بے نظیر کی یاد میں

آبیناز جان علی

۱۴ ستمبر کو بے نظیر کی اچانک موت کی خبر سن کر مجھے بہت صدمہ ہوا۔ ذہن یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ پچیس سال کی اس خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی کے ساتھ اتنا المناک حادثہ کیسے پیش آسکتا ہے۔ بے نظیرنے اسی اسکول سے ثانوی تعلیم مکمل کی تھی جہاں میں نے پڑھایا تھا۔ اسکول چھوڑنے کے بعد بھی چونکہ وہ میرے ہی علاقعے میں رہتی تھی ہماری ملاقات ہو ہی جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ دبی ہوئی مسکراہٹ سے میرے سلام کا جواب دیتی۔ اسکول کے دنوں میں بھی تمام اساتذہ اس سے خوش تھے۔ بے نظیر کی ایک انوکھی بات یہ تھی کہ اس نے پرائمری اسکول سے ہی ہندی زبان کی تعلیم حاصل کی تھی۔ لحاظہ ثانوی اسکول میں اس نے اردو کی جگہ ہندی کی تعلیم جاری رکھی اور ایس ۔سی کے امتحان میں وہ ہندی اور ہندی ادب میں اول آئی تھی۔ ایچ۔ایس۔سی میں بھی اس نے ہندی کا موضوع لیا تھا اور وہ دس بہترین امیدواروں میں سے ایک تھی۔ وہ شعبۂ ہندی کی شان تھی۔ مجھ سے ایک بار اسکول کے ریکٹر نے کہا تھا کہ افسوس وہ اردو میں نہیں ہے۔ میرے لئے بے نظیر موریشس میں رائج قومی اتحاد کی نشانی ہے۔ بے نظیر کے خلاف میں نے کبھی کوئی شکایت نہیں سنی۔ وہ خاموش رہنے والی اور اساتذہ سے ادب و احترام سے پیش آنے والی لڑکی تھی۔

تمام مقامی آن لائن اخبارات میں بے نظیر کی تصویریں اور اس کے ساتھ پیش آنے والے دردناک حادثے نے سب جھنجھلا کے رکھ دیا۔ آنِ واحد میں تمام طلباء اور شناساں نے اس المیہ کی خبر کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دی۔ سب لوگ دریافت کرنے لگے کہ یونیورسٹی سے فرانسسی زبان کی ڈگڑی حاصل کرنے والی معلمہ کے ساتھ کیا ہوا۔ سننے میں آیا کہ ایک لڑکے سے اس کی دوستی تھی جو مستری تھا۔ دونوں کا جھگڑا ہوا۔ اس نے بے نظیر کا گلا گھونٹ کر پتھر سے اس کے چہرے کو کچل ڈالا اور لاش کو جنگل میں چھوڑ دیا۔ یہ تفصیلات سن کر دل میں ایک خوف نے گھر کر لیا اور میں خود کو سوچتے ہوئے نہیں روک پائی کہ ہمارے نظامِ تعلیم نے بے نظیر کو اس قابل توبنایا کہ وہ ایک اچھی ملازمت حاصل کر کے خود مختار زندگی بسر کر رہی تھی۔ پھر غلطی کہاں ہوئی کہ زندگی نے اسے اس دوراہے پر کھڑا کیا جس کا خمیازہ اس نے اپنی جان دے کر چکائی۔

تعلیم ہمیں کس حد تک زندگی کے مسائل سے جوجھنے کے لئے تیار کرتی ہے؟ اسناد اور ڈگڑیوں سے نوکری تو مل جاتی ہے لیکن کیا یہ زندگی بسر کرنے کے لئے کافی ہے؟ کیا اسکول ہمارے ذہن کو صحیح فیصلے لینے کی تربیت دیتا ہے؟ کیا اسکول ہمیں خود کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے؟ ہمارے سماج نے لڑکی کو تعلیم حاصل کر کے نوکری کرنے کی اجازت تو دے دی لیکن مردوں کی اس دنیا میں آج تک عورت کو اپنا مقام بنانے میں ابھی بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی سماج کے مطابق مردوں سے زیادہ عورت کو گھر اور بچوں کی ذمے داریوں کو ترجیع دینا ہے۔ اس رشتے میں بندھنے کے لئے اس پر طرح طرح کے دباؤ دڈالے جاتے ہیں۔ اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ اس رشتے کے بغیر وہ بے سہارا اور ادھوری ہے۔ کبھی کبھی اس دباؤ کے تحت وہ غلط موڑ پر آجاتی ہے۔ اگر وہ خود اعتمادی سے سر اٹھا کر آگے بڑھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے اس کو غلط ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہ خود غرض اور مغرور کہلائی جاتی ہے۔ 

بے نظیر کے والد کا بہت پہلے انتقال ہوا تھا۔ اس غیر موجودگی سے اسے ضرور تکلیف ہوئی ہوگی۔ افسوس اسکول تمہیں وہ جذباتی پختگی نہ دے سکا جس سے تم اپنے اندرونی خلا کو پر کرپاتے اور تم نامناسب جگہوں میں اس کو پر کرنے کی کوشش نہ کرتے۔

دل میں طرح طرح کے خیالات گھر کرنے لگے۔ بچپن سے لڑکے اور لڑکیوں کی پروش الگ الگ طریقے سے کی جاتی ہے۔ لڑکوں کو جو سکھایا جاتاہے وہ عملی زندگی میں ان کے کام آتے ہیں۔ لڑکوں کو اپنا خیال رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو دوسروں کے لئے خود کو قربان کرنا سکھایا جاتا ہے۔ بدلتی ہوئی زندگی نے لڑکیوں کو مجبور کیا کہ وہ نوکری کی دنیا میں قدم رکھیں۔ لیکن بچپن کی سکھائی ہوئی غلط باتیں اس کے لئے قدم قدم پر رکاوٹیں پیداکرتی ہیں۔ اس لئے مرد عورت پر سبقت لے جاتا ہے اور عورت جذباتی طور پر کمزور پڑجاتی ہے اور دوسرے اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جب بے نظیر کی میت جارہی تھی تو اس کے جنازے سے ایک لال پھول راستے پر پڑا تھا۔ شاید یہ پھول ان گلدستوں میں سے نکلا ہوگا جو بے نظیر کے دوستوں نے اسے آخری الوداعی تحفے کے طور پر دئے تھے۔ بے نظیر کا کمرہ پھولوں سے بھرا پڑا تھا۔ سب لوگ اس کو چاہتے تھے۔ اس نے اپنی زندگی اس نازک پھول کی طرح گزاری جو راستے پر پڑا تھا۔ اسی پھول کی طرح اسے وقت سے پہلے توڑا گیا۔بے نظیر بہت پیاری بچی تھی جسے سنورنے کا شوق تھا۔خدااسے اپنے دامنِ عاطفت میں جگہ دے۔ اس خوبصورت کلی کو جنت کے باغوں میں جگہ دے اور اس کے گھر والوں کو صبرِ جمیل عطا فرفائے۔

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں