خبر درخبر(576)
شمس تبریز قاسمی
سیتاکو ہندو مذہب میں دیوی کا درجہ حاصل ہے ،کہاجاتاہے کہ سیتامڑھی میں سیتاکی پیدائش ہوئی تھی جن کے نام سے شہر اور ضلع کا نام سیتامڑھی ہے ۔اس سیتامڑھی میں سیتارام کانعرو لگانے والے ،درگائی مائی کی پوجا کرنے والے ہر سال در گا پوجا پر فساد کرتے ہیں ،بے گناہوں کو مارتے ہیں،گھروں کو لوٹتے ہیں ،آگ زنی کرتے ہوئے اور یہ سب کرتے ہوئے درگا پوجا کا بھسان کرنے جاتے ہیں ۔اس سال بھی ایسا ہی ہوا ۔ 19 20 اکتوبر کو سیتامڑھی ضلع میں شہر سے متصل کچھ حسا س گاﺅں میں در گا مائی کے پجاریوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا ،ان کا گھر جلایا ،سامانوں کو لوٹ لیا ۔ ایک بوڑھے شخص کو ذبح کرکے آگ میں جلادیااور پولس تماشا دیکھتی رہی ۔اس نے فسادیوں اور دنگائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی ۔اس کی موجودگی میں فسادی لاٹھی ،پتھر اور تلوار چلاتے رہے ۔ سوشاشن بابو کہلانے والے نتیش کمار نے بھی اس فساد پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔کوئی توجہ نہیںدی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سیتامڑھی کا کچھ علاقہ فساد یوں
کی نذر ہوگیا ۔
ہمارے ایک سینئر دوست جناب تنویر عالم نے اس بارے میں ایک تفصیلی رپوٹ لکھی ہے جو ملت ٹائمز کی انگلش سائٹ میں شائع کی گئی ہے اس کے علاوہ وہاں کے صحافی جناب اشتیاق عالمی تسنیمی نے بھی وہاں کی تفصیلات سے آگاہ کیاہے جس کی بنیاد پر آج ہم کچھ حقائق اپنے اس کالم میں لکھ رہے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق سیتامڑھی کے کچھ علاقے انتہائی حساس ہیں جن مرچائی پٹی، بڑا بازار، گوشالا چوک، مرلیا چک، مدھوبن، راجوپٹی، مہسول اور مہسول چوک سرفہرست ہیں۔ 1959 اور 1992 میں بھی یہاں بھیانک فسادات ہوچکے ہیں جن میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا ۔حالیہ فساد کی شروعات مدھوبن گاﺅں سے ہوئی ۔ یہ گاو¿ں شہر سے تھوڑا سا جنوب کی طرف واقع ہے، بتایا جاتا ہے کہ وہاں کی درگا پوجا کمیٹی اس بات پر بضد تھی کہ مورتی بھسان کا جلوس درمیان گاو¿ں سے ہو کر جائے گا جس کی ماضی کے سالوں میں کبھی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے اور نہ کبھی ایسا ہوا ۔ مورتی بھسان یا تعزیہ کے جلوس کو لے کر جانے کا راستہ انتظامیہ طے کرتی ہے اور اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں گاﺅں والوں اور انتظامیہ کے درمیان دو بار امن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی اور آخری میٹنگ میں جو 16 اکتوبر کو ہوئی تھی انتظامیہ اورگاﺅں والوں کے درمیان طے ہوا کہ مورتی بھسان والا جلوس اپنے پرانے طے شدہ راستے ہی جائے گا یعنی مسلمانوں کے علاقے سے نہیں جائے گا۔ گاو¿ں والوں کا کہنا ہے کہ 19 اکتوبر کی رات کو مورتی بھسان کا جلوس نکلا جس نے مسلمانوں کے اس محلے میںداخل ہونے کی کوشش جہاں ممنوع تھا ۔پولس کی بروقت مداخلت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ۔اس کے کچھ ہی دیر بعد تین اطراف سے ایک بھیڑ نے گاﺅں پر حملہ کردیا ۔اس بھیڑ میں تقریبا 1500 سے زائد اکثریتی فرقہ کے لوگ شامل تھے ۔ اس بھیڑ کے ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈا، بھالا اور تلوار جیسے ہتھیار تھے۔مسلمانوں پاکستان جاﺅ ۔جے شری رام کا نعرہ یہ بھیڑ لگارہی تھی ۔ اس بھیڑ نے پہلے ایک گھر میں آگ لگایا ۔اس کے بعد کئی گھروں کو لوٹنے کا کام کیا۔ جانور کھول کر لے گئے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ یہ بھیڑ مدھوبن سے مرلیا چک پہونچ گئی اور وہاں بھی کئی مسلم گھروں پر حملہ کیا گیا۔لوٹ مار کیا گیا ۔
20 اکتوبر کی صبح کو یہ افواہ اڑائی گئی کہ گوشالہ چوک کی مورتی مسلمانوں نے توڑ دی ہے ۔بجلی کی طرح یہ خبر اکثریتی سماج کے درمیان پھیل گئی اور دس بجے 2000 سے زائد لوگوں کی بھیڑ وہاں اکٹھاہوگئی اور پھر مرلیا چک پر لاٹھی ،ڈنڈا ،تلوار اور بھالاسے حملہ کردیا ۔تقریبا دس سے زائد گھروں کو لوٹ لیا ، راستہ میںجو کوئی نظر آیا اس پر حملہ کیا ،گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔دکانوں کو آگ لگادی ۔اس کے بعد یہ بھیڑ مرچائی پٹی میں داخل ہوگئی جہاں کے تین گھروں کو آگ کے حوالے کردیاگیا ۔
اس بھیڑ نے سب سے زیادہ بربریت کا ثبوت ایک ضعیف شخص زین الانصاری کو زندہ ذبح کرکے اور جلا کرکے پیش کیا ۔زین الانصاری راجو پٹی میں اپنی بیٹی کے گھر سے گیارہ بجے نکلے ،وہاں لوگوں نے سمجھایاکہ حالات کشیدہ ہیں ،مت جائیں انہوں نے کہاکہ مجھ بوڑھے شخص سے کس کو کیا دشمنی ہوگی لیکن پانچ کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے ہی بھیڑ نے اس ضعیف شخص کوپکڑکے زندہ ذبح کردیا اور لکڑی جمع کرکے آگ لگادیا۔کئی دنوں تک تصویر وائرل ہونے کے بعد بمشکل لاش کی شناخت ہوسکی۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی ٹیم آج اس علاقے کی دورہ کرنے گئی تھی جس کی اطلاعات کے مطابق چار مسلمانوں کی فساد میں موت ہوئی ،درجنوں لاپتہ ہیں اور لاکھوں کی املاک کا ضیاع ہواہے ۔
ستیامڑھی میں فساد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ،اکثر وہاں درگا پوجا اور محرم کے موقع پر اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ،حالیہ واقعہ زیادہ سنگین ہے جس میں چار لوگوں کی موت ہوچکی ہے ۔درجنوں زخمی اور لاپتہ ہیں ۔فساد کے بھڑکنے اور بھیڑ پر کنٹر و ل نہ کرنے کے سلسلے میں پولس اور انتظامیہ کا رول سب سے شرمناک رہاہے ۔انٹر نیٹ کی سروس بحال ہونے کے بعد جو تصاویر اور ویڈ و وائرل ہوئی ہے اس نے براہ راست پولس اور انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑ ا کردیاہے ۔صاف دیکھا جارہاہے کہ بھیڑ حملہ کررہی ہے ،مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ رہی ہے ،زین الانصاری کو زندد ذبح کیا جارہاہے ،دکانیں نذر آتش کی جارہی ہیں اور پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔سوساشن بابو کہلانے والے نتیش کمار کی سرکار میں اس فساد نے ان کی حقیقت بھی بے نقاب کردی ہے کہ بی جے پی کے سامنے وہ بے بس ہوچکے ہیں ۔ملک کے دیگر حصوں کے طرح وہاں کے وزیر اعلی بھی آر ایس ایس اور انتہاءپسند ہندو تنظیموں کے سامنے بے بس ہیں ۔سیتامڑھی کے کچھ سماجی کارکنا ن اور حالات پر نظر رکھنے والوں نے ملت ٹائمز سے یہ بھی بتایاکہ اس پورے معاملے میں وہاں کے ایس پی وکاس ورمن کا رول جانبدارانہ تھا ۔اکثریتی فرقہ کی خاموش حمایت کی گئی او رحملہ روکنے کی کوشش نہیں ہوئی ۔مزید تفصیلات کیلئے ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر ہماری ویڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔
stqasmi@gmail.com
https://www.youtube.com/watch?v=rHMLSaBd4Rg