ڈاکٹر سلیم خان
اکتوبر ۱۷ ، ۲۰۱۸ کے دن زینب کے قاتل عمران کو پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ عمران نے یہ گھناؤنا جرم پاکستان کے شہر قصور میں اس سال جنوری ۸ کو کیا تھا۔ پاکستان کے عوام غمگین ہیں کہ اس وحشیانہ حرکت کے بعد وہ ۱۰ ماہ زندہ کیوں رہا ؟ پاکستان میں زینب کی جنسی زیادتی اور قتل کے واقعہ نے سماج کو اسی طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جیسا کہ نربھیا کی آبروریزی کے بعد دہلی کی کیفیت تھی۔ دہلی میں ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ کو نربھیا کی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا ۔ اس گھناونے جرم کی پاداش میں ۶ لوگ گرفتار ہوئے ۔ ایک نے جیل میں خودکشی کرلی اور ایک کو نابالغ قرار دے کر رہا کردیا گیا ۔ باقی ۴ لوگوں کو دہلی ہائی کورٹ نے ستمبر ۲۰۱۳ سزائے موت سنائی ۔ اس سال جولائی میں سپریم کورٹ نے ان کی مجرمین کی دراخواستِ رحم کو مسترد کردیا لیکن ۷۰ ماہ بعد بھی ان کے تختۂ دار پرلٹکانے کی خبر نہیں آئی ۔ گزشتہ سال نربھیا قتل کی پانچویں برسی کے موقع پر مقتول کی والدہ آشا دیوی نے کہا تھا ’’پانچ سال کے بعد بھی مجرم زندہ ہیں ۔ اگر انصاف وقت پر نہیں کیا جائے تو لوگ قانون سے ڈرنا بند کردیتے ہیں۔ ایک مضبوط قانون وضع کیا جانا چاہیے اور ہر ایک کی چاہے وہ سیاستداں ہو یا عام آدمی ذہن سازی (تبدیلی) کی جانی چاہیے ‘‘ ۔
جنوری (۲۰۱۸) میں ننھی زنیب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین گئے ہوئے تھے کہ جمعرات ۴ تاریخ کو وہ اپنی خالہ کےیہاں پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے غائب ہو گئی۔اس کے چچا نے اگلے دن پولیس کو اطلاع کر دی لیکن ۹ جنوری تک کوئی سراغ نہیں ملا بالآخر منگل کوزینب کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ زنیب کو جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ بدھ کو قصور میں مشتعل مظاہرین نے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا اور تشدد کے واقعات میں دو افراد ہلاک ہو گئے ۔ ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے آتے ہی سارے ملک بے چینی اورغم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ احتجاجی مظاہروں کے بعد ۱۹ جنوری کوپولیس نے ۲۴ سالہ عمران علی کو گرفتار کرلیا۔ مجرم پر ۱۲ فروری کو فردِ جرم عائد کی گئی۔ لاہور کی عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں جاری سماعت ۷ روز میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔ ۱۸ فروری کو انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے زینب قتل کیس کے مرکزی مجرم عمران علی کو چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنادی۔
مجرم عمران نے سزا کے خلاف پہلے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی جسے مسترد کردیا گیا اور بعد میں سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی اسے عدالتِ عظمیٰ نے جون میں خارج کر دیا ۔ صدر مملکت سے رحم کی اپیل آخری مرحلہ تھا وہ بھی مسترد ہو گیا ۔ اس کے بعد اکتوبر ۱۲ کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیئے تاکہ اکتوبر ۱۷ کو پھانسی کی تیاری کی جائے ۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر میرے بس میں ہوتو میں اسی وقت مجرم کو سرِ عام سولی پر چڑھا دوں ۔ زینب کے والد امین انصاری نے اپنی بیٹی کے قاتل کی سرِعام پھانسی دینے کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ۔اس درخواست کو سماعت کے بعد یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ وہ عدالت کانہیں حکومت کا کام ہے جس نے اجازت نہیں دی۔ زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر ۲۱ بار سزائے موت ، ۲۳ سال قید کی سزا ۲۵ لاکھ جرمانہ اور ۲۰ لاکھ ۵۵ ہزار دیت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح کا عدل ایک نیم جمہوری، ناکام ملک پاکستان میں تو ممکن ہے لیکن ہندوستان جیسی تہذیب یافتہ عظیم جمہوریت میں نہیں۔ یہاں تو کھٹوعہ اور اناؤ کی بیٹیوں کو نہ جانے کب تک انصاف کا انتظار کرنا پڑے اور کون جانے کہ بالآخر انہیں انصاف ملے یا نہ ملے؟