مسجدیں اسلام کا لازمی اور اٹوٹ حصہ ہیں! 

مفتی اظہار الحق قاسمی

ہندوستان کی عدالت عظمی کی طرف سے مورخہ: ۷۲/ستمبر۸۱۰۲ کوآئے ہوئے اسماعیل فاروقی کیس کے فیصلہ کے پیش نظر جس میںمسجد کے حوالے سے یہ کہا گیاہے کہ ” مسجد اسلام کالازمی حصہ نہیں ” کی مناسبت سے یہ ضروری ہوگیاہے کہ پورے ملک کے لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ مسجد اسلام کا لازمی اور اٹوٹ حصہ ہے اورمسجدکے بغیراسلام کا تصور ناقص اور نامکمل ہے۔گوکہ یہ فیصلہ اب سے چوبیس سال پہلے قلم بند کیا گیاتھا لیکن چوبیس سال کی مدت کے بعد بھی اگر ہندوستان کی عدالت عظمی اس حوالے سے پورے طور پر واقف نہ ہوسکی تو سوائے افسوس کے اور کیا کہا اور کیا جاسکتا ہے۔

ذیل میں ہم نے مساجد کا اسلام سے کیسا گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے اس کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم آج لوگوںکو بتلائیں کہ مسلمان کے لیے مسجد کی کیا اہمیت وحیثیت ہے اور مسجدیں مسلمانوں کے لیے کس طرح اساس اور بنیاد کا درجہ رکھتی ہیں ۔مسجدوں سے ہی اسلام کو فروغ حاصل ہوااور مسجدوں سے ہی کاروبارجہاں کو سنبھالاگیا۔

تعمیرِ مساجدکی اہمیت و ضرورت اور تاریخ

اسلام نے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کا اہتمام کیا ہے۔ چنانچہ حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہرفرد پر جو سب سے پہلی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ نماز ہے؛ تاکہ نماز اس کی جسمانی ،اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی اصلاح کر سکے۔ ذیل کی حدیث نماز کے اسی عظیم فائدہ کی شاہد ہے:

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ: اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے سے ایک نہر گزرتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔”نہیں یا رسول اللہ!” اس پر آپ ﷺ نے فرمایا، ”بالکل اسی طرح جو آدمی روزانہ پانچ مرتبہ نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالی ان نمازو ں کے ذریعے اس کے گناہوں کو مٹادیتے ہیں۔” (مسلم)

فرد کی اصلاح کے بعد معاشرتی اصلاح کا نمبر آتا ہے چنانچہ جب بہت سے افراد مل کر ایک معاشرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی اصلاح و تطہیر کے لئے اسلام نے نماز با جماعت کو لازمی قرار دیا ہے۔ جس کے لئے مسجد کا قیام ناگزیر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جب اوّلین معاشرہ تشکیل دیا تو اس کے ساتھ ہی مساجد کی تعمیر شروع ہو گئی۔

 حضرت آدمؑ کی اولاد نے جب ایک معاشرہ کی شکل اختیار کر لی تو آپ کا سب سے پہلا کام بیت اللہ کی تعمیر تھا۔ پھر جب آپ کی اولاد اطراف واکناف عالم میں پھیلی تو آپ ہی کے ایک صاحبزادے نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ملّتِ اسلامیہ کے بانی حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں بیت اللہ کی از سرِ نو تعمیر تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت رسول اکرم ﷺ نے جب دعوت دین کا بیڑا اُٹھایا تو آپ ﷺ نے اپنا مرکز خانہ کعبہ یا مسجد الحرام کو بنایا اور جب کفار کی طرف سے اعلانیہ مخالفت ہوئی تو آپ ﷺ نے دارِ ارقم کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا۔ لیکن جس وقت حضرت عمرؓ اسلام لائے پھر سے خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کی دیواریں تکبیر کے نعروں اور توحید کے کلمات سے گونجنے لگیں۔پھر جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے تووہاں پرسب سے پہلے قبامیں پھر مدینہ میں مسجدوں کی تعمیر کی۔

پھر اسلام نے سر زمینِ عرب سے قدم باہر نکالا تو جہاں جہاں اسلام کی روشنی پہنچی اور مسلم معاشرہ کا قیام عمل میں آیا، مساجد تعمیر ہوتی چلی گئیں۔ جن میں سے بعض آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں۔ موجودہ دور کے غیر مسلم ممالک بھی جہاں کچھ بھی مسلمان موجود ہیںمساجد سے خالی نہیں۔ اور مسلمان ممالک کا تو ذکر ہی کیا، ہر گاو ¿ں، ہر محلہ اور ہر شہر میں مساجد کے شاندار مینار اپنی عظمت و رفعت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے دور کا وہ معاشرہ جو استحکام، پائیداری اور عظمت و رفعت کی بہترین مثال تھا، مساجد ہی کا مرہونِ منت تھا ۔

مسجد کی تعمیر اسلامی معاشرہ کے تشکیل کی خشتِ اول ہے

اسلامی عقیدہ کے اعتبار سے سب سی پہلی مسجد اور عبادت گاہ جو اس روئے زمین پر تعمیر کی گئی وہ کعبة اللہ ہے۔آپ ﷺ نے نبوت ملنے کے بعد وہیں سے تبلیغ دین شروع کیا لیکن جب آپ ﷺ کو وہاں عبادت سے روکا گیااورآپ ﷺکووہاں سے مدینہ ہجرت کا حکم ہو اتو آپ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ چناں چہ جب آپ مدینہ پہونچے تو آپ نے اپنے اصل پڑاؤ سے پانچ کلومیٹر پہلے ہی قیام کیا۔  ُاس جگہ کا نام قبا تھااورآپ ﷺ کے آنے سے قبل وہاں کے کئی خاندان مسلمان ہوچکے تھے۔آپ ﷺ نے وہاں چودہ دن قیام فرمایا۔دوران قیام آپ ﷺ نے جس چیز کی طرف سب سے پہلے توجہ دلائی وہ مسجد کی تعمیر تھی۔اس مسجد کی تعمیر کے لیے نہ صرف یہ کہ آپ ﷺ نے بنیاد رکھی بل کہ؛ آپ ﷺ نے تعمیر میں دوسرے صحابہ کے ساتھ مل کر بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ صحابہ کرام نے اس میں پورے جوش و جذبے کامظاہرہ کرتے ہوئے بہت کم وقت میں مسجد تعمیرکرڈالی ۔(بخاری)جس کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی۔

 جب مسجدقبا کی تعمیر مکمل ہوگئی تو آپ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے۔وہاں پرپہونچنے کے بعد بھی آپ ﷺ نے مسجد کی تعمیر کا قصد فرمایا اورپہونچنے کے بعد جس جگہ آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی وہ ایک خالی زمین تھی جوکہ دویتیم بچوں سہل اور سہیل کی تھی، آپ ﷺ نے یہ زمین ان سے خریدی اوروہاں پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ اس مسجد کی تعمیر میں بھی آپ ﷺ نے نہ صرف سنگ بنیاد رکھا بل کہ؛ بنفس نفیس دیگر صحابہ کی طرح محنت کی اور مسجد بنائی۔ صحابہ کرام جب آپ ﷺ کو اینٹیں اور گارا اٹھا تے دیکھتے تو کہتے کہ حضرت! ہم غلامان حاضر ہیں لیکن آپ ﷺ جواب میں صرف مسکر ادیتے اور اپنا کام جاری رکھتے۔اس سے آپ ﷺ کے جاں نثاروں میں اور ہمت بندھ جاتی اور وہ مزید محنت سے مسجد کی تعمیر میں لگ جاتے۔ (بخاری)

سوچنے کا مقام ہے کہ کوئی آدمی اگر کہیں جاتاہے تو پہلے کیا تلاش کرتاہے ؟ظاہر ہے کہ وہ اپنی بود وباش کے لیے چھت اور جینے کے لیے کھانے کانظم کرتاہے لیکن نبی پاک ﷺ نے مدینہ پہونچ کر اپنی بودوباش اور قیام وطعام کی فکر کرنے کے بجائے سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی فکر کی۔جس سے اسلام سے مسجد کے تلازم کو آسانی سے سمجھا اور باور کیا جاسکتاہے۔

مسجد سے محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق

ہم مسلمان ہیں۔ ہمارے لیے آپ ﷺ کا ہر عمل واجب العمل ہے اور ہر عمل کی ہمارے نزدیک اہمیت اتنی ہے جتنی آپ ﷺ نے ہمیں بتلائی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مسجد کی کیا اہمیت رہی ہے:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ گھر کے کاموں میں مشغول رہتے لیکن جیسے ہی اذان کی آواز سنتے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد تشریف لے جاتے۔سفرسے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاتے، دو رکعت نماز ادافرماتے اور پھر گھر تشریف لاتے۔فقروفاقہ کی نوبت آتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔خوف و گھبراہٹ یاپریشانی کا موقع ہوتاتومسجد تشریف لے جاتے۔ سورج یا چاند گرہن ہوتاتو مسجد تشریف لے جاتے۔مرض الوفات میں صرف تین یا چار روز مسجد نہ جاسکے تو بے چین ہوگئے، دولوگوں کا سہارالے کراس حالت میں مسجد تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے مبارک پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اگلے روز اتنی بھی ہمت نہ تھی تو گھر سے پردہ اٹھا کر جھانکا اور مسلمانوں کو حضرت ابو بکر کی امامت میں سر بسجود دیکھ کر چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔غرض کہ نبی پاک ﷺ اپنے ہرعمل میں مسجد کی طرف رخ فرماتے۔

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایاکہ زمین میں سب سے محبوب جگہیںاللہ کے نزدیک مسجد یں ہیں (مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: سات لوگوں کو اللہ تعالی قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ عطافرمائیں گے۔ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد وں سے اٹکارہتاہو۔(بخاری)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جمعہ کے روزفرشتے ہرمسجد کے درواز ے پر کھڑے ہوکر لوگوں کے نام لکھتے ہیں اور آنے والوں کے لیے۔۔۔۔۔ ترتیب وار زیادہ اور کم ثواب لکھتے ہیں ۔ (مسلم)

اعتکاف کے حوالے سے آپ ﷺ کے معمولات واضح طور پربتلاتے ہیں کہ مسلمان مسجد کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔چناں چہ آپ ﷺ ہرسال (مسجد کے اندر)دس دنوں کا اعتکاف فرمایاکرتے تھے۔(ابوداو ¿د)ایک اور حدیث میں ہے کہ:اعتکاف صرف جامع مسجد میں (جس میں جمعہ کی نمازہوتی ہو) جائز ہے۔ (ابوداؤد )

ٹھہریے! اور ذرا سوچیے!کہ نبی پاک ﷺ کی زندگی میں مسجد کاعمل دخل کتنا تھا۔ کیا جو اعتکاف آپ ﷺ مسجد میں کیا کرتے تھے اور اس کے جملہ شروط وحدود مسجد کی چہاردیواری کے اندر قیام کے ذریعے ہی انجام پاسکتے تھے انھیں کسی اور جگہ سے متعلق کیا جاسکتاہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مسجد کا اسلام کا کتنا گہرا اور لازمی رشتہ ہے۔شرط ہے کہ چشم بینا ہو۔

مسلمانوں کے لیے مسجد میں آنے کا حکم اورنہ آنے پر وعید 

نبی پاک ﷺ کی مختلف احادیث و ارشادات سے مسلمانوں کو مسجدوں میں جانے بل کہ ؛ مسجدوں کو لازم پکڑنے کا حکم واضح طور پر ملتاہے۔آئیے دیکھتے ہیںکہ اس سلسلے میں آپ ﷺ کے کیا ارشاد ات ہیں:

مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ بن ام مکتوم ا للہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے یوں رخصت چاہی کہ اے اللہ کے رسول! (میں نابینا ہوں) مجھے کوئی گھر سے مسجد لانے والا نہیں۔ تو کیا میں گھر میں نماز پڑھ سکتاہوں؟تو آپ ﷺ نے ان کو رخصت دے دی۔ لیکن جب وہ صحابی جانے کے لیے مڑے تو آپ نے انھیں بلا کر پوچھا! کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟تو انھوں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ!آواز سنتاہوں۔تو آپ ﷺ نے فرمایاپھر مسجد میں آکر نماز پڑھو۔(مسلم)

ذرا سوچیے تو سہی کہ ایک نابینا صحابی یہ رخصت چاہ رہے ہیں کہ انھیں گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل جائے لیکن اگر اذان کی آواز ان کو سنائی دیتی ہو تو انھیں گھر میں پڑھنے کی اجازت نہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ اگر ایک معذور آدمی کو مسجد چھوڑ کر گھر میں پڑھنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے تو جو لوگ تندرست و توانا ہوں ان کو مسجد چھوڑ کر گھر میں بیٹھ جانے اور گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل سکتی ہے۔اس سلسلے کی اگلی حدیث ملاحظہ فرمائیں:

 آپ ﷺ نے فرمایا:جس نے اذان کی آواز سنی اورنماز کے لیے (شرعی عذرکے بغیر) مسجد نہیں گیا تو اس کی نماز نہیں ہوئی۔ (ابن ماجہ )

ایک اورحدیث میں حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ:بیشک اللہ تعالی نے تمہارے نبی کے لیے عبادت کے طریقے مقررفرمادیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ جب مسجد میں اذان دی جائے تو اس میں حاضر ہوکر نماز اداکرو۔پس اگرتم اپنے گھر وں میں (فرض ) پڑھوگے جس طرح فلان شخص جماعت چھوڑنے والا گھر میں نماز ادا کرتاہے تو گویاتم نے اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دیا۔اوراگرتم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑدو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ (مسلم)

حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ) یہ سمجھتے تھے کہ مسجد میں آکر نماز نہ اداکرنے والا ایسا منافق ہے جس کا نفاق بالکل واضح ہے یا پھر وہ بیمار ہے حالانکہ (ہم سے جو شخص بیمار ہوتا) وہ بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ آتااور نماز ادا کرتا۔ (مسلم)

غور کرنے کا مقام ہے کہ اگر آدمی مسجد چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز نہ ہونے اوردوسری حدیث کی رو سے ایسے شخص کے گمراہ ہوجانے کا فیصلہ فرمایاجارہاہے۔ اگر مسجد اسلام کا جزولاینفک نہ ہوتی تو اتنی بڑی بات کیوں کر کہی جاتی؟ سوچیے!

ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نماز عشاءاور فجر مسجد میں آکر اداکرنامنافقوں پربہت بھاری ہے۔اگرلوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ ا ن دونوں نمازوں کا مسجد میں آکر اداکرناکتنازیادہ باعث اجروثواب ہے تو وہ مسجد میں گھٹنوں کے بل چل کر آئیں۔ (مسلم)

ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺنے مسجد نہ آنے والوں کا گھرجلانے کا ارادہ فرمایا:حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں نے ارادہ کیاکہ میں لوگوں کو نماز کا حکم دوں کہ وہ کھڑی کی جائے اور ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی جماعت کرائے۔پھر کچھ دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر جائیں اور لکڑیوں کا ڈھیر ساتھ ہوجنھیں آگ لگاکران لوگوں کے گھر جلادوں جونماز کے لیے (مسجد) نہیں آتے۔(مسلم)

ایک منٹ!نبی پاک ﷺ جیسے نرم اور رحم دل شخصیت کی طرف سے اتناسخت اعلان کیا بتلاتاہے ؟ کیاوہی جو آپ کہہ رہے ہیںکہ مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں یاوہ جومیں کہہ رہا ہوں کہ مسجدیں اسلام کا لازمی اور اٹوٹ حصہ ہیںاور مسجد وں کے بغیر اسلام کا تصور ناقص ہے۔

مسجد یں تعمیر کرنے کی ترغیب وحکم اور مسجدوں سے منع کرنے پر نکیر

قرآن مجید میں مسجد وں کی تعمیر کرنے والوں کی یہ تعریف کی گئی ہے: بیشک اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور نہیں ڈرتے مگر صرف اللہ سے۔(سورہ توبہ)ترمذی شریف میں ہے کہ :جس نے کوئی مسجد بنائی وہ چھوٹی ہو یا بڑی تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (حدیث)قرآن فرماتاہے کہ : اس شخص سے بڑاظالم کون ہوگا جواللہ تعالی کی مسجدوں میں اللہ تعالی کے ذکرکیے جانے کو روکے اور ان میں خرابہ پھیلانے کی کوشش کرے ۔(سورہ بقرہ) ابوداؤد شریف، بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ : نبی پاک ﷺ نے مختلف محلوں میں مسجدیں تعمیر کرنے اور انھیں صاف ستھرا رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔

آخری حدیث پڑھیے اور سر دھنیے کہ حضرت شارع علیہ السلام کیافرمارہے ہیں۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر ہرمحلے اور ہر ہر آبادی میں مسجدوں کی تعمیر کرو۔ کیااس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ مسجد اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے۔

خلاصہ بحث

مذکورہ بالا دلائل و شواہد تو بس مشتے از خروارے کی مثال ہیں ورنہ بے پناہ آیات و احادیث سے مسجد کی اہمیت و فضیلت حاصل ہوتی ہے۔جن کی بنیاد پر یہ بات واضح طور پرکہی جاسکتی ہے کہ مسجدیں اسلام کا جزولاینفک ہیں ۔مسجدوں کے بغیر اسلام کاتصور ممکن ہی نہیں ۔ اوپر مذکورچیزیں تو نماز ہی سے متعلق ہیں ورنہ اسلام کے جملہ معاملات چاہے وہ دین سے متعلق ہوں ،یاعلم سے ، حکومت سے متعلق ہوں یاسیاست سے، قانون سازی سے متعلق ہوں یا اقتصاد سے ، غرض کہ اسلام کی پوری تاریخ میں مساجد دین کے مراکز اور سیاست کے سینٹرز رہے ہیں ۔اس لیے مساجد کے متعلق ہندوستان کی عدالت عظمی کی یہ رائے کہ” مساجد اسلام کا لازمی جزو نہیں ہیں“ درست نہیں۔ سپریم کورٹ آف انڈیاکو چاہیے کہ اپنے وقارپر کم علمی کا داغ نہ لگنے دے اور اسلام سے مساجد کو الگ کرکے نہ دیکھے ورنہ تاریخ کے دامن میں یہ بات محفوظ ہوجائے گی کہ ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک ہندوستان اور اس کی عدالت عظمی میں اتنے بھی پڑھے لکھے لوگ نہیں جو اسلام کا مسجد سے کیا تعلق ہے جان سکیں اور اس کو سمجھ اور سمجھا سکیں۔

(مضمون نگارمدرسہ عربیہ قرآنیہ،اٹاوہ، یوپی کے استاذ ہیں )