ذرائع ابلاغ اور اسلام

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : 

وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ اﷲُ یَعْلَمُہُمْ ، وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (الانفال : ۶۰) اور جہاں تک ممکن ہو دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو ، جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ دوسرے دشمنوں کو خائف کرسکو ، جنھیں تم نہیں جانتے ؛ مگر اللہ انھیں جانتا ہے اور اللہ کے راستہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کروگے ، تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کی طرف سے چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور اس بات کو ناپسند کیا ہے ، کہ وہ غفلت اور بے خبری کی زندگی بسر کریں ۔ پھر قرآن نے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے ، کہ دشمن کے مقابلہ اپنی بھرپور طاقت کو مجتمع رکھنا چاہیے ، اس میں ایسی تعبیر اختیار نہیں کی گئی ، جس سے صراحتاً عسکری و فوجی قوت ہی مراد ہو ، قوت میں عسکری اورغیرعسکری ، مادی اور معنوی ہر طرح کی قوت شامل ہے ؛ البتہ آگے جنگی گھوڑوں سے خاص فوجی طاقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ اسلامی حکومتیں اس کی مخاطب ہیں ، جو دشمنوں سے برسرپیکار ہوں ، اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی بیان فرمایا ، کہ اس طاقت کا مقصود دوسروں کی جان و مال کوخطرہ میں ڈالنا اور دنیا کے امن و آشتی پر غارت گری کرنا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کا مقصد دشمن کی حریصانہ نظر کو خوف زدہ کرنا اور ان کے جارحانہ حوصلہ کو توڑنا ہے ، اسی کو قرآن نے ’ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ‘کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ، یعنی ایسی طاقت جو دشمن کو مرعوب کرنے والی ہو ۔ 

آگے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے ، جس میں اس بات کا اشارہ موجود ہے ، کہ طاقت کی تیاری (اعدادِ قوت) میں سرمایہ اور مالی تعاون کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے ؛ چنانچہ اس مقصد کے لئے جو کچھ خرچ کیا جائے ، وہ اللہ کے راستہ ہی میں خرچ کرنا ہے ، قرآن اللہ کا کلام ہے اور قیامت تک انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے ، اسی لئے قرآن میں ایسی تعبیرات اختیار کی جاتی ہیں ، جو ہر دَور کا ساتھ دے سکیں اور ہر زمانہ کے وسائل پر ان کی تطبیق آسان ہو ۔ 

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں قوت مہیا رکھنے کی بات بہت ہی معنی خیز اور قابل توجہ ہے ، ہر دَور میں طاقت کا ایک ہی سبب نہیں ہوتا ؛ بلکہ مختلف ادوار میں آلاتِ قوت اور اسبابِ طاقت جداگانہ ہوتے ہیں ، ہمارے اس دور میں ایک بہت بڑی طاقت ذرائع ابلاغ ہیں ، ذرائع ابلاغ کسی گروہ کو بامِ اقتدار پر پہنچاتا بھی ہے اور تختۂ دار پر لٹکاتا بھی ہے ، وہ چاہے تو بے قصوروں کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کردے اور چاہے تو مجرموں کو معصوم و بے گناہ بنادے ، سماج کا دل و دماغ ذرائع ابلاغ کی مٹھیوں میں ہے ، اس لئے میڈیا اس دَور کی بہت بڑی طاقت ہے ، اور یقینا ’’اَعِدِّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ میں شامل ہے ۔ 

رسول اللہ ا جب نبی بنائے گئے ، تو آپ انے اس کے اعلان اور ایمان کی دعوتِ عام کے لئے خاص طور پر صفا کی چوٹی کا انتخاب فرمایا ، یہ محض کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ؛ بلکہ اہل مکہ کا طریقہ تھا ، کہ جب بھی کسی اہم بات کی خبر دینی ہوتی ، صفا کی چوٹیوں پر چڑھ کر آواز لگاتے ، یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ، کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے ، جس سے لوگوں کو باخبر کرنا مقصود ہے ، اس لئے تمام اہل مکہ اہتمام کے ساتھ جمع ہوجاتے اور گوش برآواز ہوکر اس اعلان کو سنتے ، گویا یہ اس زمانہ میں مکہ کا سب سے بڑا ذرائع ابلاغ تھا ، جس طرح آج پورے شہر تک کسی خبر کو پہنچانے کے لئے اخبارات کا سہارا لیا جاتا ہے اور اس میں اشتہارات شائع کرائے جاتے ہیں ، اسی طرح اس دور میں صفا کی پہاڑی سے اعلان کئے جاتے تھے ۔ 

سیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ احج کے موقع پر بھی دعوتِ اسلام کا کام کیا کرتے تھے ؛ حالاںکہ اس زمانہ میں حج میں بہت سی منکرات اور برائیاں اہل مکہ نے اپنی طرف سے شامل کرلی تھیں ، یہاں تک کہ بعض لوگ احترام کے نام پر کعبہ کی بے احترامی کرتے تھے اور مرد دن میں اور عورتیں رات میں بے لباس طواف کیا کرتے تھے ، منیٰ اور عرفات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کے بجائے لوگ اپنے آباء و اجداد کی تعریف کے نغمے گاتے اور اشعار پڑھتے تھے ، عکاظ کا میلہ تو خالص تجارتی میلہ تھا ، اس میں وہ تمام رنگ رلیاں ہوا کرتی تھیں اور شراب و کباب کی محفلیں آراستہ کی جاتی تھیں جو عیش کوشیوں اور سرمستیوں بلکہ بدمستیوں کے لوازم میں سے ہیں ؛ لیکن اس میلہ میں بھی آپ ا پہنچتے اور لوگوں تک حق کی دعوت پہنچاتے ، اہل مدینہ حج کے اجتماعات کے ہی برکت سے اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اورپھر ایسے جاں نثار ہوئے کہ تاریخ عالم میں ایسی جاں نثاری اور خودسپردگی کی مثال نہیں ملتی ۔ 

ان اجتماعات میں جانا اور وہاں دعوتِ حق پہنچانا اس زمانہ کے طاقتورترین اور وسیع الاثر ذرائع ابلاغ سے استفادہ کی بہترین مثال ہے ، اس لئے اپنے عہد کے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا اور ان تک رسائی حاصل کرنا صرف مصلحت کا تقاضا نہیں ؛ بلکہ اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ ا کے اسوۂ حسنہ کی پیروی ہے ، افسوس کہ جہاں اور بہت سے پہلوؤں سے ہم نے غفلت کی راہ اختیار کی ہے ، وہیں ذرائع ابلاغ کی طرف سے ہماری بے توجہی بھی ایک قومی گناہ سے کم نہیں ۔ 

یہودیوں کے کم تعداد میں ہونے کے باوجود معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر ان کے غلبہ کا اصل راز یہی میڈیا کی طاقت ہے ، جس نے ان کی پروپگنڈہ کی صلاحیت کو بے پناہ کردیا ہے ، دس سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق پوری ریاستہائے متحدہ امریکہ سے مجموعی طورپر یہودیوں کے ایک ہزار سات سو انسٹھ روزنامے شائع ہوتے ہیں ، ماہنامے ، پندرہ روزے ، سہ ماہی ، شش ماہی اور سالانہ جرائد اس کے علاوہ ہیں ، (مغربی میڈیا اور اس کے اثرات : ۱۲۸) یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہودی اخبارات و رسائل صرف امریکہ اور یورپ میں چھپتے ہیں ؛ بلکہ دنیا کے اکثر ممالک ان کی آماجگاہ ہیں ، خود عالم اسلام میں ترکی سے یہودیوں کے آٹھ ہفت روزے اور دو ماہنامے ، مراکش سے دو ہفت روزے ، دو ماہنامے اور چار سالنامے اور ایران سے ایک ہفت روزہ شائع ہوا کرتا ہے ، سنگا پور اور فلپائن جیسے چھوٹے سے ملک میں بھی ان کے جرائد و رسائل کی تعداد بالترتیب دس اور نو ہیں ۔ 

امریکہ میں ٹیلی ویژن کی پانچ کمپنیاں ہیں ، ان میں سے چار یہودیوں کی ہیں ، اے بی سی ، سی بی ایس ، این بی سی ، ان کمپنیوں کے ذریعہ صرف امریکہ میں سات سو سے گیارہ سو تک ٹیلی چینل کام کرتے ہیں اور اپنے پروگرام پوری دنیا میں سیاروں کے ذریعہ نشر کرتے ہیں ، (دیکھئے : مغربی میڈیا اور اس کے اثرات : ۱۲۰) یہودیوں کے زیر ِ اثر شائع ہونے والے اخبارات اپنی تعدادِ اشاعت کے اعتبار سے صف ِاول کے اخبارات و رسائل ہیں ، مثلاً نیویارک ٹائمس کی اشاعت بارہ لاکھ سے زیادہ ہے ، مشہور سائنسی رسالہ ریڈرس ڈائجسٹ کی تعداد و اشاعت پونے دو کروڑ کے قریب ہے ، امریکہ میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب محض ۹ء۲ فیصد ہے ؛ لیکن ان کی ذرائع ابلاغ کی طاقت کا یہ حال ہے کہ امریکہ میں کل ۶۵ ملین روزنامے قارئین تک پہنچتے ہیں ، ان میں سے ۶۲ ملین اخبارات کے مالکین بھی یہودی ہیں ، پھر اخبارات میں نوے فیصد کارکن یہودی ہیں اور ان کو پوری دنیا میں تقسیم کرنے کی سترہ سو پینتالیس ایجنسیاں اور اشاعتی ادارے ہیں ، یہ سب یہودیوں کے قبضہ میں ہیں ۔ (مغربی ذرائع ابلاغ : ۱۲۹) 

یہودیوں نے ذرائع ابلاغ پر غلبہ حاصل کرکے نہ صرف اپنی تجارت اور معیشت کو فروغ دیا ؛ بلکہ اسے عیسائیت کی تباہی کا وسیلہ بھی بنایا ، اس مقصد کے لئے یہودی ذرائع ابلاغ نے عریانیت اور آزاد جنسی تعلقات کی دعوت کو اپنا خاص موضوع بنالیا ، مکالموں ، نغموں اورتصویروں کے ذریعہ آبرو باختگی اور بے عفتی کو عیسائی معاشرہ میں اس درجہ رواج دیا کہ امریکہ و یورپ کا عیسائی سماج شراب و شباب کی بدمستیوں میں پوری طرح غرق ہوچکا ہے اوراس طرح اس غفلت کوش ، اپنے انجام سے بے خبر اور قوتِ عمل سے محروم معاشرہ پر یہودیوں نے مکمل معاشی غلبہ حاصل کرلیا ہے اور ان کو اپنا کھلونا بنا رکھاہے ۔ 

عیسائی دنیا کو تباہ کرنے کے بعد اب ان کا نشانہ عالم اسلام ، عالم عرب اور مشرقی ممالک ہیں ، مسلمانوں اور عربوں پر یہودی ذرائع ابلاغ کی دوہری یلغار ہے ، ایک طرف فلموں ، ڈراموں اور مکالموں کے ذریعہ تصور پیدا کیا گیا ہے ، کہ مسلمان عموماً اور عرب خصوصاً جاہل ، شدت پسند ، مجرم خو ، قتل و خونریزی کے عادی ، بے وقوف و کند ذہن ، غریب و قلاش اورعیش پرست ہوا کرتے ہیں اور عرب ، عورتوں کے دیوانے اور شہوت میں ایسے اندھے ہوتے ہیں کہ انھیں اگر اس طرح کی کوئی رشوت دی جائے تو وہ فوراً رام ہوجاتا ہے ، اسلامی شعائر کی بے حرمتی کے لئے بھی اشاعتی ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے ، عریاں تصویروں کو قرآنی آیات کے ہالہ میں شائع کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں ، مغربی میڈیا کا عربوں کے ساتھ کس قدر تمسخر آمیز اور توہین انگیز رویہ ہوتا ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ C.N.N جیسی مشہور عالمی ٹی ، وی کمپنی ایک صابن کا اشتہار اس طرح دیتی ہے : ’’یہ صابن ہر چیز صاف کرسکتا ہے ، حتیٰ کہ گندے عربوں کو بھی‘‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی اوریہودی میڈیا اسلام سے ، مسلمانوں سے اور عربوں سے کیسی نفرت کا صور پھونکتا ہے اور دنیا کے سامنے ان کی کیسی تصویر بناتا ہے ۔ 

دوسری طرف ٹی ، وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عالم عرب میں بے حیائی وفحاشی کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ، عالم عرب میں اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیت کے اعتبار سے مصر کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے ، اس لئے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسی خطہ کو مغرب نے اپنا ہدف بنایا ہے ، مصری ٹی ، وی کے نوچینلوں سے روزانہ ۱۶۶ گھنٹے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں ، ان میں دینی پروگراموں کا تناسب محض ساڑھے تین فیصد ہے ، (مغربی میڈیا : ۲۰۳) مصر میں فلمیں اور ناولیں ایسے ناموں سے منظر ِ عام پر آرہی ہیں کہ ان ناموں ہی سے شرم و حیا اور عفت و پاکبازی کا خون ہوتا ہے ، اکثر عرب ممالک میں امریکی اورمغربی فلمیں (جو زیادہ تر یہودیوں کا نتیجۂ فکر ہوتی ہیں ) دیکھی جاتی ہیں ، یا ان کے عربی ترجمے ناظرین و قارئین تک پہنچتے ہیں ، عالم عرب پر ان کا نہایت ہی منفی اثر مرتب ہورہا ہے ، ہندوستان پر حالیہ برسوں میں مغربی تہذیب و ثقافت جس قوت کے ساتھ حملہ آوری ہوئی ہے اور جس تیزی سے مغربی فیشن ہندوستان کے مشرقی سماج کو اپنی گرفت میں لیتا جارہا ہے ، وہ ایک کھلی حقیقت ہے اور شاید ہی کوئی حساس دل ہو جو اس کی کسک کو محسوس نہ کرتا ہو ۔ 

اس لئے ضرورت اس بات کی ہے ، کہ مسلمان ذرائع ابلاغ کی طرف توجہ دیں اورمیڈیا تک رسائی حاصل کریں ، ہندوستانی میڈیا پر سنگھ پریوار کے غلبہ کی وجہ سے مسلمانوں کو گذشتہ نصف صدی میں جو نقصان اُٹھانا پڑا ہے وہ ناقابل تلافی اور ناقابل بیان ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ میں مسلمان اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں ، اس کے لئے منصوبہ بند طریقہ پر چند کام کرنے ہوں گے : اول ملک کے مختلف علاقوں سے ذہین و باصلاحیت مسلمان طلباء کو جرنلزم کا کورس کرانا اور انھیں انگریزی اور مقامی زبانوں کے اخبارات وغیرہ میں داخل کرنا ، دوسرے جو لوگ صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہیں ، یا جو دوسرے ذرائع ابلاغ میں مصروفِ کار ہیں ، وقتاً فوقتاً مختلف عنوانات سے انھیں دعوت دینا اور مسلمانوں کے مسائل اوراسلام کے بارے میں ان کو صحیح معلومات فراہم کرنا اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنا ، تیسرے اپنے مسائل آپ پیش کرنے کے لئے ایسے چینل قائم کرنا جس کی پالیسی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ، اس کا خوشگوار تجربہ قطر کا الجزیرہ چینل ہے ، جو غلط فہمیوں کو دور کرنے اور حقائق کو پیش کرنے میں بہتر کردار ادا کر رہا ہے اور خود مغربی ممالک تک بھی حقائق کو پہنچانے میں اس نے کسی قدر کامیابی حاصل کی ہے ، ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو ایسی تدبیر اختیار کرنی ہوگی ، تاکہ برادرانِ وطن کے قلوب میں شکوک و شبہات کے جو کانٹے چبھوئے جارہے ہیں وہ انھیں نکالنے میں کامیاب ہوسکیں ۔ 

ہندوستان میں مسلمانوں کا انگریزی اخبار ایک خواب ہے ، نہ معلوم کہ تعبیر اس کی قسمت میں ہے یا نہیں ؟ یہ بات نسبتاً آسان ہے کہ مختلف علاقوں کی مقامی زبان میں مسلمان اپنا اخبار نکالیں ، جیسا کہ اس وقت ملیالم اور گجراتی زبان میں مسلمانوں نے اپنا اخبار نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے ، گجرات کے حالیہ فساد میں ظلم و جور کا جو رقص ہوا ہے ، اس میں بعض شرپسند گجراتی اخبارات کا بنیادی کردار ہے ، جنھوں نے واقعات کو توڑمروڑ کر غلط طریقہ پر پیش کیا اور ہندو عورتوں کی عصمت ریزی کی غلط اطلاع نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے ، ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمان مقامی زبانوں خاص کر ہندی میں اپنا اخبار نکالیں ، کم سے کم ہندی ، تمل ، مراٹھی ، اُڑیا اور بنگالی زبانیں ایسی ہیں کہ صرف مسلمان قارئین کے ذریعہ اخبار کو زندہ رکھا جاسکتا ہے ۔ 

غرض ذرائع ابلاغ عصر نو کا طاقتور ہتھیار ہے اور اس میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا اوراس رسوخ کو دینی اور قومی مفادات کے لئے استعمال کرنا وقت کا بہت بڑا جہاد ! 

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں