محمد آصف ا قبال، نئی دہلی
19؍ مئی 2016کے دن ان تمام پانچ ریاستوں کے الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا جس کا اعلان الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 18؍مارچ2016کو کیا تھا۔الیکشن کے نتائج کیسے رہے اور کون کامیاب ہوا تو کون ناکام ،اس کا فیصلہ ہر شخص وگروہ اپنی وابستگی کے حساب سے کرے گا۔جو لوگ سیاسی پارٹیوں سے راست وابستہ تھے وہ الیکشن کے نتائج کو اپنی پارٹی کی ہار یا جیت کے اعتبار سے دیکھیں گے تو وہیں وہ لوگ سیاست دانوں سے وابستہ تھے ان کے جائزہ کا معیار الگ ہوگا۔اس کے برخلاف چیف الیکشن کمشنر نسیم زیدی کی کوششیں اور ان کے ساتھ مصروف عملہ کے جائزہ کا معیار مختلف ہوگا۔لیکن ان تمام پارٹیوں اور اداروں سے وابستہ افراد کے علاوہ الیکشن کے نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ متعلقہ شہری ہیں،جنہوں نے اس پورے عمل میں شامل ہوکر”اپنی پسند”کی حکومت تشکیل دی ہے۔یعنی اس اہم ترین موقع پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے خلاف یا ان کے حق میں اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کیا ہے۔فی الوقت جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان تمام کا جائزہ لینے کی بجائے ہم نے کوشش کی ہے کہ ریاست آسام کا تجزیہ پیش کریں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ آسام کی معاشی ،معاشرتی اور تمدنی صورتحال پر نظر ڈالی جائے ۔
32ڈسٹرکٹس پر مشتمل ریاست آسام ایک پہاری سلسلہ ہے،جہاں ندیاں نالے جھرنے اور پہاڑ چہار جانب پھیلے ہیں۔31,205,576آبادی ہے ،جس میں 73.18%فیصد خواندہ لوگ رہتے ہیں۔آسامی،بنگالی،بوڈو اور انگلش زبانیں وہاں عام طور پر بولی جاتی ہیں۔تقریباً ہر سال برہم پترا ندی اور دیگر ندیوں کے ذریعہ سیلاب آتا ہے،جس سے وہاں کے لوگ معاشی اعتبار سے عموماً پریشان رہتے ہیں ۔ریاست میں2011کے اعداد و شمار کی روشنی میں 61.46%ہندو ،34.22%مسلمان،3.73%عیسائی،0.17%بدھ ، 0.08%جین،0.06%سکھ اور 0.03ایسے لوگ ہیں جن کے مذہب کی کوئی شناخت نہیں یا ملحد ہیں۔وہیں ریاست آسام کی یہ بھی خوبی ہے کہ یہاں 115نسلی گروہ پائے جاتے ہیں۔دوسری جانب ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں مسلمان تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ موجود ہیں۔
آسام میں مسلمانوں کے مسائل کی بات کی جائے تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں کے مسلمان مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ جو مسلسل اٹھتا رہا ہے وہ بنگالی مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہ مسلمان عموماً مغربی بنگال سے تعلق رکھتے ہیں تو وہیں ریاست آسام سے بھی ۔لیکن چونکہ آسام کی سرحد بنگلہ دیش سے بھی لگتی ہے لہذا یہ بات بھی عام ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلمان یہاں غیر قانونی طریقہ سے رہتے بستے ہیں،جن کی تعداد کافی ہے۔یہ بات کس قدر صحیح ہے اور کتنی غلط اس کا انداز ہ تو ووٹر لسٹ سے لگایا جاسکتا ہے،لیکن عام طور پر ووٹر لسٹیں خود ہی غلط ہوتی ہیں،بہت سارے شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ جاتے ہیں تو بہت سے وہ نام داخل ہو جاتے ہیں جو درحقیقت اُس ریاست سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔اس لیے عموماً مسلمانوں کا یہی ماننا رہا ہے کہ جس طرح مسئلہ کو بیان کیا جاتا رہا ہے، حقیقت اس کے برخلاف ہے اور چونکہ سیاست میں مسئلے ہی انتخابی ایشو بنتے ہیں ،جن کی بنیادی پر کامیابی یا ناکامی ہاتھ آتی ہے، لہذا ہندؤں،مسلمانوں اور بڑی تعداد میں پائے جانے والے نسلی گروہ کے درمیان دوریاں پیدا کرنے،ڈرار ڈالنے اور نفرتوں کے فروغ میں یہ ایشو کافی کارگراورمعاون ہے،اسی لیے اس ایشو پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال 2012میں کوکراجھار ڈسٹرکٹس میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا تھا،اس کی بڑی وجہ بھی یہی بتائی گئی تھی ۔جس کے نتیجہ میں آدی واسیوں یا نسلی گرہوں نے مسلمانوں پر حملے بولے اور کافی نقصان پہنچایا تھا۔80بنگالی مسلمانوں نے جان سے ہاتھ دھویا تو وہیں کچھ بوڈو بھی ہلاک ہوئے تھے۔اور یہ وہی موقع تھا جبکہ ریاست کے 4لاکھ مسلمانوں نے فسادات اور قتل عام سے جان بچانے کے لیے حکومت کی جانب سے قائم کردہ کیمپوں میں پناہ لی تھی نیز500مسلم گاؤں ان حملوں سے متاثر ہوئے تھے۔وہیں دوسری جانب آغاز ہی سے ریاست میں ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود مسلمان کی معاشی صورتحال اچھی نہیں ہے۔مسلمانوں کی اکثرتی کھیتوں میں بحیثیت مزدور کام کرتی ہے۔ایک تیسرا رخ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے ریاست میں بوڈولینڈ کے نام سے ایک الگ بوڈوریاست قائم کرنے کی مانگ کرنے والے بوڈولینڈپیوپلس فرٹ(BPF)سرگرم عمل ہے،جو سابقہ کانگریس حکومت کے ساتھ تھے،لیکن اس مرتبہ 2016میں انہوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔بوڈولینڈ کی یہ مانگ ریاست آسام کے 4؍ڈسٹرکٹس پر منحصر ہے،جس میں کوکراجھار،چرانگ،بکسا،اور اُدل گری آتے ہیں۔2011کے اعداد و شمار کی روشنی میں ان 4؍ڈسٹرکٹس کی کل آبادی 3,51,047ہے۔جس میں71.24%ہندو، 19.12%مسلمان اور 9.14% عیسائی ہیں۔لیکن چونکہ بوڈولینڈ کی مانگ کرنے والے نوجوانوں میں یہ فضا عام ہو گئی ہے کہ ہمیں صرف اپنے مسئلہ کے حل کے لیے جدوجہد کرنی ہے،چاہے اس کے لیے دوسروں کے ساتھ کچھ بھی سلوک کیوں نہ کرنا پڑے،لہذا قانونی و غیر قانونی جدوجہد میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی سامنے آئی ہے جو غیر قانونی طریقہ سے ہتھیاربند ہے ۔نتیجہ میں جہاں دیگر مسائل سے ریاست نبرد آزماہے وہیں یہ ہتھیار بند افراد وقتاً فوقتاً مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ اس کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ بوڈولینڈ کی مانگ کرنے والے افراد کا نشانہ عموماً ریاست کے مسلمان ہی ہوا کرتے ہیں۔
آزادی سے لے کر آج تک ریاستی حکومت پر اگر نظر ڈالی جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ1947سے 2011تک ریاست میں کل 16مرتبہ حکومت تشکیل پائی ہے،جس میں 13؍مرتبہ کانگریس برسراقتدار رہی ہے۔یہ وہی کانگریس ہے جس کے تعلق سے ایک زمانے تک مسلمان فخر سے کہتے رہے کہ ہم “کانگریسی مسلمان “ہیں۔جہاں اس کا خمیازہ انہوں نے بے شمار مقامات پر اٹھایا ہے وہیں اس کی زندہ مثال آسام بھی ہے۔شروع ہی سے ریاست میں مسلمانوں کے تعاون سے حکومتیں بنتی اور گرتی رہیں،اس کے باوجود مسلمانوں کو نہ معاشی میدان میں،نہ تعلیمی میدان میں اور نہ ہی سیاسی محاذ پر کسی قسم کا فائدہ حاصل ہواہے۔ غالباً صورتحال ہی کے پیش نظر گزشتہ 2011میں ایک مسلم سیکولر سیاسی پارٹی AIUDFنے پہلی مرتبہ قسمت آزمائی کی اور 12.6%ووٹ شیئر کے ساتھ 18اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔اور اس مرتبہ بھی 2016میں توقع کی جارہی تھی کہ AIUDFکے ووٹ شیئر اور سیٹوں دونوں میں اضافہ ہوگا،اورممکن ہے یہی پارٹی کنگ میکر کا کردار ادا کرے گی۔لیکن نتائج نے ثابت کردیا کہ AIUDFاور کانگریس نے جو حکمت عملی اختیار کی، وہ مناسب نہیں تھی،اس کے باوجود AIUDFکا ووٹ شیئر میں اضافہ ہواہے۔گزشتہ2011میں AIUDFکاووٹ شیئر12.6%تھالیکن 2016میں بڑھ کر 18%فیصد ضرور ہوالیکن سیٹوں کے اعتبار سے 18سے کم ہو کر 13پر پہنچ گئی۔
آسام کے الیکشن نے کم از کم کانگریس کو یہ بات بھی واضح کردی ہوگی کہ اگر مسلمانوں اور دلتوں کے مسائل کو وہ اسی طرح نظر انداز کرتی ،اور علاقائی مسلم سیکولر یادلت سیکولر پارٹیوں سے اتحاد نہیں کیا،توبہت جلد آرایس ایس یا بی جے پی کے “کانگریس مکت بھارت”کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔کیونکہ آسام کے حالیہ الیکشن میں کانگریس اور AIUDFکا ووٹ شیئر31+18رہا ہے جو کل 49%فیصد بنتا ہے برخلاف اس کے بی جے پی کا کل29.5%ووٹ شیئر رہا ہے ۔لیکن اگر کانگریس اور AIUDFکے ووٹ شیئر کو ملایا جائے تو یہ بی جے پی سے 19.5%زیادہ ہے،اس کے باوجود کانگریس نے بہت بڑی ہار کا سامنا کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی آج تک مسلمانوں کے تعلق سے بہتر سیاسی پارٹیاں ثابت نہیں ہوسکی ہیں اورنہ ہی آئندہ ہونے کی کوئی توقع ہے،کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے مسائل کا کوئی سنجیدہ حل نہ پیش کیا ہے اور نہ پیش کریں گے۔اس کے باوجود کانگریس مکت بھارت کے نتیجہ میں جہاں راست فائدہ آرایس ایس کو وہنے والا ہے وہیں راست نقصان بھی کانگریس ہی کوہوگا!(ملت ٹائمز)
maiqbaldelhi@gmail.com