راجستھان کے اندر بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کو ۱۶۳ تو کانگریس کو صرف ۲۲ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اس جیت کا خمار وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے اوپر ایسا چڑھا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی نہیں اترا۔
ڈاکٹر سلیم خان
بھارتیہ جنتا پارٹی کے جملہ باز رہنماوں سے الگ تھلگ وزیرداخلہ کی ایک مختلف شبیہ ہے ۔چار صوبوں کے انتخابی نتائج سے دودن قبل راجناتھ سنگھ نے متھرا میں جی ایل اے یونیورسٹی کے اندر نامہ نگاروں سے کہا تھاکہ یہ سیمی فائنل نہیں ہے اور فائنل تو فائنل ہوتا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں چونکہ وزیرداخلہ کے تحت کام کرتی ہیں اس لیے انہیں زمینی حقائق کا علم ہوجاتا ہے۔ اس بیان کے اندر یہ پیغام پوشیدہ تھا کہ بی جے پی پرزے اڑنے والے ہیں ۔ آگے چل کر انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی کوشش تو یہی ہوگی کہ کامیابی ملے حالانکہ رائے دہندگی کے بعد انسان صرف خواب دیکھ سکتا ہے سعی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کامیابی کے یقین کا بھی اظہار کیا لیکن اگر ایساہوتا تو وہ اسے سیمی فائنل قرار دینے میں پس و پیش نہیں کرتے ۔ راجناتھ سنگھ جس کیفیت میں مبتلاء تھے کانگریس والوں کی حالت بھی مختلف نہیں تھی ۔ ساری سیاسی جماعتوں پر سوشیل میڈیا کا یہ لطیفہ صادق آرہا تھا کہ ’کل نتائج آنے ہیں لیکن حلوائی کی دوکان پرابھی تک آرڈر نہیں آرہے ہیں۔ بی جے پی والے ایکزٹ پول سے تو کانگریسی ای وی ایم سے ڈرے ہوئے ہیں ‘۔
جملہ پانچ صوبوں کے اندر چار میں واضح نتائج آئے ۔ ان میں سے دو میں کانگریس ہار گئی اور دو میں کانگریس جیت گئی ۔ بی جے پی ان پانچوں مقامات پر شکست فاش سے دوچار ہوئی۔ میزورم کے اندر کانگریس کی سرکار تھی ۔ وہاں کی علاقائی جماعت میزو نیشنل فرنٹ بھی شمال مشرقی صوبوں میں قائم علاقائی سیاسی محاذ کا حصہ ہے جو این ڈی اے کی حمایت کرتا ہے۔ بی جے پی کو چاہیے تھا کہ وہ ایم این ایف کے ساتھ مل کر انتخاب لڑتی تاکہ اس کی کامیابی پر اپنا حق جمایا جاتا لیکن یاتو اس کی مت ماری گئی یا ایم این ایف نےسا تھ لینے سے انکار کردیا بہرحال وجہ جو بھی ہو دونوں نے الگ الگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی کو ایک تو کانگریس کو ۵ مقامات پر کامیابی ملی اس طرح کانگریس ایم این ایف سے تو ہار گئی مگر اس نے بی جے پی کو بری طرح ہرا دیا۔
آندھرا پردیش میں ٹی آر ایس نے زبردست کامیابی درج کراتے ہوئے کانگریس اور ٹی ڈی پی کو بری طرح مات دے دی لیکن پھر بھی وہ بی جے پی سے بہت آگے رہی۔ بی جے پی نے اس بار اپنا بیڑہ غرق کرنےکے لیے مودی کے علاوہ یوگی کو بھی اتارا ۔ یوگی نے عوام کے مسائل کوحل کرنے کےبجائےکبھی تو اویسی کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تو کبھی مختلف شہروں کے نام نئے نام تجویز کیے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تلنگانہ کی عوام نے بی جے پی کو صوبہ سے نکال باہر کیا ۔ پہلے اس کے پاس ۵ نشستیں تھیں اب گھٹ کر ۱یک ہوگئی۔ یہ ہے یوگی مہاراج کا کارنامہ ۔ مجلس ساتوں حلقہ محفوظ رہے۔ اس طرح ایم آئی ایم کا تو بال بیکا نہیں ہوا بی جے پی چٹیا کٹ گئی ۔ یوگی جی اس بار تو خیر تلنگانہ سے منہ پر کالک پوت کر لوٹ آئے لیکن آئندہ انتخاب میں جب انہیں اترپردیش کے عوام دیس نکالا دیں گے توانہیں اپنے آبائی وطن اتراکھنڈ میں پناہ لینی پڑے گی ۔ اگلی بار تو گورکھ ناتھ مندر کے پجاری اور بھکت بھی انہیں اپنا گورکھ دھندہ چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چھتیس گڈھ میں انتخابات بہت دلچسپ ہوئے۔ وہاں پر کانگریس نے بی جے پی کو اس بری طرح پٹخنی دی کہ وزیراعلیٰ کو اپنی سیٹ بچانا مشکل ہوگئی۔ پہلی بار کسی پارٹی کو دوتہائی اکثریت مل رہی ہے ۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں ۲۰۱۳ میں ایک نقلی لال قلعہ بناکر مودی جی سے تقریر کرائی گئی تھی۔ اب وہ قلعہ ڈھایا جاچکا ہےلیکن نقلی لال قلعہ کا کیا پھر سے بن جائے گا اور آئندہ سال سے مودی ۱۵ اگست کو وہیں سے اپنے من کی بات کہیں گے مگر کوئی نہیں سنے گا۔ چھتیس گڈھ میں کانگریس کے اندر اس بار بڑی بغاوت ہوئی اور سابق وزیراعلیٰ اجیت جوگی نے اپنی الگ سے جنتا کانگریس بنا ڈالی ۔ یہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی درمیانی صنف تھی جسے عدالت عظمیٰ نے حال میں عزت و توقیر سے نوازہ ہے۔
اس نئی نویلی جماعت نے بی ایس پی کے ساتھ اتحاد قائم کرکے کانگریسی خیمہ میں ہلچل مچا دی ۔ مبصرین نے اس اتحاد کو ووٹ کی تقسیم اور کانگریس کی یقینی شکست سے منسوب کردیا لیکن جوگی جی کا کانگریس سے الگ ہونا کانگریس کے بجائے بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ بی جے پی والے عوام کو ڈراتے تھے کہ ’بیٹا ہاتھ کا ساتھ نہ دے ورنہ جوگی آجائے گا‘ ۔ اس بار بی جے پی یہ حربہ استعمال نہیں کرسکی اس لیے کہ رائے دہندگان کو یقین تھا کہ اگر کانگریس آگئی تب بھی جوگی تو نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے بے دھڑک کانگریس کو ووٹ دے کر بی جے پی کو بھگا دیا۔ اس طرح بی جے پی کو ۳۲ نشستوں کا نقصان ہوا اس میں سے ۲۵ کانگریس کو اور ۷ جوگی کے اتحاد کو ملیں۔
راجستھان کے اندر بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کو ۱۶۳ تو کانگریس کو صرف ۲۲ نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اس جیت کا خمار وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے اوپر ایسا چڑھا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی نہیں اترا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی بے حسی میں راجستھان کی سرکار گجرات سے بھی بہت آگے نکل گئی ۔ الور کے اندر ہونے والے گئوتنک وادیوں کے یکے بعد دیگرے دو حملے اور دو نوں مقامات پر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مصداق مظلومین پر مقدمات کا انوکھا کھیل کھیلا گیا ۔ الور ہی میں پہلے کسان کی خودکشی اور اس کے بعد چار بیروزگار نوجوانوں نےخودکشی کی لیکن ان کی جانب بھی مکمل عدم توجہی کی گئی ۔ وزیراعظم نے ان بنیادی مسائل کی جانب توجہ کرنےکے بجائے سپریم کورٹ پر تنقید کر ڈالی ۔
راجستھان میں یوگی مہاراج نے کریلا اور نیم چڑھا والے محاورے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پہلے رام مندر اور پھرگئوماتا کی جئے کا نعرہ بلند کردیا۔ راجسمند میں افرازالاسلام کا بہیمانہ قتل کے بعد اس کی حمایت میں نکلنے والے جلوس کو سرکاری تحفظ عطا کی گئی ۔ وسندھرا راجے نے نہ صرف للت مودی جیسے بدعنوان بھگوڑے کی کلی حمایت کی بلکہ امیت شاہ کے خلاف داخلی مہابھارت چھیڑ دی۔ اس لیے بی جے پی کی ناکامی کو ان میں سے کسی ایک کو جوڑنا مشکل ہے۔ اس صوبائی انتخاب میں ناکامی کے لیے وسندھرا سندھیا پھر سے مرکز کی دخل اندازی کو موردِ الزام ٹھہرائیں گی اور امیت شا ہ کی کوشش ہوگی کہ انہیں دریا برد کردیں ۔ ہم جیسے لوگ تو دونوں کو شبھ کامنائیں پیش کریں گے اور امید کریں گے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو کیفرِ کردار تک پہنچا نے میں کامیاب ہوجائیں ۔
مدھیہ پردیش کے نتائج بالکل اپنے نام لٹکن یعنی ( PENDULUM) کی مانند کانگریس اور بی جے پی کے درمیان جھولتے رہے ۔ بیم و رجا کی کیفیت رہی کبھی کمل کھِل جاتا تھا تو کبھی ہاتھ کھُل جاتا تھا۔ دونوں خیموں کے لوگ معلق اسمبلی سےآس لگائے بیٹھے رہے۔اب ساری نگاہیں ہاتھی پر مرکوز ہیں کہ یہ کس کو قدموں تلے روندتاہے اور کس کو اپنی پیٹھ پر بٹھاتا ہے۔ مایا وتی کے لیے دور اندیشی اور کوتاہ نظری کے درمیان انتخاب کا یہ موقع ہے۔ ویسے ہاتھی کا ڈیل ڈول بہت بڑا ہوتا لیکن اس کی دم بہت چھوٹی ہوتی اور آنکھیں تو نظر ہی نہیں آتیں ۔ آنکھوں کی جسامت کا تعلق بصارت سے تو ہے لیکن بصیرت سے نہیں دیکھنا یہ ہے کہ مایا وتی کس بصیرتِ نظری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان انتخابات کے بعد مودی جی سوچ رہے ہوں گے کہ کاش یہ نتائج ۲۰۱۳ میں آتے اور جو نتائج اس وقت آئےتھے وہ ابھی آتے تاکہ ۲۰۱۹ کا انتخاب آسانی سے جیتا جاتا لیکن اب یہ ریت سرکنے لگی ہے۔ راہل گاندھی نے صدر بننے کے بعد وہ کردکھایا جو مودی جی برسوں میں نہیں کرسکے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے رہنما مثلاً سشما سوراج ، اوما بھارتی وغیرہ یکے بعد دیگرے ۲۰۱۹ میں انتخاب نہیں لڑنے کا اعلان کررہے ہیں ۔ مودی جی کی بھی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ بھی نوٹ بندی کے بعد کیا گیا اپنا آخری وعدہ نبھائیں نیز اپنا جھولا اٹھا کر چل دیں ۔ مودی جی کی اور عوام کی بھلائی اسی میں ہے۔