ڈاکٹر عبد القادر شمس
ہندوستان تیز فتار ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہے اور بے روزگاری ، افلاس اور قرض سے تنگ آکر کسانوں کی خودکشی کی خبریں بھی اسی ملک کے مختلف حصوں سے آرہی ہیں، اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ مہنگائی کا قوی ہیکل دیو ہر موڑ پر منھ کھولے کھڑا ہے ۔ مہنگائی نے اپنے جملہ سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ این ڈی اے حکومت مہنگائی کے ہرحملے کے بعد یہ دلاسہ دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ جلد ہی مہنگائی پر قابوپالیا جائے گا۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں نے ہرکس و ناکس کو مصائب کی منجدھار میں لاکھڑا کیا ہی تھا مگر پٹرولیم مصنوعات کی روز بروز بڑھتی قیمتوں نے پورے ہندوستان کو آہ و پکار کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔
عام ضروریات کی چیزوں سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف 10ستمبر 2018 ء کو کانگریس کی تحریک پر زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے ’ بھارت بند‘ کا اہتمام کیاجسے یقینی طور پر کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ بھارت بند کے دوران ہرطبقے کی جانب سے جگہ جگہ عوامی احتجاج یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ نہ صرف پٹرولیم مصنوعات بلکہ دیگر اشیائے ضروریہ بھی عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتے جار ہے ہیں۔ کانگریس کی پیش قدمی پر زیادہ تر اپوزیشن پارٹیوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ملک گیر بھارت بند سے عام آدمی کو کوئی راحت ملے یا نہ ملے لیکن حکمراں این ڈی اے کی پریشانی ضرور بڑھ گئی ہے۔
بھارت بند کے تعلق سے راہل گاندھی سمیت کانگریس کے سینئر لیڈران نے وضاحت کی ہے کہ اس کا مقصد مہنگائی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا، روزمرہ کے استعمال کی چیزوں سمیت پٹرولیم مصنوعات کی بڑھی ہوئی قیمتیں واپس لینے کے لیے حکومت کو مجبور کرنا اورعام آدمی کو مہنگائی سے نجات دلانے کو یقینی بنانے کے لیے مرکزی حکومت پر دباؤ بنانا ہے ۔ چنانچہ بھارت بندکے دوران ملک کے ہر کونے سے صدر جمہوریہ کے نام میمورنڈم میں حکومت سے مہنگائی کم کرنے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تخفیف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے چوٹی کے لیڈروں نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں پر قابوپانے میں ناکام ہوچکی ہے اس لیے اپوزیشن پارٹیاں اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گی جب تک قیمتوں میں کمی نہیں کردی جاتی۔
کانگریس کے سینئر لیڈر سرجے والا نے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں اس لیے وہ سرمایہ داروں کے مفادات پر مبنی پالیسی وضع کرنے پر مجبور ہیں۔ بائیں محاذ کے کئی سینئر لیڈران نے بھی کہا ہے کہ این ڈی اے حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کو ہزاروں کروڑ روپے کی رعایت دی ہے جب کہ ورکنگ کلاس پر بالواسطہ کئی ہزار کروڑ روپے ٹیکس کی شکل میں تھوپ دیا ہے۔
ملک کتنی تیزی سے ترقی کررہا ہے یہ تو جی ڈی پی پر نظر رکھنے والے جانیں لیکن عوام تو تیز رفتار مہنگائی سے پریشان ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور اس پر مصررہنے کے حکومت کے رویے سے یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ اس کا گراف مزید اوپر جائے گا۔ یہ کہنا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے سے صرف موٹر کاروں پر سفرکرنے والے امیروں کی ہی جیبوں پر اثر پڑے گا ایک مہمل بات ہے کیونکہ اس کا اثر بسوں میں سفر کرنے والے غریبوں کی جیب پر بھی پڑتا ہے ۔
حکومت مہنگائی کی ہاہا کار کے سد باب کے بجائے کبھی موسم کو تو کبھی بین الاقوامی سطح پر آئی مندی اورکچے تیل کی بڑھتی قیمتوں کو کوس رہی ہے۔ بین الاقوامی بازار میںخام تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی بات کو ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے نریندر مودی حکومت کی کارکردگی پر بارہا سوال کھڑا کیا ہے لیکن حکومت ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے دباﺅسے باہرآنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے ۔ جہاں تک خسارہ پر کنٹرول کرنے کی بات ہے تو ناروا اخراجات پر کنٹرول کرکے سبسڈی خسارہ کی بازیابی ممکن ہے۔ آمدنی کے نئے ذرائع کی تلاش سے بھی خزانہ کو مضبوط کیا جاسکتا ہے چنانچہ حکومت نہ نئے ذرائع کی تلاش کو اہمیت دے رہی ہے اور نہ مہنگائی پر قابوپانے کی جانب کوئی پیش رفت کررہی ہے جب کہ اگر صرف زراعت کے شعبہ کی سرپرستی کی جائے تواس ملک کی سونا اگلنے والی زمین ہی یہاں کی مہنگائی کو کافور کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ہندوستان کی ترقی کھیتوں اور کھلیانوں کی ترقی میں ہی مضمرہے لیکن حکومت جس طرح کمپیوٹر اور موبائل انقلاب لانے پر توجہ دے رہی ہے اتنی توجہ زراعتی انقلاب لانے پر نہیں ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے درپے اضافے سے پہلے سے ہی مہنگائی کی مارجھیل رہے عوام کے سامنے مہنگائی کی مصیبت مزید بڑھ گئی ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک میں اقتصادی انقلاب موبائل اور کمپیوٹر سے نہیں آسکتا بلکہ لہلہاتے کھیت اور روٹی فراہم کرنے والے کھلیان ہی سکھ ،خوشحالی اور معاشی انقلاب کی شاہ کلید ہیں۔ اس لیے اگر اس ملک کو ترقی کرنا ہے تو اسے پہلے مہنگائی پر قابو پانا ہوگا اور اس کے لیے خزانہ پر جو بوجھ بڑھے گا اس کی بازیابی کھیتوں اور کھلیانوں سے ہوسکتی ہے،اس لیے حکمرانوں کو اس نکتہ پر غورکرنا ضروری ہے۔
ہندوستان میں ہرچہارجانب مہنگائی کا قوی ہیکل دیو منھ کھولے کھڑا ہے اور اس پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے تو ایسی آگ لگائی ہے جس میں غریب تو جل ہی رہے ہیں امراءبھی جھلسنے سے نہیں بچ رہے۔دوسری طرف ملک کی دھڑکن سمجھی جانے والی موٹر ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے اندر بھی پٹرول ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کو برداشت کرنے کی تاب نہیں اس لیے لاکھوں ٹرک اور کروڑوں موٹرکاروں کے مالکان بھی پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں کے آسمان چھونے سے پریشان ہیں۔عجیب بات ہے کہ جب جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والے کچھ ماہرین اقتصادیات اس بات پر اپنا زور صرف کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس کااثر اس طبقے پر پڑے گا جو موٹر کاروں پرسفر کرتے ہیں اور پھر آن واحد میں یہ مشورہ بھی سامنے آجاتا ہے کہ ایک سے زیادہ موٹر کاررکھنے کا رجحان ختم کریں ،جب کہ سچی بات یہ ہے کہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں معیشت کی چولیں ہلا دیتی ہیں اور اس کا راست اثر غریب اور متوسط طبقوں پر ہوتا ہے کیونکہ نقل وحمل کے جملہ ذرائع کا انحصار پٹرول یا ڈیزل پر ہوتا ہے ،چنانچہ جب جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھتی ہیں فطری طور پر اس کا اثر سبزیوں اور دودھ سمیت روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر ہوجاتا ہے۔
بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کی پوری ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے اوراپوزیشن پارٹیوں کو بڑھتی مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کانہ صرف حق ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے لیکن یادرکھناچاہیے کہ محض احتجاج مسئلہ کاحل نہیں ہے بلکہ ملک کے اقتصادی نظام میں جوافراط وتفریط ہے اس کو ختم کرنے کی پالیسی وضع کرنے میں حکمراں جماعت کی مددکی جانی چاہیے ،ایسی پالیسی جو ملک کے ناروا اخراجات میں کٹوتی اورضروری اخراجات کی فراہمی کویقینی بناتی ہو اس کی جانب ہمیں پیش قدمی کرنی ہوگی اور ایک متوازن معاشی نظام کوملک میں فروغ دیناہوگا۔ملک کے ہرشہری کامطالبہ ہے کہ وہ جواقتدارمیں ہیں اوروہ جو اقتدارمیں آناچاہتے ہیں ،سب کو مل کرملک کے مستقبل کو تابناک بنانا ضروری ہے۔