ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
اے پاک پروردگار! تمام حمد و ثناء آپ ہی کے لئے۔ آپ کا لاکھ لاکھ احسان و شکر ہے کہ آپ نے انسان بنایا اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بناکر اس سرزمین پر پیدا کیا جہاں سے میر عرب ا کو ٹھنڈی ہواؤں کا احساس ہوا تھا۔
اے مالک کائنات! آپ نے اس عظیم ملک میں ایک ہزار سال تک اقتدار میں رکھا۔ آپ کے بندوں نے اس ملک کی غیر معمولی خدمت کی۔ اسے اپنے خون جگر سے سینچا اسے جنت نشان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مذہبی رواداری، مروت، اخلاص، انصاف سے اکثریتی طبقے کے دلوں پر حکومت کی۔ اور آپ کے دین کی تبلیغ کے لئے یہاں آنے والے آپ کے ولیوں نے اپنی فقیری میں بادشاہت کی۔ ان کی خانقاہیں‘ ان کے آستانے انسانیت کے مراکز رہے۔ اور آج بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے کردار سے آپ کے دین کو پھیلایا۔اے رب العزت! آپ عزت، دولت، شہرت، حکومت دے کر آزماتے ہیں جو کامیاب ہوا اسے اور عطا کرتے ہیں۔ جس نے نعمتوں کا غلط استعمال کیا اس سے آپ چھین لیتے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے بادشاہوں کے ساتھ ہوا۔ جب ان کے حرم سراؤں میں حرام کاری بڑھنے لگی‘ جب ظلم نے انصاف کی جگہ لے لی‘ جب مردانہ وجاہتیں اور صلاحیتیں شطرنج، مجروں اور اس قسم کی فضولیات میں سرف ہونے لگیں تو آپ نے ان سے تاج و تخت چھین لئے اور انہیں تاریخ میں درس عبرت بناکر رکھ دےئے۔ جو آپ کے نیک بندے آپ کے دین کی تبلیغ کیا کرتے تھے انہوں نے بھی آپ کے دین سے زیادہ اپنے اپنے مسلک کی تجارت کرنے لگے تو لوگوں کے دلوں سے ان کی عزت، عظمت و حرمت کو ختم کردےئے۔ اور پھر آپ نے اپنے آخری کتاب میں کئے ہوئے وعدے کے مطابق کہ ’’جس قوم کو خود اپنی حالت کو بدلنے کا خیال نہیں ہوتا، اس کی حالت نہیں بدلتے‘‘۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ اور یہ قوم بجائے اس بات کا محاسبہ کرتی کہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی آخری پستیوں تک پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ وہ بس اپنے ماضی کی شان و شوکت کی یادوں میں کھوئی رہی۔ اور آج بھی تین سو برس پہلے کے دور میں ہی ہے۔
اے خالق کائنات! آپ نے یہ وارننگ بھی دی تھی کہ جب کوئی قوم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں لے تی تب اُس پر اس سے پست اقوام کو مسلط کردیا جائے گا‘ ہم نے آپ کے وارننگ کو سمجھا نہیں اور کل کے حاکم آج محکوم بنے بیٹھے ہیں۔ آپ نے ہمیں ہر نعمت عطا کی تھی۔ اقتدار کے ساتھ ساتھ دولت دی جسے ہم نے عیش و عشرت میں اڑا دیا۔ اور آج اپنے پیشرو نسلوں کی خطاؤں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اے مالک کائنات! ہم نے ہمارے بزرگوں نے کئی دور دیکھے۔ عروج بھی اور زوال بھی۔ مسند‘ اقتدار چھن جانے کے باوجود اس ملک سے اس سرزمین سے ہماری محبت کم نہیں ہوئی۔ کیوں کہ اس ملک کو ہم نے اپنا ملک سمجھا۔ یہاں کے برادران وطن کو نفرتوں اور تعصب کے باوجود اپنے وجود کا ایک حصہ سمجھا۔ اس ملک کو فرنگیوں کے تسلط سے آزاد کروانے کے لئے ہمارے اسلاف نے جو قربانیاں دیں‘ وہ تاریخ کی اُن کتابوں میں محفوظ ہیں جنہیں وقت اور حالات کی دیمک کھاچکی ہے۔ ہم نے اس سرزمین کے لئے اپنے سروں کی قربانی دی۔ اپنے آنکھوں کے سامنے اپنے ارکان خاندان کو جلتے، کٹتے مرتے دیکھا۔ اپنے مکانوں اور دکانوں کو لٹتے مٹتے ہوئے دیکھا۔ اس کے باوجود جانے کیوں اس سرزمین سے کبھی کوئی گلہ نہیں۔ پھر تحریک آزادی کے مفاد پرست نادانوں نے اس سرزمین کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ تب ہمارے خون سے یہاں کی زمین سرخ ہوگئی۔ کھیتوں میں ہماری نعشوں کو بودیا گیا۔ کنوؤں اور تالابوں میں ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنی عفت و عصمت کو بچانے کے لئے ڈوب گئیں۔ وقت گذرا تو زخم بھی مندمل ہوئے۔ کبھی کبھی یادوں کی کسک محسوس ہوتی ہے۔ تو یہ زخم رسنے لگتے ہیں۔ آنکھیں برسنے لگتی ہیں۔ پھر بھی نہ تو اپنے برادران وطن سے کوئی گلہ کوئی شکوہ نہ ہی اس ملک سے ملک بیزاری۔
اے مالک دوجہاں! ہمارے بزرگوں نے 1947ء، 1948ء دیکھا اور اس کے اذیتناک، کربناک مراحل سے گزرے۔ ہمارے حصہ میں مرادآباد کی عیدگاہ میں پولیس کی گولیاں آئیں۔ ہاشم آباد ملیانہ کی نہر میں ہمارے زخمی‘ گولیوں سے چھنی جسم بہتے رہے۔ جلگاؤں، بھیونڈی، آسام، میں ہم ذبح ہوتے رہے۔ ہماری گنہگار آنکھوں نے 1992ء کا سانحہ دیکھا اور ہمارے ہم عصر اس ملک کے چپے چپے میں پریوار اور ان کے پالتو محافظین قانون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرتے رہے۔ گجرات میں نسل کشی کے دور سے بھی گزرے۔ مظفرنگر میں اس کی تاریخ دہرائی گئی۔ جھوٹے الزامات میں ہمارے نوجوان پس زنداں ڈال دےئے گئے۔ برسوں بعد بے قصور ہوکر وہاں سے نکلے تو بوڑھے بن کر نکلے۔
اے رب العزت! ہر ظلم ہر ستم ہم نے گوارا کیا۔ برداشت کیا۔ کبھی مقابلہ کیا۔ کبھی مدافعت کی۔ کہیں ہتھیار ڈال دےئے مگر ہم نے اس ملک سے اپنی محبت میں رَتی بھر کمی آنے نہیں دی بلکہ اس سرزمین پر آب و دانا نہیں ملا تو ہمارے نوجوانوں نے دیارِ غیر میں سخت محنت کرکے جو بھی کمایا اُسے اس ملک کے معاشی استحکام کے لئے خرچ کیا۔ دوسروں کی طرح مغربی ممالک میں اپنے آپ کو منتقل نہیں کیا۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں اپنے ترنگے کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اگرچہ کہ نادان تعصب پرست ہم پر عجیب عجیب سے الزامات عائد کرتے ہیں۔ مگر ہم اُسے اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ اگر وہ نادان نہ ہوتے تو ہم پر بھروسہ کرتے۔
پروردگار عالم! ہم نے ہر جبر و ستم کو برداشت کیا اسلئے کہ یہ ایک انسانی گروہ کا دوسرے انسانی گروہ پر ظلم تھا اور ہے جو قابل برداشت ہے مگر اب ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ اب یہ سرزمین آپ کے غیض و غضب کا نشانہ بنے گی کیوں کہ اس سرزمین پر ہر وہ کام ہورہا ہے جس کے لئے آپ کا جلال میں آنا ضروری ہے۔
اے اللہ! یہاں فرنگیوں نے ڈیڑھ صدی تک حکومت کی حالانکہ روئے ارض پر فرنگیوں اور یہودیوں سے زیادہ بدترین کوئی اور نہیں اس کے باوجود انہوں نے یہاں جو قوانین لاگو کئے تھے وہ انسانوں کے لئے تھے۔ اور آج ہمارے ابنائے وطن جو منصب قانون وانصاف پر براجمان ہیں‘ وہ ایسے قوانین لارہے ہیں جس سے یہ سرزمین انسانوں کے لئے نہیں بلکہ جانوروں کی آماجگاہ بن جائے گی۔ ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہوئے آپ کے غضب اور جاہ جلالت کو للکارا گیا ہے۔ تاریخ کے اوراق ہی نہیں بلکہ آپ کی آخری آسمانی کتاب بھی قوم کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے۔ بستی کی بستی آپ الٹ دی تھی۔ اور بحر مردار آج تک ہزاروں سال پہلے کے عبرتناک واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ جو قانون اور انصاف کا رکھوالا ہے وہ ایسے واقعات کو پڑھتا بھی ہے تو اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔
اے ستار العیوب! بے شک‘ بے عیب صرف آپ کی ذات ہے۔غیر ازدواجی تعلقات کو بھی جائزہ قرار دیتے ہوئے جو قانونی فیصلے کئے گئے ہیں اب اس سے حرام کاری عام ہوگی اور یہ ملک بھی ڈنمارک کی طرح ہوجائے گا جہاں کوئی بچہ پورے یقین کے ساتھ اپنے اصل باپ کا نام نہیں بتا سکے گا۔جب کسی سرزمین پر گناہ بڑھ جاتے ہیں تو کہیں قحط، خشک سالی آتی ہے تو کہیں طوفان و طغیانی سے بربادی ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ کہیں کسان بارش کیلئے آسمان کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا ہے تو کہیں اس کے کھیت سیلاب کی نذر ہورہے ہیں۔ اِن واقعات سے عبرت حاصل کیوں نہیں کرتا۔ بیشک آپ جسے ہدایت دیں وہی اس قسم کے واقعات پر غور کرتا ہے‘ اور سبق حاصل کرتا ہے۔ یہ ذمہ داری حکمران طبقہ کی ہے مگر ہماری پیش رو نسلوں کی غلطیوں کی وجہ سے آپ نے ہم پر اُن عناصر کو مسلط کیا ہے جن سے کسی قسم کی سمجھ بوجھ کی امید نہیں کی جاسکتی۔
یا اللہ! بے شک ہم اصل گنہگار ہیں‘ کیوں کہ ہم نے ہزاروں سال حکومت کرنے کے باوجود اپنے برادران وطن تک آپ کے دین کا اصل پیغام نہیں پہنچایا بلکہ اس کے بجائے اپنے اپنے مفاد کے لئے ہم نے ان سے رشتہ داری قائم کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مذہبی سانچے میں ڈال لیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کل ہمارے حکمران غفلت، گمراہی، تعیش کا شکار تھے‘ آج ان کی جگہ ہمارے قائدین نے لے لی ہے۔
اے اللہ ! ہماری پیشرو نسلوں کو بھی اور موجودہ نسلوں کو معاف کردے‘ اس ملک کو اپنے قہر سے محفوظ رکھ۔تعلیم یافتہ طبقہ محض کتابیں رٹنے والا جانور ہے‘ اُسے اگر ابتداء ہی سے اخلاقیات کا درس دیا جاتا، مذہبی تعلیم دی جاتی چاہے وہ کسی بھی مذہب کی کیوں نہ ہو تو اس کے فیصلے بھی اخلاق کے دائرہ میں ہوتے۔ پروردگار! بیشک آپ رحیم ہیں‘ کریم ہیں‘ معاف کرنے والے ہیں‘ آپ رحمت کے سمندر آپ کے غضب سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ آپ کو اپنی رحمت کا واسطہ ہم پر اور ہمارے ملک پر رحم فرما، کرم فرما، اپنی رحمت نازل فرما۔ آمین۔
(مضمون نگار گواہ اردو ویکلی حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
رابطہ : 9395381226






