نواز شریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی رہائی کا اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنایا فیصلہ ،ن لیگ کے کارکنان میں خوشی کی لہر

آپ سے یہ سوالات اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ تمام کہانی بنائی، آپ نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے نواز شریف کا دور سے کوئی تعلق بنے
اسلام آباد (ایم این این )
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کی اپیلوں پر سماعت کی۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل اور نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نواز شریف، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تینوں ملزمان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کی اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کا حکم معطل رہے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے تینوں کے ضمانتی مچلکے جمع کرادئیے ہیں اور جلد اڈیالہ جیل سے رہائی عمل میں آجائے گی۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سمیت رہنماو¿ں اور کارکنوں کی بڑی تعداد احتساب عدالت کے اندر اور باہر موجود تھی۔ رہائی کا حکم آنے کے بعد ن لیگی کارکنوں نے زبردست جشن منایا، ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور مٹھائیں بھی تقسیم کی گئیں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر نیب سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام فلیٹس بنائے؟۔ اکرم قریشی نے کہا کہ جی، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تو پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتادیں، ہم کیسے فرض کریں جب آپ کی تفتیش کے بعد بھی نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پارہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہا، آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کر لیں، کیا ہم فرض کرلیں کہ بچے چھوٹے ہیں تو مالک والد ہوگا؟۔
اکرم قریشی نے کہا کہ بار ثبوت مجرموں پر تھا کہ وہ بتائیں فلیٹس کیسے بنائے، والد کو بچانے کے لیے مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی، قانون کہتا ہے کہ جب فلیٹس ان کے قبضے میں تھے تو وہ ملکیت بتائیں، جب بچے کم عمر تھے تو فلیٹس کے مالک نواز شریف ہیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، تو مریم نواز پر آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا؟۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اگر اثاثے چھپائے گئے تو اثاثے بنانے میں سزا کیسے ہوئی ؟۔پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ بچوں کی آمدنی کے ذرائع بن نہیں رہے تھے تو مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی، نواز شریف کو بچانے کے لیے مریم نواز نے یہ جعلی معاہدہ بنایا، مریم نواز نے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تبدیل کر کے والد کی ملکیت چھپائی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آگے چلیں، یہ تو مفروضوں پر مبنی ہے، فرض کر لیتے ہیں کہ نواز شریف نے فلیٹس خریدے، تو مریم اور نواز شریف دونوں مالک کیسے ہو سکتے ہیں، فرض کر لیں کہ مریم نواز نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جے آئی ٹی اور احتساب عدالت میں جمع کرائی، اگر جرم جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے تو اسے آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر سزا کیسے ہوئی؟۔
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ آپ سارے سوالات مجھ سے ہی پوچھ رہے ہیں، کچھ سوالات نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے بھی پوچھ لیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ سے یہ سوالات اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے یہ تمام کہانی بنائی، آپ نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے نواز شریف کا دور سے کوئی تعلق بنے۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی ہے جب کہ حسین اور حسن نواز کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔

SHARE