چودھری آفتاب احمد
جمہوری ملک میں حکومت عوام کی ہوتی ہے،عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کر کے حکومت تشکیل کرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، یہ نمائندے جن سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان جماعتوں کی عوام سے رائے مانگنے اور حکومت چلانے کی اپنی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں،جمہوری نظام یقیناً ایک اچھا نظام ہے،اس میں ہر کسی کو رائے دےنے اور انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہوتا ہے،لےکن یہ نظام اس وقت متزلزل ہوجاتا ہے،جب سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوام کو تقسیم کرنے کے در پہ آجاتی ہیں۔
آج ملک کے جو حالات ہیں ،وہ ہر کسی کے سامنے ہیں، اقتصادی طور پر یہ ملک کمزور ہوا ہے، یہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں، کہ گزشتہ کچھ سالوں سے مہنگائی بڈھی ہے، روزگار کے وسائل کم ہوئے ہیں،کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی چھٹنی کی ہے،سرکاری نوکریوں کا فقدان پیدا ہو گیا ہے، ملک کی کرنسی کمزور ہوئی ہے، یعنی برے دن ہی برے دن آئے ہیں، حالانکہ اس حکومت نے اچھے دن لانے کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ عوام سے اپنے کئے ہوئے کسی بھی وعدہ میں کھری نہیں اتری ہے۔
ابھی پانچ صوبوں میں اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں، جو آئندہ برس ہونے والے عام پارلیمانی انتخاب کا رخ طے کریں گے، اس وقت ملک میں ہندوں پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے، ہندوں بنیاد پرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر اےس اےس) کی سیاسی ونگ بی جے پی نے 2014 کے عام پارلیمانی انتخاب میں عوام سے جو وعدے کئے تھے،انھیں وہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، یا یوں کہیں ،کہ وہ انھیں پورا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی،یعنی انتخابی مہم میں عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے، وہ بقول اس پارٹی کے صدر محض جملے بازی تھی، لہٰذا جھوٹ بول کر ووٹ مانگی جا رہی تھیں، اتنا بڈا دھوکا عوام سے ہو رہا تھا۔
ہمارے ملک میں دو نظریوں پر سیاسی جماعتیں عوام کی نمائندگی کر رہی ہیں،اےک سےکولر نظریہ ہے اور دوسرا مزہب پرست نظریہ ہے،سےکولر نظریہ کی قیادت کانگرےس اور اس کی اتحادی جماعتیں کررہی ہیں ،جنھیں یونائٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی ا ے) کا نام دیا گیا ہے، اور مذہب پرست نظریہ کی قیادت بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں کر رہی ہیں، انھیں نےشنل ڈیمو کریٹک الائنس کا نام دیا گیا ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں ہر مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں، لیکن بی جے پی کہنے کو تو ہندوں مزہب کی قائد ہے، لیکن حقیقت یہ ہے،کہ یہ اقتدار تک مزہب کا ساتھ چاہتی ہے،اس پارٹی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے حال ہی میںاےک انٹرویو میں کہا ہے، کہ مزہبی جذبات بھڑکا کر ہی اقتدار تک پہونچا جا سکتا ہے،ترقی کے نام پر کوئی ووٹ نہیں دیتا، اس سے واضح اشارہ ملتا ہے، کہ مذہبی منافرت پھیلا کر یہ پارٹی اقتدار میں بنے رہنا چاہتی ہے، انھوں نے کہا ہے،کہ ہم نے سےکولر ووٹوں کی تقسیم کے لئے شیعہ مسلمانوں کو سنی مسلمانوں سے الگ کیا ہے، بوہرا مسلمانوں کو شیعہ اور سنیوں سے الگ کیا ہے،اور ان کی خواتین کو تین طلاق کے نام پر ان سے الگ کیا ہے،یعنی تقسیم کرو اور راج کرو کی انگریز پالیسی پر یہ آج بھی کاربند ہیں، اور ہوں بھی کیوں نہ انھوں نے انگریزوں کے ساتھ ہمیشہ وفاداری جو کی ہے، آپ کو بتاتے چلیں کہ ہندوستان میں ہندوں مسلم اتحاد بہت مضبوط تھا،جب یہاں مسلم حکمراں حکومت کرتے تھے،تب اس ملک میں کبھی بھی نہ تو مذہب کے نام پر ہندوں مسلم فساد ہوا، اور نہ ہی کسی طرح کی منافرت پےدا ہوئی،ہندوستان میں ہندوں مسلمانوں کے بیچ پہلا فساد انگریز حکومت نے گائے کے ذبیح پر کرایا تھا۔
انگریز حکومت نے ہندوں مسلمانوں کے مضبوط اتحاد کو تار تار کرنے کے لئے مزہبی منافرت پھےلانے کا منصوبہ بنایا تھا ، تاکہ انھیں الگ الگ کر کے طویل عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کی جا سکے،طے ہوا کہ ہندوں گائے میں عقیدہ رکھتا ہے، اور مسلمان اسے کھانے کے لئے حلال سمجھتا ہے، گائے مسلمانوں سے کٹوائی جائے،انگریز فوجیوں کو کھلا ئی جائے ،اور ہندوﺅں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جائے، کہ دیکھو مسلمان گائے کاٹ رہا ہے، چنانچہ اےسا ہی ہوا، انگریز اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو گئے، ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ کردیا،اس طرح انگریزوں نے 1857 سے 1947 تک یعنی پورے 90 سال ہندوستان پر مکمل حکومت کی، اب ایسے ہی گائے کے نام پر ہندوں پرست پارٹی نے بھی ہندوﺅں کے جذبات بھڑکائے ،اس سے ہجومی تشدد پیدا ہوا، کئی بے گناہ مسلمان مارے گئے، ہندوؤں اور مسلمانوں میں فاصلہ پیدا ہو گیا، حکمراں پارٹی کو صبر یہیں تک نہیں آیا،اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو تقسیم بھی کیا گیا، اس کامیابی کے بعد ہندوؤں پرست پارٹی نے سےکولر پارٹیوں کو توڑنے کا کام کیا، پہلے بہار کے عظیم اتحاد کو توڑا، وہاں پر لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یونائٹڈ کو الگ کیا،نتیش کمار کی حمایت کر کے دوبارہ حکومت بنوائی ،پھر اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی میں ہلچل پےدا کی،وہاں پر اکھلیش یادو کے چاچا شیو پال یادو کو الگ کیا، اب شیو پال یادو کو لکھنو میں رہنے کے لئے بنگلہ دیا اور زیڈ پلس سیکورٹی مہیا کرائی، اترا کھنڈ میں بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی گئی، اب ہریانہ میں انڈین نےشنل لوکدل میں توڈ پھوڈ کرادی، بی جے پی نے یہاں پر اوم پرکاش چوٹالا کے بڈے بےٹے اجے سنگھ چوٹالا کی اندر خانہ حمایت کی ہے، اب اجے چوٹالا جلدی ہی نئی پارٹی بنانے والے ہیں۔
دراصل حکمراں پارٹی بی جے پی کو گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں سب سے زیادہ کامیابی بہار، اتر پردیش اور ہریانہ سے ملی تھی، اب بی جے پی کو یہاں شکست کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہاہے،اسی لئے ان ریاستوں میں ہندوؤں مسلم منافرت پیدا کرنے کے بعد اس پارٹی نے سے کولر پارٹیوں کو تقسیم کرنے پر زیادہ زور دیا ہے، ہندوؤں رائے دہندگان کو یہ بھی سمجھایا جا رہا ہے، کہ مسلم نام والے شہروں کے نام تبدیل کر کے ہم ہندوں راشٹر کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاکہ ہندوﺅں سے کئے گئے اس وعدے کے بارے میں انھیں کچھ تسلی دے دی جائے، جو انھوں نے گزشتہ پارلیمانی انتخاب کے دوران انتخابی مہم میں ہندوﺅں سے کئے تھے، کہ اگر ان کی حکومت بنی تو وہ اس ملک کو ہندوؤں راشٹر بنا دیں گے ۔،
بہر حال بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسی سے جہاں ملک کی سےکولر شبیہ مجروح ہوئی ہے، وہیں سیکولر پارٹیوں کے لئے بھی اب یہ لازم ہوگیا ہے، کہ وہ اس پارٹی کی حربہ بازیوں کو سمجھیں، اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھتے ہوئے،مضبوطی کے ساتھ ایسی طاقتوں سے لڑیں، جو اس اس ملک کو محض اقتدار کی خاطر بدنام اور کمزور کر رہی ہیں۔
(مضمون نگار ہریانہ کے سابق کابینہ وزیر اور معروف رہنما ہیں )






