محرومی

سیدہ تبسم منظور

ڈاکٹر کے پاس آج ہمارا چیک اپ تھا۔ شام کا وقت طے ہوا تھا ۔ہسپتال جانے کے لیے جب باہر نکلے تو دیکھا کہ سورج ڈھل چکا تھا۔پنچھی اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ چکے تھے ۔ آہستہ آہستہ رات کی سیاہی ہر طرف اپنا ڈیرا جما رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا دل کو مسرور کر رہی تھی ۔ سہانا موسم اپنا اثر دکھانے لگا اورہم نےاس دلکش موسم میں چہل قدمی کرتے ہوئے ہسپتال تک جانے کا ارادہ کیا۔ ہسپتال ہمارے گھر سے ایک کلومیٹر کی دوری پرتھا۔ ہم ہسپتال پہنچے دیکھا تو کافی رش تھا۔ یا اللہ اتنے سارے مریض! یہ دیکھ کر ہی ہمیں گھبراہٹ ہونے لگی۔ ہم سوچنے لگے نہ جانے یہاں کتنا وقت گزر جائے گا۔

 معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مریض تشویش ناک حالت میں پندرہ دن سے ایڈمیٹ ہے۔ ہم نے آگے بڑھ کر اپنے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا جن سے ہمیں ملنا تھا۔ ریسپشنٹ نے بتایا آج ڈاکٹر اپنے وقت سے تھوڑا لیٹ آنے والے ہیں۔ ہم نے سوچا گھر جاکر واپس آنے میں شاید ہمارا نمبر نکل جائے اس لئے ہم نے وہیں پر بیٹھنے کا ارادہ کرلیا۔ ابھی ہمیں بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی اور ہم ادھر ادھر دیکھے جا رہے تھے تو احساس ہوا کہ جن کا مریض ایڈمیٹ تھا وہ سبھی لوگ کافی پریشان تھے۔ تناؤ کی وجہ سے سب کے چہرے پھیکے پڑ گئے تھے۔ پریشانی کی حالت میں وہ ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔ بہت دیر تک ہم ان کو دیکھتے رہے ۔ان کی بے چینی کو محسوس بھی کر رہے تھے۔ جب ہم سے رہا نہیں گیا تو ہم نے ان میں سے ایک عورت سے پوچھ ہی لیا جو ہمارے پاس والی کرسی پر بیٹھی تھی ۔

’’ بہن ! آپ سب اتنے پریشان کیوں ہیں؟‘‘

’’جی! وہ ہماری امی بہت بیمار ہیں اور ڈاکٹر کہہ رہے ہیں اب یہاں رکھ کر کوئی فائدہ نہیں۔ انہیں گھر لے جانے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔‘‘

’’ اچھا۔ تو لے جائیں گھر اور اپنی ماں کی خدمت کریں۔ کیا ہوا ہے انہیں اور کب سے اسپتال میں ہیں۔‘‘

 ’’ پندرہ دن ہوئے ہیں یہاں داخل کرائے اچھی تھیں امی اللہ کے فضل سے۔ انہیں کوئی بیماری کوئی تکلیف نہیں تھی ۔لیکن چار چھ مہینے سےان کے پیٹ میں درد ہورہا تھا۔ علاج بھی کروایا پر کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔کبھی اچھی رہتیں کبھی درد بڑھ جاتا۔پندرہ دن پہلے بہت شدت سے درد اٹھا اور ان سے برداشت ہی نہیں ہوا تو یہاں ہسپتال میں داخل کرایا۔بہت سارےٹیسٹ کرائے ۔ایک رپورٹ لیب میں سے آنے کے لئے وقت لگا۔ دو چار دن پہلے ہی پتہ چلا کہ ان کے پیٹ میں کینسر ہوا ہےاور اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔نہ آپریشن کر سکتے ہیں نہ کیمو دے سکتے ہیں کیوں کہ سب طرف پھیل چکا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر نے کہا آپ انہیں گھر لے جائیں۔دوائی وغیرہ دیتے رہیں۔ جو کچھ بھی دن ہیں گھر پر رکھیں اورخدمت کریں۔‘‘

’’یااللہ !رحم کر اور ان کی مشکل کو آسان کر ۔ سب ٹھیک ہوجائے گا ۔اللہ بہت مہربان ہے ۔ ‘‘ہم نے انہیں دلاسہ دیااور پوچھا کہ یہ سب کون ہیں۔

’’جی! یہ ہمارے تین بھائی اور تین بھابیاں ہیں ۔اچھا میں دیکھتی ہوں سب کی کیا رائے ہے۔‘‘اور وہ اٹھ کر چلی گئی۔

یہ فیملی گجراتی تھی۔ بات بھی گجراتی میں ہی کر رہے تھے۔  

ہم سوچنے لگے کتنے پریشان ہیں بے چارے اپنی ماں کے لئے ۔ہر ایک کے چہرے سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی ۔یہاں سے وہاں ٹہلے جارہے تھے ۔آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تھوڑا غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ شاید کوئی اور بات ہے۔ان کی حرکات سےکچھ اور ظاہر ہو رہا تھا۔سب ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ہماری کچھ سمجھ نہیں آرہاتھاتو ہم تھوڑا ان کے قریب جاکر کھڑے ہوگئے ۔ پتہ چلا کہ وہ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ماں کو کون اپنے گھر لے جائے گا؟ کس کے گھر پررہیں گی؟ ہمیں گجراتی سمجھ آرہی تھی۔

 جب ہم نے یہ جملے سنے تو ہمارا پورا وجود ہل ساگیا۔اب سارا ماجرا سمجھ میں آ گیا۔ ان سب کو اپنی بیمار ماں کی فکر نہیں تھی اور نہ ہی اپنی ماں کے لئے پریشان تھےبلکہ ان لوگوں کو یہ فکر تھی کہ ماں کس کے گھر جائے گی۔ ہمیں یہ سن کر بہت ہی افسوس ہوا۔ یہ کیسی اولاد ہے۔ اللہ نے انہیں اپنی ماں کی خدمت کرنے کا موقع دیا ہے مگر یہ اولاد اس خدمت سے محروم ہیں ۔ ماں تو کبھی اپنے بچوں میں فرق نہیں کرتی۔ چار بچے ہوں یا آٹھ ، سب کو برابر پیار کرتی ہے کبھی کسی میں بھید بھاؤ نہیں کرتی۔ رات دن اپنے بچوں کی خدمت کرتی ہے پرورش کرتی ہے۔ جب بچے بیمار ہوتے ہیں تو رات رات بھر جاگتی ہے۔ پھر کیوں چار بچوں سے ایک ماں پالی نہیں جاتی؟ کیوں یہ بچے اپنا بچپن بھول جاتے ہیں؟ کس طرح ان کے والدین نے دن رات ایک کر کے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہوگا! کتنی تکلیف اٹھائی ہوگی۔کتنی راتیں جاگی ہوں گی۔

اتنے میں ایک عورت نے کہا، ’’ بڑے بھائی !آپ اپنے گھر لے جائیں ۔ آپ کا گھر بڑا بھی ہے۔‘‘ اس آدمی کےکچھ بولنے سے پہلے ہی دوسری عورت بولی، ’’ میری خود کی طبیعت خراب رہتی ہے تو میں امی کی دیکھ بھال کیسے کروں گی؟ میرا خیال ہے یہ چھوٹے کے گھر میں زیادہ آرام سے رہ سکتی ہیں۔ ‘‘یہ شاید بڑی بھابی تھیں۔ ” ان کی ماں پہلے بھی ان کے پاس ہی رہتی تھیں۔ ذہن میں ایک سوال رینگ گیا کہ جب حالت اچھی تھی تب کیوں رکھا اور اب آخری وقت لگ رہا ہے تو فرار کا راستہ کیوں اختیار کر رہے ہیں ۔

جیسے ہی چھوٹے کی بیوی نے سنا جھٹ سے بول اٹھیں ، ’’میں تو جاب کرتی ہوں۔  دن بھر گھر پر بھی نہیں رہتی پھر امی کی دیکھ بھال کیسے کرسکوں گی۔ میرا خیال ہے امی کو منجھلے بھائی کے پاس رہنا چاہیے۔‘‘

اتنے میں اس عورت نے جواب دیا جس نے ہم سے بات کی تھی، ’’ میں بیٹی ہوں اپنے گھر لے جاتی پر میرے سسرال والے اور لوگ کیا کہیں گے کہ تین تین بیٹے ہونے کے باوجود ماں بیٹی کے گھر پر ہے۔‘‘

اب سب سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کِیا جائے۔ ماں کو کون لے کر جائے گا۔ تھوڑی سی بحث مباحثے کے بعد یہ طے ہو پایا کہ ماں منجھلے کے گھر پر ہی رہے گی۔ اس پر منجھلی بھابھی نے کہا، ’لے تو جاؤں پر میرا گھر بہت چھوٹا ہے اور وہاں امی کو ویسا آرام اور سکون نہیں ملے گا۔روزانہ کسی نہ کسی کا امی کی دیکھ بھال کے لیےآنا لازمی ہوگا۔‘‘دیکھا جائے تو اس نے بھی اپنے ہاتھ اوپر کر لئے تھے۔

صاف سمجھ میں آرہا تھا کہ سب کی بتائی مجبوریاں صرف بہانہ تھیں۔ان میں سے کوئی بھی اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے کر ہی نہیں جانا چاہتا تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گئے تھے اور اپنی جان چھڑا رہے تھے۔جیسے یہ وقت ان کی ماں پر ہی آیا ہے اور یہ لوگ کبھی بوڑھے ہونے والے ہی نہیں ہیں۔

ہم دیکھ رہے تھے کہ ان کی سوچیں اور گہری اور گہری ہوتی جارہی تھیں اور صاف لگ رہا تھا کہ ان کو چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اپنی امی کی کسی کو بھی فکر نہیں تھی نہ ہی ان کی طبیعت کی فکر تھی۔ پر وہ جو رب ہے نا جواوپر بیٹھا سب دیکھ رہا ہے، اسے اپنے بندے کی فکر ہےاور وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والاہے۔

ہمارے ڈاکٹر بھی کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو گئے تھے۔ نو بج رہے تھے۔ ہم نے واپس ریسیپشنسٹ سے پوچھا۔ انہوں نے بتایا اب تھوڑی دیر میں آ جائیں گے اور اسی وقت ڈاکٹر آگئے۔ہمارے آگے چار مریض اور تھے۔

 پھر ہم ان لوگوں کی طرف توجہ ہوئے۔اتنے میں ایک نرس وہاں پر آئی اور ان کی امی کا نام لے کر پکارا۔ جب ان لوگوں نے نام سنا تو آگے ہو گئے اور کہا، ’’ ہاں بتائیے سسٹر ہم ہیں مریض کے رشتے دار۔‘‘

نرس نے انہیں ڈاکٹر کی طلبی کے بارے میں کہا اور تیزی سے پلٹ کر اندر چلی گئی۔ یہ سب لوگ بھی نرس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ وارڈ کے باہر جاکر رکے ہی تھے کہ ڈاکٹر صاحب باہر آئے اور کہنے لگے ’’آپ اپنے مریض کواب گھر لے جائیں۔ کیونکہ یہاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔مرض کافی بڑھ چکا ہے اور اب یہ چار چھ دن کی مہمان ہیں۔ میں نے ساری دوائیاں لکھ دی ہیں اور ڈسچارج پیپر بھی تیار ہے۔‘‘   

 یہ سننا تھا کہ سب کے ہوش اڑ گئےاور سب بھائی بہن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگےجیسے سوچ رہے ہوں کہ اب کیاکِیا جائے۔سب کے چہروں پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔اس کے بعد پھر ان لوگوں میں جیسے جنگ شروع ہوگئی۔’’ تو لے جا۔ تو لے جا۔‘‘ایسے محسوس ہو رہا تھا ماں ان پر بوجھ بن گئی ہے۔ ان کے دلوں کا حال ان کا چہرے بیان کر رہے تھے۔

ہم یہ حال دیکھ کر سوچنے لگے کہ اگر اولادایسی ہوتی ہے تو کیا فائدہ ایسی اولاد کا۔ کیا اسی دن کے لئے اولاد مانگی جاتی ہے ۔جب اللہ تعالی نے خدمت کرنے کا موقع دیا ہے تو یہ اولاد اس سے محروم ہورہی ہے اور اپنی جنت گنوا رہی ہے۔ اب یہ ماں کی خدمت کرنے سے کترا رہیں ہیں۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ کیوں؟ آخر کیوں نہیں سمجھتے؟  کیوں اپنے فرض سے فرار ہورہے ہیں؟ ماں باپ تو سب کے ہوتے ہیں اور یہ بھی ماں باپ ہیں یا ہوں گے۔ پھر کیوں لوگ اپنا کل نہیں سوچتے؟آج اگر خود ماں باپ کی خدمت نہیں کریں گے تو کیا کل ان کی اولاد ان کی خدمت کیوں کر ے گی؟ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے ۔جو کرو گے وہ ہی پاؤ گے۔

 ہمیں لگتا ہےجن کے والدین زندہ ہیں وہ دنیا کے خوش نصیب انسان ہیں۔ ماں اور باپ کے رشتے ایسے ہیں کہ جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ یہ رشتے بس ایک ہی بار ملتے ہیں اور پھر ریت پہ کھینچی لکیروں کی طرح تیز ہواؤں کی نظر ہوجاتے ہیں۔یہ ایسی اولادوں کی محرومی ہی ہے جواپنے والدین کی خدمت نہ کرتے ہوئے اپنی ساری نیکیوں کو برباد کررہے ہیں۔ایسی اولاد کو دنیا میں بھی عذاب ہےاور آخرت میں بھی عذاب ہے۔ 

 9870971871

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں