص طبقات پر وہ وہ نظر رکھے اور کچھ کو وہ نظرانداز کردے، یہ عمل نہ عوام کو پریشانیوں سے بچا سکتا ہے نہ ہی ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی معاون ہوگا بلکہ مسائل کے اضافہ کا سبب ہی بنے گا اور بنتا جا رہا ہے۔ان عملی دشواریوں سے نجات کے لیے وقتاً فوقتاً پولیس اصطلاحات میں بہتری لانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، اس کے باوجود حقیقت یہ بھی ہے جس سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے کہ پولیس جن ذمہ داران یا اداروں کی نگرانی میں سرگرم عمل ہے، وہ بھی کہیں بلاواسطہ تو کہیں باالواسطہ اپنی خواہشات اور پالیسیوں کی تکمیل میں پولیس پر غیر ضروری پریشر ڈالتے ہیں اور ان کے کاموں میں یا طریقہ کار میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ نتیجتاً مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اور عوام بدحالی و انتشار میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری جانب واقعہ یہ بھی ہے کہ فی الوقت ہندوستان کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد میں ہر صبح اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس کے ڈاٹا کے مطابق 2014کے آخر تک ملک بھر میں 82,190مسلم قیدی ہیں ،جس میں 59,550قیدی عدالت کے زیر سماعت ہیں۔ راجیہ سبھا میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہری بھائی پراتھی بھائی چودھری نے ملک بھر میں مسلم قیدیوں کی جانکاری دیتے ہوئے قومی جرائم بورڈ کا حوالہ دیا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ 2014کے آخر تک 82,190مسلم قیدیوں میں سے 21,550سزایافتہ ، 59,550زیر سماعت،658زیر حراست اور 432دیگر قیدی موجود ہیں۔ این سی آر بی کے ڈاٹا کے مطابق مجموعی طور پر سزایافتہ قیدیوں کے مقابلے مسلم قیدیوں کا اوسط16.38%فیصد ہے، جبکہ زیر سماعت قیدیوں کے مقابلے مسلم ملزمان کا تناسب21.05%فیصد ہے۔تعداد کی یہ جانکاری انہون نے پارلمنٹ میں اٹھے ایک سوال کے تحریری جواب میں دی ہے۔ گزشتہ سال این سی آر بی نے انکشاف کیا تھا کہ ملک کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ 14%فیصد ہے، مگر زیر سماعت قیدیوں کے تناسب میں وہ 21%فیصد ہیں۔ دراصل این سی آربی ڈاٹا کے تجزیہ کی روشنی میں کچھ مقامات پر آبادی اور زیر سماعت قیدیوں کی اوسط2:1 ہے، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ملک کی پارلمنٹ میں یہ سوال مالیگاؤں دھماکہ کیس میں 9 مسلمانوں کی رہائی کے دو دن بعد پوچھا گیا تھا، اس معاملہ میں خصوصی عدالت نے ثبوت کی عد م فراہمی کی وجہ سے تمام ملزمین کو باعزت رہا کر دیا۔ لیکن یہ باعزت بری کا معاملہ گرفتاری کے بعد 5 سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ان 5سالوں میں جن دشواریوں میں وہ اور ان کے اہل خانہ مبتلا رہے ، ان کی جوابدہی کس کی ہے اور خمیازہ کون ادا کرے گا؟ متعلقہ 5لوگوں کو سیمی سے تعلقات ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا تھا لیکن جب این آئی اے نے تفتیش کی تو ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا، اور پانچ سالہ قانونی جدوجہد کے بعد نیز ہر طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد اب وہ “باعزت” رہا کر دئیے گئے ہیں۔
شک و شبہات اور قیاس کی بنیادوں پر گرفتارشدہ افراد جہاں ایک جانب مختلف قسم کی پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں وہیں معاشرہ میں مسلمانوں کے تعلق سے نفرت پر مبنی ایک عمومی فضا بھی ہموار ہوتی ہے۔ جس کے مظاہر گزشتہ دنوں بھی دیکھے گئے ہیں تو ایک واقعہ آج بھی سامنے آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ میں اتنی زیادہ نفرت گھولی جا چکی ہے کہ ایک دوسرے کو ہم برداشت نہیں کرپارہے ہیں ؟ یا ہر مسلمان واقعی دہشت گرد ہے یا دہشت گردوں کے زمرے میں آتا ہے؟ یا پھر مسلمانوں کو بدنا کرنے کی منظم کوششیں انہیں مقصد کے تحت کی جارہی ہیں جن کے کچھ مظاہر سامنے آچکے ہیں تو مزید کبھی بھی آسکتے ہیں۔ وقعہ جس کا تذکرہ ہم کیا چاہتے ہیں توہ سونی چینل کے ڈائریکٹر کا وہ چہرہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ، جی ہاں، کوئی بھی ملسم دہشت گردہ ہو سکتا ہے۔دراصل نوئیڈا کی رہنے والی سید سلمان حیدر نے فیس بک پیج پر ان باکس میسج کے ذریعہ ماڈلنگ کا کام مانگا تھا ، جس شخص سے وہ بات کر رہی تھیں وہ خود سونی انٹر ٹنمنٹ اسسٹینٹ ٹیلنٹ ڈائریکٹر رادھکا سینی تھیں، جنہوں نے جواب میں کہا کہ ہم مسلموں کو کاسٹ نہیں کرتے ہیں۔ حیدر نے جب ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ وہ دہشت گرد ہو سکتے ہیں۔ بعد میں سینی نے اپنے دفاع میں کہا کہ اس کی فیس بک آئی ڈی کو مسلم ہائی جیکرس نے ہیک کر لیا تھا۔ حیدر کی رشتہ دار شروتی حسن علی نے فیس بک پہ اس معاملہ کو شیئر کیاہے۔اُدھر حیدر نے کہا کہ وہ قانونی ماہرین سے رابطہ کرنے کے بعدسینی کے خلاف قانونی ایکشن لیں گی۔
گفتگو کے پس منظر میں یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ قیاس پر مبنی مسلم نوجوانوں کی لگاتار اور سلسلہ وار گرفتاریوں نے معاشرہ میں بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں۔اس کے باوجود ہماری سمجھ کے مطابق حل کے دو پہلو ہیں جن پر عمل در آمد سے مسئلہ کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک: اسلام کی تعلیمات کو بڑے پیمانہ پر عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں، دو: مسلمان اپنی فکری،نظریاتی اور عملی زندگی میں اسلام کو مکمل طور پر اختیار کریں۔مجھے یقین کامہ ہے کہ اس طرح سے ہمارے مسائل حل ہوں گے،نہیں تو بصورت دیگر جن دشواریوں میں ہم مبتلا ہیں، استقامت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوں ، انشااللہ !(ملت ٹائمز)
maiqbaldelhi@gmail.com