نماز کے لیے مسجدیں ضروری نہیں ہیں

ڈاکٹر زین شمسی

کچھ باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں اور کچھ باتوں کی رہنمائی کے لئے رہنما بھی نہیں ہیں۔

نماز پڑھنے کے لئے مسجدیں لازمی نہیں ہیں ، اس شگوفہ کو درست ہی مان لیا گیا۔ تاہم کہا گیا کہ اس فیصلہ کا بابری مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے لوگ بھی کہتے ہیں کہ فیصلہ ملکیت کا ہوگیا آستھا کا نہیں۔ ٹھیک ہے بھائی ۔

تو اب اگر مسلمانوں کو اس کی ملکیت سونپ دی جائے ( جیسا فیصلہ کے بعد ملی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آیا ہے ) تو اس ملکیت پر مسجد ہی بنے گی اور قابل تعظیم جج صاحبان نے ایک طرف یہ کہہ دیا ہے کہ نماز کے لیے مسجدیں ضروری نہیں ، تو پھر وہاں کی لڑائی کس بات کے لیے ہے تو بھائی یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آئی ۔

اور ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ فیصلہ صرف بابری مسجد کے تناظر میں ہے یا ساری مسجدوں کے بارے میں۔ کوئی سمجھائو کہ ہم سمجھائیں گے کیا۔

ہریانہ ، مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ ، نوئیڈا اور کئی جگہوں سے یہ خبر موصول ہوتی رہی ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر نماز پڑھتے ہیں اور کئی جگہ یہ تنازعہ فساد کی صورت بھی اختیار کر گیا ہے اور بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندوتو تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ مسلمانانِ ہند مسجدوں میں نماز پڑھیں سڑکوں پر نہیں اور عدالت اعظمیٰ کہتی ہے کہ مسلمانوں کا مسجدوں میں نماز پڑھنا ضروری نہیں وہ کھلے میدان میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سوال بس یہی کچوکے لگا رہا ہے کہ اس رولنگ کا ایودھیا تنازعہ سے کوئی لینا دینا ہو یا نہ ہو ،لیکن کیا یہ مستقبل کے لیے ایک مضبوط تنازعہ کا باعث نہیں بنے گا۔ 

اللہ نے ابراہیم کو کیوں کہا تھا کہ عبادت کے لیے عبادت گاہ بناؤ اور خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی، اور برسوں سے جو مساجد بنائے جاتے رہیں کیا یہ ضروری نہیں تھے تو اپنے لوگ پھر اتنی خاموشی کے ساتھ اس فیصلے کو کیوں پچا رہے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

کیا اس سے قبل کبھی سپریم کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ آیا ہے کہ مندروں میں گھنٹیاں بجانا لازمی نہیں ہے ۔ بھگوان تو دل میں بستے ہیں ۔ اگر آیا ہو ، یا کسی نے اس پر کوئی رٹ پٹیشن دائر کی ہو تو بتایئے گا۔ 

ہاں یہ ایک حیران کن فیصلہ ضرور ہے کہ پہلی بار کسی فیصلہ پر فریقین خوش ہوئے ہیں ۔ ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے۔ ادھر ولی رحمانی سے لے کر ارشد مدنی تک بتا رہے ہیں کہ اس فیصلے کا ایودھیا معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ مسجد کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وقار کا سوال ہے ، اسد الدین اویسی کیوں کہہ رہےہیں کہ اب مسلمانوں کے لیے بچا ہی کیا ہے اور ادھر ایودھیا معاملہ سے جڑے اکھاڑہ پریشد اور دیگر فریقین کا کہنا ہے کہ اب ایودھیا کا فیصلہ جلد ہو جائے گا۔ وہیں وشو ہندو پریشد ایودھیا کے ورکشاپ میں چھینی ہتھوڑے تیز کرنے کی مہم میں مصروف ہو گیا کہ اب ایک دھکا اور دینا ہے اور عظیم رام مندر بنا دینا ہے۔

بابری مسجد کے ایک ایک آنسو کا حساب لیا جائے تو بات بہت زیادہ دور تک چلی جائے گی۔ بس یہ سوچتا ہوں کہ اس کو شہید کرنے والےوالوں کو عدالت اب تک سزا نہیں دے سکی۔ اڈوانی اور جوشی کو اگر تھوڑا سی سزا ملی تو وہ مودی کی طرف سے ہی ملی۔ اوما بھارتی آج بھی سیاسی رونٹیاں سینک رہی ہیں۔ بابری مسجد کیوں گرائی گئی اب یہ معاملہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے ، اسے گرانے والے کون تھے اب یہ ماضی کی باتیں ہو گئیں۔ اب یہ چل رہا ہے کہ سپاٹ کر دی گئی زمین کس کی ہے تو ایک بار الہ آباد ہائی کورٹ نے چالاک بلڈرز کی طرح اس زمین کے تین ٹکڑے کر دئے تھے ، جس پر ہنگامہ کے بعد روک لگی ۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نئے ججز کی تقرری کے بعد ہر ماہ اس معاملہ کی سماعت ہوگی اور ثبوت و شواہد کی بنا پر جج صاحبان فیصلہ دے دیں گے۔ اب جہاں تک ثبوت و شواہد کی بات ہے تو ہاشم انصاری بھی نہیں رہے اور بعد میں اس معاملہ کے فریق بنے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ ان کے وکلا نے کئی ایسے کاغذات فراہم کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا جو اس کیس کو جیتنے کے لیے ضروری تھے۔ تو اب کیا اس معاملہ کی اب ازسر نو سماعت ہوگی اور ہوگی تو کیا ہمارے پاس وافر ثبوت موجود ہیں ۔ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

بہر حال عدالت نے کبھی کہا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام ’ قومی شرم‘ کا باعث ہے اس سے بھارت کی رواداری کو ٹھیس پہنچی ہے تو معزز عدالت سے درخواست ہے کہ اس ’ قومی شرم ‘ کا دھبہ بھارت کے ماتھے سے مٹانے کے لیے تاریخی اور منصفانہ فیصلہ دیں تاکہ سند رہے کہ عدالت سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔

رہی بات سیاسی فائدہ کی تو اس کے لیے بھارت میں اتنے ایشوز ہیں کہ کسی بھی ایشو کو پل بھر میں زندہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ، کشمیر ، مسلمان، ریزرویشن ،گائے، لوجہاد وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ یہ معاملہ ہندوستان کے مسلمانوں کے تشخص کا بھی ہے اور سیکولرازم کے نعرے کا بھی اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ کو کسی طرح کے سیاسی دبائو کا بوجھ نہ بنایا جائے۔ کوئی اسے ہائی جیک نہ کرے۔

بھائی ہمیں بہت ساری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں جو اخباروں میں اپنے تصاویر لگا کر ہمارے رہنما لوگ کہتے رہے ہیں۔ اسی لیے جو سمجھ میں آئیں لکھ دیا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں