حیات نبوی ﷺ کا ایک اہم واقعہ حلف الفضول اور موجودہ حالات

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

رسول اللہ ﷺ کی ذات والا صفات کو پوری انسانیت کے لئے عموماً اور امت محمدیہ کے لئے خصوصاً اسوہ ونمونہ بنایا گیا ہے: { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} (الاحزاب: ۲۱) اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان پر جس طرح کے بھی حالات پیش آئیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کو نقش راہ اور نمونۂ عمر مل جائے گا، وہ غالب ہو یا مغلوب، فتح یاب ہو یا شکست سے دو چار، مالدار ہو یا غریب، دوستوں کے درمیان ہو یا دشمنوں کے درمیان، اپنوں سے سابقہ ہو یا بیگانوں سے، ہر جگہ اور ہر حال میں سیرت طیبہ اس کے لئے چراغِ راہ اور خضر طریق ہے، شاید اسی مقصد کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنے اس محبوب ومقبول بندے کو ہر طرح کی آزمائشوں سے گزارا ہے، اور وہ تمام مصیبتیں جو اس امت پر آسکتی ہیں، ان سب سے آپ کو بھی دو چار کیا گیا ہے؛ تاکہ جب ایسے حالات پیش آئیں تو مسلمان نورِ نبوت کی رہنمائی سے محروم نہ رہ جائیں اور انہیں کسی اور چراغ سے روشنی مستعار نہ لینی پڑے۔

اس وقت ہندوستان کے مسلمان جس صورت حال سے دو چار ہیں، اس میں سیرت کے ایک خاص واقعہ کو پڑھنے اوراس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ’’حلف الفضول‘‘ کا واقعہ، واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو نبی بنائے جانے سے پہلے ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ قبیلۂ بنو زبید کے ایک صاحب مکہ آئے اور انہوں نے عاص بن وائل سہمی سے اپنا تجارتی مال فروخت کیا، عاص نے قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول شروع کردیا اور ظلم و انکار پر اتر آیا؛ چنانچہ اس مسافر نے ٹھیک اس وقت جب قریش صحن کعبہ میں بیٹھا کرتے تھے، بوقیس کی پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں کو آواز دی کہ ایک مظلوم شخص کی پونجی لے لی گئی ہے، ایک ایسے شخص کی جو اپنے وطن اور بال بچوں سے دور ہے اور حرم محترم کی وادی میں مقیم ہے، اس طرح کے ظلم و زیادتی کے واقعات مکہ میں پیش آتے رہتے تھے؛ لیکن اس اجنبئ شہر نے کچھ ایسے درد کے ساتھ اپنی فریاد پیش کی کہ قریش کے رحم دل لوگ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہے اور قریشِ مکہ کے چند اہم خاندان — بنو ہاشم، بنو مطلب، اسد بن عبد العزیٰ، زہرہ بن کلاب اور تمیم ابن مرہ — کی اہم شخصیتیں عبد اللہ بن جدعان کے مکان میں جمع ہوئیں، اور آپس میں معاہدہ کیا کہ مکہ میں کوئی بھی مظلوم ہو، خواہ مکہ کا رہنے والا ہو یا مکہ کے باہر سے آیا ہو، ہم سب مل کر اس کی مدد کریں گے اور ظالم کو حق دینے پر مجبور کریںگے، اس معاہدہ کا نام ’’حلف الفضول‘‘ رکھا گیا، یہ نام کیوں رکھا گیا، اس سلسلہ میں بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ’’فضل‘‘ کے معنی زیادتی اور اضافہ کے ہیں اور اس معاہدہ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اگر کسی شخص پر دوسرے کے ذمہ زائد حق باقی ہو تو وہ اس کو دلایا جائے گا۔ (المعتصر من المختصر لابن یوسف موسیٰ حنفی: ۲؍۳۷۵) اور بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ اتفاق سے اس معاہدہ میں شریک ہونے والوں میں ’’فضل، فضالہ اور مفضل‘‘ تھے، یعنی ان تینوں کے نام کا جز ’’فضل‘‘ تھا؛ اس لئے اس کو ’’حلف الفضول‘‘ یعنی ’’فضل والوں کے معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ (فتح الباری: ۴؍۴۷۳)

اس معاہدہ کی اس لئے غیر معمولی اہمیت تھی کہ جزیرۃ العرب میں کوئی حکومت قائم نہیں تھی، لا اینڈ آرڈر کے لئے کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا، عرب کے مختلف قبائل کے درمیان بڑا تعصب اور تعصب کی وجہ سے اپنے خاندان کا تحفظ پایا جاتا تھا؛ لیکن اگر کوئی کمزور خاندان ہو یا اجنبی لوگ ہوں تو ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا تھا، ان حالات میں یہ معاہدہ لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے اور کمزوروں کو طاقتوروں کے ظلم سے بچانے کی ایک منظم کوشش تھی، اس کی اہمیت اس لئے بھی تھی کہ اس معاہدہ میں قریش کے تمام قبائل شامل تھے، اگر چند اشخاص یا کوئی کم تعداد اور کمزور قبیلہ اس کام کو لے کر اٹھتا تو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا؛ لیکن اتنے سارے کثیر التعداد اور مکہ کے طاقتور خاندانوں کو نظر انداز کردینا کوئی آسان بات نہ تھی؛ اس لئے اس معاہدہ کی بڑی اہمیت تھی اور اسی لئے یہ معاہدہ لا قانونیت کے ماحول میں امن و امان اور عدل و انصاف قائم رکھنے کی ایک مثبت اور مؤثر کوشش ثابت ہوا، رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس اس معاہدہ میں شریک تھے اور اسلام کے غلبہ کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر اب بھی مجھے اس کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا: ’’لو دُعیتُ بہ الیوم في الإسلام لأجبتہ‘‘ (فتح الباری: ۴؍ ۴۷۳) اور بعض روایتوں میں ہے کہ مجھے اس معاہدہ سے غائب رہنا پسند نہیں، اگرچہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹنیاں مل جائیں۔ (المعتصر من المختصر: ۲؍۳۷۵)

ہندوستان میں اس وقت مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور سیاسی اعتبار سے جس تنہائی کا شکار ہیں، ان کے لئے سیرت کا یہ واقعہ بہترین پیغام اور ان کی دشواریوں کا حل ہے، حلف الفضول کس ماحول میں قائم کی گئی تھی ؟ ایسے ماحول میں جب ظالموں کو ظلم سے روکنے والی قوت موجود نہیں تھی، جب مظلوموں کے لئے انصاف حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، جب برائیاں تھیں؛ لیکن برائیوں کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں تھی — حلف الفضول کا مقصد کیا تھا ؟ معاشرہ میں انصاف کا قائم کرنا، کمزوروں کو انصاف دلانا اور ظلم سے بچانا — حلف الفضول کا طریقۂ کار کیا تھا ؟ جمہور کی مدد سے ظالم کا پنجہ تھامنا، اجتماعی شیرازہ بندی کے ذریعہ قیام عدل کی کوشش کرنا، چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو جمع کرکے ایک بڑی طاقت اس لئے تیار کرنا کہ ظلم کو روکا جائے اور انصاف قائم کیا جائے۔

ہمارے ملک میں بھی اس وقت یہی صورت حال ہے، ظلم کا خونی پنجہ اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ علی الاعلان خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، لوگوں کی املاک لوٹی جاتی ہیں، عزت و آبرو پامال کی جاتی ہے، بستیاں اجاڑی جاتی ہیں اور لاشوں پر چڑھ کر اقتدار کے قلعہ پر قبضہ کرنے کی جد وجہد کی جاتی ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ لوگ اس صورت حال کو دیکھ کر بے قرار ہوجائیں، ہر زبان ایسے ظالم کو ٹوکے، ہر ہاتھ ایسے ظالم کو روکے اور ہر آنکھ ان پر غیظ و غضب کی آگ پھینکے، مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ ظالموں کی حمایت میں نعرے لگائے جارہے ہیں، ذرائع ابلاغ درندوں کو فرشتہ بناکر پیش کررہے ہیں اور انصاف کے قاتلوں کو ہیرو بنایا جارہا ہے، ان حالات میں مسلمانوں کے لئے کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ یہاں ایک نئی شیرازہ بندی کریں، خود آپس کے اختلاف کو نظر انداز کرکے کم سے کم ایک نکاتی سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں کہ وہ فرقہ پرست سیاسی طاقتوں سے ملک کو بچائیں گے اور ایسی حکمت عملی اختیار کریں گے کہ آنے والے الیکشن میں سیکولر امیدوار کامیاب ہوسکے، ملی اتحاد کی اس کوشش کے ساتھ ساتھ کم سے کم تین اور طبقات کو ہمیں جمع کرنا چاہئے: اولاً: دوسری اقلیتوں کو، خاص کر سکھ اور عیسائی اقلیت کو،جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سیاسی اعتبار سے فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہیں، دوسرے: دلتوں کو، جو ہزاروں سال سے مظلومانہ زندگی گزار رہے ہیں اور جن کو اپنے بارے میں یہ اعتراف ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں، انہیں زبردستی ہندو بنا دیا گیا ہے، تیسرے: سیکولر برادرانِ وطن کو؛ کیوںکہ آج بھی ہندو بھائیوں کی اکثریت اس ملک کے فرقہ وارانہ رخ اختیار کرنے پر فکر مند بھی ہے اور متأسف بھی، اگر مسلمان ان تینوں گروہوں کو ساتھ لے کر ایک ’حلف الفضول ‘ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں، ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں جو ہر ظلم کے مقابلہ میں کمر بستہ ہو اور ہر مظلوم کو انصاف دلانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو، کسی دلت کے ساتھ زیادتی ہو تو پُر امن طریقے پر مسلمان احتجاج کریں اور کسی مسلمان کے ساتھ زیادتی ہوتو اس کے تحفظ کے لئے دلت آگے بڑھیں، اگر اس طرح کا کوئی پلیٹ فارم قائم کرنے میں مسلمان کامیاب ہوجائیں تو موجودہ حالات میں یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی اور بہت سے امراض کا مداوااور مشکلات کا حل ہوگا۔

رسول اللہ ﷺ نے قیام عدل، تحفظ اور امن و امان کی بر قراری کے لئے غیر مسلم ابنائے وطن کے ساتھ مختلف معاہدات کئے ہیں، خود مکہ میں بھی آپ نے اہلِ مکہ سے پیش کش کی تھی کہ بقائے باہم کے اصول پر مسلمان اور غیر مسلم دونوں سوسائٹی میں مل جل کر رہیں، قرآن مجید کی سورۂ کافرون میں یہی فارمولہ پیش کیا گیا ہے، پھر مدینہ پہنچتے ہی آپ ﷺ نے مسلمان، یہودی اور مشرک قبائل کے درمیان ایک اہم معاہدہ کرایا، اس معاہدہ کو قید تحریر میں بھی لایا گیا اور تمام قبائل کے اس پر دستخط لئے گئے، جس کو ’’میثاق المدینۃ‘‘ کہا جاتا ہے اور حلف الفضول کا واقعہ تو آپ ﷺکی نبوت سے پہلے کا ہے؛ لیکن اس کی جو اہمیت آپ کی نگاہ میں تھی، اس کا اندازہ اس جملہ سے کیا جاسکتا ہے جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر مجھے آج بھی اس کی طرف بلایا جائے تو میں اس کو قبول کروںگا‘‘ گویا یہ ایک وقتی تدبیر اور عارضی حکمتِ عملی نہیں تھی؛ بلکہ ایک اصولی فیصلہ تھا، جو اسلامی تعلیمات کی روح پر مبنی اور اس کے اصول انصاف کا آئینہ دار تھا۔

اس ملک کو بچانے، ملک کے دستور اور اس کی جمہوری قدروں کو بچانے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے نہ صرف اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے لحاظ سے بلکہ خیر امت ہونے کی حیثیت سے بھی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ حقیر اور وقتی سیاسی مفادات کو نظر میں رکھنے کے بجائے ملک و ملت کے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں پیش قدمی کریں، اس کوشش میں منصوبہ بندی تو ضرور ہونی چاہئے لیکن اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہئے؛ کیوںکہ ایسے معاملات کی تشہیر سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے، اگر موجودہ حالات میں مسلمان بے سمتی کا شکار رہے، انہوں نے سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق اپنے لئے راہ عمل متعین نہیں کی، تو اتنے بڑے نقصان کا خطرہ ہے جس کی تلافی دشوار ہوجائے گی؛ کیوںکہ اس وقت ہمارا ملک ایک دو راہے پر کھڑا ہے: ایک راستہ یہ ہے کہ سیکولر طاقتیں اپنی کمزوری کی وجہ سے فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں اور گویا اپنی شکست کا اعتراف کرلیں، یہاں تک کہ یہ ملک مستقل طور پر فرقہ پرستی کے راستہ پر چلاجائے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ مسلمان سیکولر عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں، انہیں طاقت پہنچائیں، ان کے اندر فرقہ پرستی سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کریں اور اس ملک کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑدیں، جو اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے انسانی خون کا دریا پار کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے !! (ملت ٹائمز)

( مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر نیز آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری و ترجمان ہیں)