شہید اعظم سلطان فتح علی ٹیپو

حسین احمد ہمدم

تاریخ کے مستند حوالوں کی روشن فضاؤں میں جنگ آزادی کے شہید اعظم سلطان فتح علی ٹیپوابن سلطان حیدر علی بروز سنیچر 20 ذی الحجہ 1163ھ مطابق 10 نومبر 1750ء میں بوقت صبح بنگلور سے 33 کیلو میٹر دور “دیون ہلی”  نامی قصبہ میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان عربی قریشی النسل تھا اور تحریک بالاکوٹ کے قائد سید احمد شہید رح کے حقیقی نانا شاہ ابو سعید اور ان کےفرزند شاہ ابو اللیث سے روحانی و اصلاحی تعلق رکھتا تھا۔

سلطان ٹیپو والد کے انتقال کے بعد بروز سنیچر 20 محرم 1196ھ مطابق 27 دسمبر 1782 عیسوی میں تخت شاہی پر بیٹھے کل سولہ سال چند ماہ کی دور حکومت میں انگریزوں سے جنگ چلتی رہی بلکہ انہوں نے تخت و تاج کی ذمہ داری حالت جنگ میں ہی سنبھالا اور انگریزوں سے جنگ کرتے کرتے ہی ملک و ملت پر نثار ہو گئے ۔۔۔

انگریزوں سے چار بڑی جنگیں انہوں نے بنفس نفیس لڑی پہلی جنگ میں ان کی عمر محض 17 سال تھی۔ ایسے ایمر جنسی حالات میں بھی انہوں نے جو ترقیاتی کام کئے وہ حیرت زدہ کر دینے والے ہیں انہوں نے بے شمار کارخانے لگوائے، یونیورسٹی قائم کی، زمینوں کو زرخیز بنوایا، مردم شماری کروائی، بےروزگاروں کو روزگار کیلئے سرمایہ دیئے، باہر سے ماہر کاریگروں کو منگواکر اہل میسور  کو باہنر بنایا، ملکی نظم و نسق کے تمام شعبوں کو وزارت کی پارلیمان قائم کرکے منظم فعال اور جواب دہ بنایا، کاغذ کا کارخانہ قائم کیا، سب سے پہلا اردو اخبار ہفت روز “فوجی اخبار” کے نام سے شائع کیا، اس ملک میں سب سے پہلے بحری طاقت کی اہمیت کو سمجھا اور پورا بحری بیڑا تیار کیا، ہر ہر محلہ اور آبادی کی تعلیم کا بند و بست کیا، مندروں مسجدوں و دیگر عبادت خانوں کے نام جاگیریں و عطیات جاری کئے، نیز ان کی تعمیر و ترقی کیلئے امداد سے نوازا، سب سے پہلے راکٹ ایجاد کیا ( جس کو برٹش میوزیم میں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام نے جب دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئے اور اپنی کتاب “دی ونکس آف فائر ” میں اس کا تذکرہ کیا) 

سلطان ٹیپو بہت ساری خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے بے انتہا ذہین اور ماہر لسانیات تھے انہیں عربی، فارسی، کنڑ، تیلگو، مراٹھی، اور اردو، پر مہارت حاصل تھی انگریزی بول لیتے تھے اور فرنچ پر بھی ایک حد تک واقفیت تھی وہ تخلیق اور اختراعی ذہن کے مالک تھےجس کی چند مثالیں یہ ہے کہ انہوں نے جدید تقویم جاری کیا، سرکاری محکموں کے نام اسمائے حسنی پر رکھے، خط ببری اور خط محمد ایجاد کیا، سکّوں اور ہتھیاروں کے نوع بنوع اقسام ایجاد کئے، پیمائش اور ناپ تول کے نئے نئے پیمانوں کا ایجاد کیا۔

سلطان ٹیپو درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے حکیم و طبیب ماہر خطاط نپولین بونا پارٹ سے بڑھ کر شجاع و بہادر ہونے کے علاوہ صاحب تصنیف عالم دین ماہر علوم عصریہ اور صوفی و مصلح اہل دل بھی تھے آج ان کے کمالات و اوصاف کا تذکرہ سننے والی شاید ان باتوں کو کسی حد تک مبالغہ و خوش گمانی سمجھیں لیکن تاریخی حقیقت یہ ہیکہ سلطان فتح علی ٹیپو اس سے کہیں زیادہ تھے جو کچھ اب تک ان کے متعلق کہا گیا ہے اور ایسے باکمال لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ سلطان ٹیپو اتحاد بین المسلمین کیلئے جان و مال قربان کرنے والے محب اسلام اور مادر وطن کی ایک انچ زمین کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان نچھاور کردینے والے محب وطن تھے، ان کی حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار بنگلور کے تاجروں نے انگریزوں کی حمایت یافتہ ایک کمپنی کا نمک منگوایا تو ٹیپو نے خبر ملتے ہی اسی وقت ان تاجروں کو نمک واپس کرنے پر مجبور کر دیا زندگی میں انہوں نے کبھی غیر ملکی کپڑے استعمال نہیں کئے، گویا سودیشی تحریک کے بانی بھی ایک طرح سے سلطان ٹیپو ہی تھے۔۔

1798ء میں انگلینڈ کے وزیر اعظم “پٹ” نے لارڈ ویلزلی کو گورنر جنرل بناکر خصوصی طور پر ٹیپو سلطان کو اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے تمام عیارانہ کوششوں کو بروئے کار لانے کے واسطے بھیجا کیونکہ ہندوستان سے لندن تک تمام عیار انگریزوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے میں صرف ٹیپو سلطان ہی سد سکندری بن سکتے ہیں ان کی فوجی طاقت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اکیلے سر زمین ہند سے انگریزوں کا صفایا کر سکتے ہیں ایک طرف انگریز اپنے راستہ سے ٹیپو کو ہٹانے کیلئے کمر بستہ تھا اور اپنی عسکری تیاریاں مکمل کر چکا تھا تو دوسری طرف سلطان کے نمک خوار میر صادق، میر معین، پورنیا اور خادم خاص راجہ خاں  جیسے ضمیر فروش انگریزوں کے ہاتھ ملت فروشی کا سودا مکمل کر چکے تھے 1799 میں سلطان اور انگریزوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ چھڑی اور غداروں نے ہر چہار جانب سے انگریزوں کو میسور پر چڑھائی کی ترکیب بتادی یہی نہیں بلکہ قلعہ میں گھسنے کا منصوبہ بھی بتایا اور توپوں میں بارود کی جگہ مٹی بھروادیا  اور جب سلطان انگریزوں میں گھر گئے تو ساتھ چھوڑ کر یہ نمک حرام الگ ہو گئے ۔ اس حال میں انگریزوں کی طرف سے متعین غدار خادم راجہ خان نے کہا ” حضور اب بھی اپنی جان کی حفاظت کیلئے خود کو دشمنوں کے حوالے کردیں اور ان کی ماتحتی قبول کرلیں تو جان بھی بچ جائے گی اور ماتحت رہ کر حکومت بھی باقی رہ جائیگی” سلطان ٹیپو جلال میں آگیا اور یہ تاریخی جملہ کہا “شیر کے ایک دن کی زندگی گیدڑ کے ہزار سال کی زندگی سے بہتر ہے” بہر حال سلطان لڑتا رہا اور انگریزوں کے  بے شمار فوجی جہنم رسید ہوتے رہے لیکن گولیوں کے دو شدید زخموں سے اب ٹیپو سلطان پر نقاہت بڑھ رہی تھی اسی درمیان پیاس سے بے قرار ہوکر سلطان بار بار راجہ خان سے پانی طلب کرتا رہا لیکن اس شقی القلب اور ضمیر فروش نے ایک قطرہ پانی بھی سلطان کو نہیں دیا، 

اس طرح پیاس کی شدت کے ساتھ شہادت پاکر نواسۂ رسول سیدنا حضرت حسین حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کا دلیر سپوت 28 ذی قعدہ 1213ہجری مطابق 4 مئی 1799ء کو ملک و ملت پر قربان ہو گیا ؎

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن 

خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں