بابری مسجد کو رام مند ربنانے کی تاریخ

Hindu youths clamour atop the 16th century Muslim Babri Mosque in this 06 December 1992 photo five hours before the structure was completely demolished by hundreds supporting Hindu fundamentalist activists. In 1947 India and Pakistan were ripped savagely apart. In 1997 there are a growing number of people who would like them stitched back together again. The trauma of partition persists and fears seemed to be underlined by the evocative image of Ayodhya, when the mosque was torn down amid claims that it had been built on the site of a former Hindu temple built where Lord Rama was born. / AFP PHOTO / DOUGLAS E. CURRAN

آج 6دسمبر 2018ہے۔بابری مسجد کی شہادت کو 26 سالوں کا عرضہ گزر چکاہے ۔آج ہی کے دن26سال قبل 1992 میں ہندو شدت پسند نے تاریخی بابری مسجد کو اس وقت شہید کر دیا تھا۔اس موقع پر پورے ہندوستان کے مسلمان یوم سیاہ مناتے ہیں اور بابری مسجد کی از نو تعمیر کیلئے حکومت پر دباﺅ بناتے ہیں۔ اس موقع پر ملت ٹائمز اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے بابری مسجد کی سلسلہ وار پوری تاریخ کہ کب کیا ہوا ۔
1528 ایودھیا میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔
1822 میںسب سے پہلا یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ رام چندر جی کی جنم استھان پر مسجد کی تعمیر کا ذکرملتاہے ۔۔
1859 میں برطانیہ حکومت نے ہندو مسلم کیلئے علاحدہ علاحدہ مقام پر عبادت کی تجویز پیش کی ۔
1905 میں اس فرضی قصے نے فیض آباد کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر میں جگہ پا لی۔
1949میں خفیہ طور سے بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھ دی گئیں۔
1959 نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازعہ مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی عرضی داخل کی۔
اس کے بعد 1961 میں یوپی سنی سنٹرل بورڈ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی
1984 میں ہندﺅوں کے ایگ گروپ نے اس جگہ پر رام مندر بنادیا جس کے بارے میں دعوی تھاکہ یہ رام کی جائے پیدائش ہے ۔
1986 متنازعہ مقام کو ہندو عقیدت مندگان کے لئے کھول دیا گیا۔
اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل ہوئی۔
1990میں لال کرشن اڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا۔
1991میں رتھ یاترا کی لہر سے بی جے پی اترپردیش کے اقتدار میں آ گئی
اسی سال مندر تعمیر کے لئے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں۔
6 دسمبر 1992۔ ایودھیا پہنچ کر ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔
اس کے بعد جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
پولس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔
جلد بازی میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔
سابق وزیر اعظم نرسمہا راو نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔
16 دسمبر 1992کو بابری مسجد انہدام کے لئے ذمہ دار صورت حال کی جانچ کے لئے ایم ایس لبراہن کمیشن تشکیل دی گئی۔
1994میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔
4 مئی 2001میں خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماوں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔
یکم جنوری 2002میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک ایودھیا کمیشن کا قیام کیا جس کا مقصد تنازعہ کو حل کرنا اور ہندو و مسلمانوں سے بات کرنا تھا۔
یکم اپریل 2002 کوایودھیا کے متنازعہ مقام پر مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کی تین ججو ں کی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا۔
5 مارچ 2003 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔
22 اگست 2003میں محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مسجد کے نیچے 10 ویں صدی کے مندر کے باقیات کا اشارہ ملتا ہے۔
اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے چیلنج کیا۔
ستمبر 2003۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ مسجد انہدام کے لئے اکسانے والے 7 ہندو رہنماو ں کو پیشی پر بلایا جائے۔
جولائی 2009۔ لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
26 جولائی 2010کو معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔
لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔
28 ستمبر 2010کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے متنازعہ معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کردی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔

https://www.facebook.com/millattimes/videos/1387153891420297/

30 ستمبر 2010۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت متنازعہ زمین کو تین حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر، دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا۔
9 مئی 2011کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔
21 مارچ 2017کو سپریم کورٹ نے معاملہ کو آپسی رضامندی سے حل کرنے کی صلاح دی۔
19 اپریل 2017کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماوں کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلانے کا حکم سنایا۔
16 نومبر 2017کو ہندو گرو شر ی شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔
5 دسمبر2017کو سپریم کورٹ میں 8 فروری 2018 سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ۔
8 فروری 2018کو فریقین کو حکم دیا کہ وہ تمام دستاویزات کو مع ترجمہ کورٹ میں جمع کرائیں۔
14 مارچ 2018کو بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کی عرضی سمیت تمام مداخلت کی عرضیاں خارج کردی گئیں۔
23 مارچ 2018کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے وکیل ڈاکٹر راجیود ھون نے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا، جسٹس ورما کا یہ کہنا کہ نماز کہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے، غلط ہے کیونکہ نماز ادا کرنے کی جگہ مسجد ہے اور اسلام میں اس کی شرعی حیثیت ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
6 جولائی 2018۔ جمعیت علماءہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے سامنے سماعت کے لئے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
20 جولائی 2018کو بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کی سپریم کورٹ میں 5 دسمبر 2017 سے چلنے والی سماعت کا اختتام ہوا ۔
27 ستمبر 2018 کو چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی والی بنچ نے معاملہ کو کثیر رکنی بنچ کے پاس بھیجنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’اسماعیل فاروقی فیصلہ‘ کا مقدمہ پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ نماز مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں اس بات سے مقدمہ کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
29 اکتوبر 2018 کو نئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے سماعت کرتے ہوئے کہاکہ جنوری 2019 سے بابری مسجد ۔رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کی شروعات ہوگی اور اسی وقت بینچ کی تشکیل دی جائے گی ۔

SHARE