ترکی میں افراط زر کی شرح گزشتہ پندرہ برسوں میں سب سے زیادہ

ترکی میں اکتوبر کے مہینے میں افراط زر کی شرح پچیس فیصد سے بھی زائد رہی، جو گزشتہ پندرہ برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ ماہرین کے مطابق افراط زر کے خلاف حکومتی اقدامات محض علامتی تھے اور اگلے برس بھی یہ شرح بہت زیادہ رہے گی۔
انقرہ(ایم این این )
ترکی میں غیر معمولی افراط زر کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ 1990ءکی دہائی میں تو یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تب اس صورت حال کو ’افراط زر کے عفریت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن 2001کے اقتصادی بحران کے بعد انقرہ حکومت کی طرف سے کیے گئے سخت بچتی اقدامات اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے امداد کے باعث ملکی معیشت میں جو استحکام آیا تھا، اس نے موجودہ صدر رجب طیب ایردوآن کی مذہبی رجحانات رکھنے والی قدامت پسند حکمران جماعت اے کے پی کی وجہ سے آنے والے سیاسی استحکام کے ساتھ مل کر افراط زر کو بہت کم کر دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔
لیکن آج جب اے کے پی کو اقتدار میں آئے ہوئے 16 برس ہو گئے ہیں، ترکی کو ایک بار پھر اسی پرانے مسئلے کا سامنا ہے: ملکی معیشت کی حالت غیر مستحکم اور افراط زر کی شرح بہت زیادہ۔
ترک دفتر شماریات کے مطابق اس سال اکتوبر میں ملک میں افراط زر کی شرح 25.24 فیصد رہی، جو گزشتہ 15 برسوں کے دوران ترک معیشت میں سرمائے کی فراوانی کی سب سے اونچی شرح بنتی ہے۔ اس دوران ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں سب سے نمایاں اضافہ ملبوسات اور روزمرہ استعمال کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں دیکھا گیا، جو قریب 13 فیصد رہا۔
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
افراط زر کی اس بہت اونچی شرح نے گھروں کی قیمتوں اور مکانات کے کرایوں سے لے کر اشیائے خوراک کی قیمتوں تک ہر شے کو متاثر کیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے افراط زر سے متعلق دنیا کے 180 ممالک کی جو فہرست جاری کی، اس میں ترکی سب سے زیادہ افراط زر والے پہلے دس ممالک میں سے ایک تھا۔
افراط زر کی اس غیر معمولی حد تک زیادہ شرح کے بارے میں ترک وزیر خزانہ اور صدر ایردوآن کے داماد بیرات البیراک کا کہنا ہے کہ یہ شرح نومبر اور دسمبر میں دوبارہ کم ہو جائے گی۔ لیکن اقتصادی ماہرین کے مطابق اس شرح میں کمی کی توقعات غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور ایسی بہت اونچی شرح دراصل اگلے برس 2019ئ میں بھی دیکھنے میں آئے گی۔
ماہرین کے مطابق اس کا سبب یہ بھی ہے کہ ترک حکومت کے بہت زیادہ افراط زر کے خلاف اب تک کے جملہ اقدامات زیادہ تر علامتی ہی ثابت ہوئے ہیں اور انقرہ حکومت تو اب تک ترک کرنسی لیرا کی قدر میں بے تحاشا کمی کے باعث پیدا ہونے والے بحران پر بھی قابو نہیں پا سکی

SHARE