عدلیہ سے ٹکراؤکا ماحول بنانے کی خطرناک کوشش

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

ہندوستان میں ایک ایسا قابل فخر و باوقار عدالتی سسٹم ہے جس کی مثالیں دی جاتی ہیں ،انصاف کا مندر کہا جاتاہے، مگر گزشتہ چند ماہ سے عدالت کی مخالفت عام بات ہو گئی ہے۔جیسے یہ کوئی جرم نہیں ہو،پہلےسبھی ہندوستانی عدالت کے ذریعہ سنائے گئے فیصلوں کا کھلے دل سے احترام کرتے تھے اور اس پر اظہار خیال کرنے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھےکہ کہیں توہین عدالت کے زدمیں نہ آجائیں۔اس کی وجہ یہ ہےکہ انہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہےکہ اگر ایک عدالت کی کارروائی سے وہ مطمئن نہیں ہیں تو ملک کی دوسری چھوٹی بڑی عدالتوں کے دروازے ان کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ایک مضبوط عدالتی سسٹم ہونے کی وجہ سے انہیں یہ یقین بھی ہوتاہےکہ دیر یاسویر کہیں نہ کہیں سے انصاف کی لڑائی میں انہیں کامیابی ضرور ملےگی ،یہ سوچ کر وہ مایوس نہیں ہوتے۔کئی باردیکھا گیا ہےکہ  بہت سی پیچیدگیوں کے باعث طویل مدت تک عدالتوں میں زیر التوا رہنے والے کیسزمیںجو فیصلہ سامنے آیا ،اس  پر متاثرین نے ٹھنڈی سانس لی اور فیصلے کے بعد انصاف کے اس مندرکے تئیں ان کے اعتماد میں استحکام آیا۔تاہم پچھلےماہ آنے والے چند فیصلوں کے خلاف جس طرح سے برسر اقتدار پارٹی کے لوگ بیان بازی کر رہے ہیں ۔ان کی حرکات و سکنات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دانست طور پر عدلیہ سے ٹکراؤ کا ماحول  بنایا جا رہا ہے۔

اقتدار کے حصول کے لئے سیاست داں کس حد تک جا سکتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جان بوجھ کر عدالتوں کے فیصلے کو متنازع بنایا جارہا ہے اور اس کے خلاف آئین و قانون سے نابلد لوگوں کوسڑکوں پراتانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔اس قسم کے زیادہ تر واقعات میں حکمراں جماعت اور اس کی نظریاتی تنظیموں سے وابستہ لوگ سب سے آگے ہیں۔بی جے پی ،آر ایس ایس ،وشوہندو پریشد،شیوسینا اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کے بڑے لیڈران سمیت مرکزی و ریاستی وزراءتک عدالت کے فیصلے پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور دبی زبان میں دھمکی دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے بیانوں سے حوصلہ پاکر ناسمجھ لوگ ملک کے عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف بولتے ہوئے آئین کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔نوبت بہ ایں جارسید کہ ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی یہ کہہ کر مخالفت کی جا رہی ہے کہ عدالتیں ایسے فیصلے نہ سنائیں جن پر عمل کرنالوگوں کے لئے مشکل ہو۔اس طرح کی دلیلوں سے دراصل سیکولر جوڈیسری سسٹم کو کمزورکرنے کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ ملک میں ان کی بالادستی قائم ہو جائے اور لوگ ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں۔

اس معاملے میں بی جے پی اور آرایس ایس کے بڑے لیڈران کی ہمت کی داد دی جا سکتی ہے۔آنے والے لوک سبھا انتخابات اور کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کو لبھانے کیلئے ایسے قابل گرفت بیانات دے رہے ہیںتاکہ ان انتخابات میں اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔گزشتہ اکتوبر کے مہینے میں کیرالہ کے تاریخی سبریمالا مندر میں عورتوں کے داخلے کی سپریم کورٹ کے ذریعہ اجازت دیے جانے کے فیصلےخلاف پہلے وہاں کے لوگوں کو اکسایا گیا اس کے بعد دبے لفظوں میں بی جے پی کے رہنما ایک کے بعد ایک بیان دینے لگے۔حد تو تب ہو گئی جب بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نےسپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی سوال کھڑا کیا۔ کنور میں بی جےپی کے  پارٹی دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیاکہ حکومت اور عدالت کو ایسے فیصلے نہیں سنانے چاہئیں جن پر عمل نہ کروایا جا سکے اور جو آستھاسے جڑےہوں۔اس کے بعد نصیحت دیتے ہوئے بی جے پی کے صدر امت شاہ نے کہا کہ حکومت اور کورٹ کو ایسے حکم دینے چاہئے جن پر عمل ہو سکے، انہیںایسےحکم نہیں دینے چاہئے جو لوگوں کے آستھاکا احترام نہ کر سکیں،تاہم جب امت شاہ کے بیان کے چوطرفہ مذمت ہونے لگی تو بی جے پی نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کا کہا کہ امت شاہ بیان عدالت سے ٹکراؤ نہیں ہے ۔

اس کے بعد سے یہ سلسلہ دارا ز ہوتا گیااور جب ۲۹ ؍اکتوبر۲۰۱۸ء کو  بابری مسجد۔ رام جنم بھومی معاملہ میں سپریم کورٹ نے سماعت جنوری تک کے لئے ملتوی کر دیا تو جیسے بھگوا طاقتوں میں بھونچال آگیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بی جے پی اور آرایس ایس کی پوری بٹالین برسرپیکار ہو گئی۔آرایس ایس کے مبلغ راکیش سنہا،یوگی آدتیہ ناتھ،اوما بھارتی،سادھوی پراچی،گری راج سنگھ اور بی جے پی کے متعدد اراکین پارلیمان ایسے بیانات دے رہے ہیں جو سراسر توہین عدالت کے زمرے میں آتاہے۔مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے حد سے تجاوز کرتے ہوئےیہاں تک کہہ دیاکہ رام مندر ضرور بنے گا، اب ہندوؤں کے صبر کا باندھ ٹوٹ رہا ہے۔یہ اور بات ہے کہ گری راج سنگھ کے بیان کا بہارکے سابق نائب وزیراعلیٰ اورآرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے سخت جواب دیا۔انہوں نے ٹویٹ کرکے کہاکہ’کاہے بڑبڑارہے ہیں فالتوکا؟ کسی کا صبر نہیں ٹوٹا ہے۔ ٹھیکیدار مت بنئے، ہم سے بڑے ہندونہیں ہیں آپ؟ آپ کو الیکشن کا ڈر ہے۔ یہ مگرمچھی رونا رونے سے فرصت ملے تو نوجوان کی نوکری، ترقی اورعوامی خدمات کی بات کریے۔ اپنے دوست پلٹورام کی طرح بے مطلب بہاریوں کو بدنام مت کریے‘‘۔

ملک کے کئی بڑے ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کےلئے بی جےپی او رآرایس ایس نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ایسا لگتا ہےکہ ایودھیا کے علاوہ  ملک میںکوئی دوسرا مسئلہ سرخیوں میں نہیں ہے۔حالانکہ مودی حکومت اس وقت رافیل سودے میں بدعنوانی پر چوطرفہ گھری ہوئی ہے ،معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا ہے۔اسی طرح سی بی آئی میں رشوت ستانی  کا معاملہ پوری طرح گرم ہےان کے علاوہ آربی آئی کی خودمختاری پر بھی حکومت گھری ہو ئی ہے۔ان سب ایشوز سے ملک کے عوام و میڈیا کی توجہ بھٹکانے کیلئے بھگوا برگیڈ نے سپریم کورٹ کےاہم فیصلہ کے باوجود ایک  ایسا زہریلاماحول بنا دیا ہے جو آنے والے چند ایام میں مزید پرخطر ثابت ہو سکتے ہیں۔۶؍دسمبر کو تاریخی بابری مسجد کے شہادت کے موقع پر جس طرح سے ایک کے بعد ایک بیان بازی ہو رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہےکہ ان کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ ایک طرف جہاں وی ایچ پی کی رہنما سادھوی پراچی نے 6 دسمبر کو رام مندر کے سنگ بنیاد  کا اعلان کیا وہیں دوسری طرف رام جنم بھومی نیاس کے سینئر رکن ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر دسمبر میں شروع ہو جائے گی اور لکھنؤ میں ایک مسجد بنے گی،میں زبان دیتا ہوں کہ اب اس مسئلہ کو کوئی لٹکا نہیں پائے گا۔

یوگ گرورام دیو نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ  دھوتے ہوئے بڑا بیان دے دیا۔بابا نے کہا ہے کہ اگر عدالت کے فیصلے میں دیر ہوئی تو پارلیمنٹ میں ضروربل آئے گا اور آنا ہی چاہئے۔  رام جنم بھومی پر رام مندر نہیں بنے گا تو کس کا بنے گا؟ ظاہر سی بات ہے عدالت کے فیصلے کے برعکس یہ ماحول یو ں ہی نہیں بنا ہے، بلکہ ایک منظم طریقے سے ۶؍دسمبر سے قبل ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ آنے والے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں اس کا  بھر پور فائدہ حاصل کیا جا سکے۔  

(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔)

mssaqibqasmi@yahoo.co.in