گجرات میں خوف و دہشت کا نیا راؤنڈ

ڈاکٹرعبدالقادرشمس

مختلف مذاہب،متعددمسالک،بے شمارعقیدت گاہوں اورطرح طرح کی زبان ونسل پر مشتمل ہندوستان کی عظمت وترقی کاراز یہاں کی مذہبی رواداری اورہزاروںسالہ سماجی دوستی میں پنہاں ہے، مگرکبھی کبھی اس ملک میں نسلی تشددبھڑک اٹھتاہے توکہیں مذہبی اورعلاقائی تعصب یہا ںکی گنگاجمنی تہذیب کونگلنے کی کوشش کرتاہے ۔ایسی کوششیں آزادی کے بعدمتعددبارہوچکی ہیں ،کبھی لسانی تنازعہ کے نام پر توکبھی نسلی تفریق کی بنیادپر ،چنانچہ جنوب ہندمیں تامل زبان کی بالادستی کاتنازعہ کافی مشہوررہاہے ،اسی طرح ممبئی میں مراٹھااورغیر مراٹھا توکشمیرمیں کشمیری اورنان کشمیر ی کااختلاف متعددبارتشددکی شکل لے چکاہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں قبل ممبئی میں شمالی ہندکے لوگوں پر محض اس لیے تشدداورظلم وستم کے پہاڑتوڑے گئے کہ وہ وہاں اپنی محنت اورجدوجہد سے ملازمت اورتجارت کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی طورپر بھی انگڑائی لینے لگے ہیں۔چنددنوںسے گجرات میں بھی شمالی ہندخاص طورپریوپی بہارکے لوگوں کے خلاف نفرت وتعصب کی مہم شدت اختیارکرتی جارہی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق گجرات سے شمالی ہندخاص طورپر یوپی اور بہار کے لوگ اپنے اپنے وطن کی جانب اس لیے بھاگ رہے ہیںکیوںکہ انہیں خوف ہے کہ کسی وقت بھی گجراتی النسل متحدہوکران پر حملہ کرسکتے ہیں۔دراصل گجرات کے سابرکانٹھاضلع میں ایک معصوم بچی کی عصمت دری ہوئی جس کے ملزم کاتعلق شمالی ہندسے ہے اس لیے مقامی لوگوں کاغصہ شمالی ہندکے لوگوں کے خلاف بھڑک اٹھاہے ،مگربعض تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات توآئے دن ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہورہے ہیں مگراس کونسلی رنگ دے کر نئے قسم کی فرقہ واریت کوجنم دینے کے پیچھے کسی سازش سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
سماجی ماہرین اورسیاسی قائدین اس بات کاجائزہ لینے پر مجبورہیں کہ آخر مبینہ عصمت دری کے واقعہ کے بعدکن لوگوں نے ماحول کوپراگندہ کرنے کی کوشش کی کہ نہایت سرعت کے ساتھ شمالی ہندکے لوگوں کے خلاف ماحول سازی ہوگئی اوررفتہ رفتہ لوگ بہاراوریوپی کے لوگوں کے خلاف صف آراہونے لگے۔ صورتحال سنگین اس وقت ہوگئی جب ریاست گجرات کے کئی مقامات پر ”بھیا بھگاؤ،گجرات بچاؤ “جیسے نعرے دیواروں اوربینروں پر نظر آنے لگے۔کچھ کاروباریوں نے بھی اس آ گ میں گھی ڈالنے کی کوشش کی ،ان کاکہناتھا کہ شمالی ہندکے لوگوں نے یہا ںکی تجارت پر قبضہ کرلیاہے جس کی وجہ سے گجراتیوں کاکاروبار ٹھپ پڑگیاہے۔ ظاہرہے معصوم کی عصمت دری کے غمناک واقعہ کے بعدعوام کاغم وغصہ فطری امرہے مگرا س کے بعدوہاں جو خوف وہراس کاماحول پیداکیاگیاوہ بھی نہایت خطرناک اشارہ ہے۔ 
تازہ اطلاع کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ گجرات کے احمدآبادسمیت مختلف بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں شمالی ہندکے لوگوں کی بھیڑلگی ہو ئی ہے اورہرشخص فوراً سے پیشتر ٹرین پرسوارہوکر اپنے وطن کوچ کرجاناچاہتاہے۔ ٹرینوں میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہے،کیاجنرل ڈبہ اورکیاریزرویشن ڈبہ،ہرجگہ لوگ گھسے چلے جارہے ہیں۔جوفوٹیج سامنے آئے ہیں ان کودیکھ کرانداز ہ ہوتاہے کہ لوگو ں کے چہروں پربے اطمینانی اور بے پناہ خوف طاری ہے۔یوپی اوربہارمیں بھی لوگوں کی تشویش کافی بڑھ گئی ہے ۔لوگ اپنوں کے بہ سلامت واپسی کاانتظارکررہے ہیں۔
دوسری طرف گجرات کے مختلف شہروں میں افواہوں کابازاربھی گرم ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح گودھراٹرین حادثہ کے بعدوہاں جوماحول پیدا ہواتھا۔اس قدرتیزی سے افواہیں پھیلیںکہ لوگوں کو2002کی یادآنے لگی۔” اتربھارتیہ وکاس پریشد“ کے صدرشیام سنگھ ٹھاکر نے الزام لگایاہے کہ شمالی ہندکے خلاف گجراتیوں کوورغلانے میں کانگریس کے رکن اسمبلی الپیش ٹھاکر کاہاتھ ہے جب کہ الپیش ٹھاکر اسے کسی بڑی سازش کاحصہ مانتے ہوئے خودپر لگائے گئے الزام کو یکسرخارج کرتے ہیں۔انہوں نے صاف طورپر کہاہے کہ وہ معصوم کی عصمت دری کے مجرمین کوکیفرکردارتک پہنچانے کے حق میں ہیں لیکن اتربھارتی عوام کوخوف وہراس میں مبتلاکرنے کے ہرگزمخالف ہیں۔انہو ںنے کہاہے کہ ایک بارپھر کوئی گہری سازش چل رہی ہے جس پر قدغن لگانا ضروری ہے۔انہوں نے اس کی انکوائری کابھی مطالبہ کیاہے۔ 
 ان دنوں گجرات عصبیت کی شدید ترین آگ میں جھلس رہا ہے اور شمالی ہندوستان کے گجرات مےں مقیم افراد پرخوف کے سایے دراز ہوتے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے ملک کے بیشترافرادشدیدذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ کبھی ممبئی میں شمالی ہندکے لوگوں کے خلاف عصبیت کی آگ توکبھی جنوبی ہندمیں آسام کے لوگوں کی زندگی دوبھر کرنے کی دھمکی ،یہ ایسارویہ ہے جو ہندوستان جیسے بڑے ملک کے ماتھے پر بدنمادھبہ ہے۔یہ سوال بھی اٹھتاہے کہ اگرکسی ملزم کاتعلق کسی ریاست سے ہے توپوری ریاست کے لوگوں کے خلاف نفرت وتعصب کوکیوں کرجائز ٹھہرایا جاسکتاہے ؟
ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ سب کسی گہری سازش کے تحت کرایاجاتاہے اورپوری منصوبہ بندی کے ساتھ گجرات میں بھی خوف وافواہوں کابازارگرم کیاجارہاہے ۔ عجیب بات ہے کہ گجرات جیسی ترقی یافتہ ریاست میں عصبیت کی گھنگھور گھٹاچھائی ہوئی ہے اورحکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں اوربس اڈوں پر بوڑھے ،بچے اورخواتین کسمپرسی کی حالت میں ہیں جن کاپرسان حال کوئی نہیں۔
یادرکھناچاہیے کہ یہ اس ملک کے جمہوری مزاج اوردستورکی روح کے خلاف ہے اوریہ بھی یادرکھناچاہیے کہ شمالی ہندکے جفاکش لوگ مہاراشٹر ،گجرات اورکرناٹک کی ترقی میں اہم رول اداکرتے ہیں، اگرعصبیت کی یہی صورتحال رہی توا س ملک کی ترقی کی رفتاتھم جائے گی اوربین ریاستی عصبیت کی آگ پوری طرح بھڑک اٹھے گی جونہایت خطرناک موڑپر منتج ہوگی ،اس لیے حکومت ،سماج کے سربرآوردہ افراد اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی عصبیت کی آگ کو فوراً سے پیشتربجھانے کی فکرکریں۔
عصبیت ایک عذاب ہے جو کسی بھی ملک وقوم کو دےمک کی طرح کھوکھلا کردےتی ہے اور جب یہ عصبیت فرقہ وارانہ رنگ اختےار کرلےتی ہے اور تشدد اس کا نصب العین قرار پاتا ہے تو پھر اےسا معاشرہ وجود مےں آتا ہے جہاں ظلم وجبر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور انسان ہی انسان کے خون کا پےاسا ہوجاتا ہے۔ عصبیت چاہے مذہبی ہو یا نسلی، لسانی ہو یا علاقائی یہ سماجی تانے بانے اور اخلاق واقدار کی جملہ روایات کو تہس نہس کردےتی ہے اور پھر شروع ہوتا ہے انارکی، ظلم واستحصال اور دوریاں۔ گجرات کی تازہ صورتحال کے تناظر میں ملک کے سیاسی وسماجی قائدین کو فکرمندہوناچاہیے اورافواہوں پر قابوپانے کے لیے کوئی میکانزم مقامی سطح پر ضروروضع کیاجاناچاہیے تاکہ کسی بھی محلہ سے اٹھنے والی افواہ کووہیں دبا دیا جائے۔ جہاں تک معصوم بچی کی عصمت دری کامعاملہ ہے توا س پر کسی کو بھی مجرم کوسخت ترین سزادیے جانے میں کوئی تحفظ نہیں ہے، اب چاہے مجرم کسی بھی مذہب،کسی بھی علاقہ یاکسی بھی ذات سے تعلق رکھتاہو۔جہاں تک شمالی ہندکے لوگوں کی کاروبارمیں ترقی کرنے کی بات ہے تویہ خوشی اورقابل فخربات ہے جسے گجرات،مہاراشٹر ،دہلی اورکرناٹک وتامل ناڈوجیسی ترقی یافتہ ریاستوں کے عوام وخواص کو قبول کرناچاہیے ۔یادرکھناچاہیے کہ شمالی ہندکے جفاکش لوگ جہاںجاتے ہیں وہاں وہ نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کوبہتربنانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ مقامی لوگوں کی ترقی اورملک کی ناموری کابھی باعث بنتے ہیں،اس لیے علاقائی تعصب کوتمام ریاستوں کے لوگوں کو اپنے پیروں تلے کچل دینا چاہیے۔ 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں