ایم ودود ساجد
میں نے گزشتہ 5دسمبرکو’ تلنگانہ کے کجریوال‘پر لکھنے کاارادہ کیا تھا لیکن اپنے اِس معمول کے تحت‘ کہ میں کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں لکھتا‘ میں نے پولنگ سے پہلے لکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔
شمالی ہندوستان کی ایک دو جماعتوں کو چھوڑ کر سب نے مسلمانوں کو دکھ دیاہے۔اس لئے اب تو سبھی ایک جیسی لگتی ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ میں سب اچھی ہیں ۔۔۔مسلمان اگر متحد ہوکر ملک بھر میں اس کی شکست کا کوئی خاموش ‘تدبیر سے بھرپوراور موثر لائحہ عمل بناسکیں تواچھا ہوگا۔اور اگر ان کے مسلکی اور نظریاتی افکار اور قائدین کے ذاتی مفادات انہیں ایسا نہ کرنے دیں تو بہتر ہے کہ وہ کوئی سیاسی مشق نہ کریں اور بحث ومباحثہ سے بچ کرمحض اپنے کاروبار اور اپنے بچوں کی بہتر تعلیم پر توجہ صرف کریں …
آئیے اب تلنگانہ کے کجریوال کے تعلق سے کچھ بات کریں۔جنوبی ہندوستان میں آندھرا پردیش کا وہ بڑا علاقہ جس میں حیدر آباد شہر بھی شامل ہے تلنگانہ راشٹر سمیتی کی کاوشوں سے ایک الگ صوبہ بنا تھا۔۔۔ابھی اس صوبہ کو بنے ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔۔۔2جون 2014کو یہ صوبہ وجود میں آیاتھا۔اس صوبہ میں 31 اضلاع ہیں۔جبکہ آندھرا پردیش میں محض 9 اضلاع باقی رہ گئے ہیں۔تلنگانہ راشٹر سمیتی نے اپنے قائد ‘ چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں یہ تحریک شروع کی تھی جو مسلسل دس سال کی محنت کے بعد کامیاب ہوئی۔تلنگانہ ریاست بنانے کا فیصلہ تو UPA (کانگریس) کے زمانہ میں ہوگیا تھا لیکن پارلیمنٹ میں یہ بل NDA (بی جے پی) کے زمانے میں پاس ہوا۔تلنگانہ کے حالیہ الیکشن کو کانگریس اور بی جے پی دونوں نے اپنے لئے موت اور زندگی کا سوال بنالیا تھااور ٹی آر ایس کے خلاف دونوں ایک ہوگئے تھے ۔۔۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے تلنگانہ میں جو انتخابی تقریریں کیں ان میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ۔۔۔ ادھر کانگریس نے بھی کچھ کمی نہیں چھوڑی ۔اس کے لیڈر راہل گاندھی نے تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کو فرقہ پرست پارٹی قرار دیا۔
کیا آپ نے اس پر غور کیا کہ ٹی آرایس کے خلاف بی جے پی اور کانگریس کیوں ایک ہوگئے تھے؟ مجلس اتحاد المسلمین سے ٹی آر ایس کااتحاداس امرکا کوئی بڑا سبب نہیں تھا۔۔۔ماضی میں خود کانگریس مجلس کی مددلیتی آئی ہے۔
تو پھر اصل سبب کیا ہے ۔۔۔؟ ٹی آر ایس کے لیڈر چندر شیکھر راؤانتہائی صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں۔تلنگانہ کے اولین الیکشن میں انہیں کامیابی ملی تو انہوں نے ایک بردبار اور فعال مسلم لیڈر کو نائب وزیر اعلی بنایا۔یہی نہیں انہوں نے اپوزیشن جماعت مجلس اتحاد المسلمین کے بیشتر مطالبات تسلیم کرتے ہوئے عام مسلمانوں کی فلاح وبہبود کی بہت سی اسکیمیں نہ صرف وضع کیں بلکہ انہیں نافذ بھی کیا۔۔۔اس سلسلہ میں وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ کی تلنگانہ اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں انہوں نے کئی بار یہ تسلیم کیا کہ فلاں فلاں مطالبات اکبر الدین اویسی کے تھے جو سرکار نے تسلیم کرلئے۔یہ مطالبات کافی بھاری بھر کم تھے ۔ ان کے لئے اچھا خاصا بجٹ درکار تھا جو مختص کردیا گیا۔
چندر شیکھر راؤ نے مجموعی طورپر مسلمانوں کے لئے بہت سے کام کئے ۔۔۔کٹر تیلگو نواز ہونے کے باوجودانہوں نے اردو زبان کے فروغ کیلئے کافی اقدامات کئے ۔۔۔ ان پر مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘کا الزام عاید نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے عوامی فلاح وبہبود کے لئے ایسی ایسی متحیرالعقول اسکیمیں وضع کیں کہ جن کے تعلق سے ماضی قریب یا ماضی بعید میں کسی بھی ریاست میں نہیں سناگیا ۔۔۔
مثال کے طورپر ‘آسرا’ اسکیم کے تحت عمر رسیدہ غریبوں ‘فنکاروں‘ بیواؤں‘ بنکروں‘ایڈز سے متاثر مریضوں اور بیڑی بنانے والے مزدوروں کو فی کس ایک ہزار روپیہ اور معذوروں کو 1500روپیہ ماہانہ دئے جارہے ہیں۔۔۔اس اسکیم سے 39 لاکھ21ہزار27شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔۔اس اسکیم پر پانچ ہزار تین سو تین کروڑ روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔۔۔ یہ اسکیم کوئی الیکشن سے چند دنوں پہلے شروع نہیں کی گئی۔اس کی ابتدا صوبہ بننے کے پانچ ماہ بعدنومبر 2014میں ہی کردی گئی تھی۔اسی طرح ایک مخصوص تیلگو تہوارپرغریب خواتین کو ایک ساڑی مفت دی جاتی ہے۔اس اسکیم سے سال رواں میں ایک کروڑ خواتین نے فائدہ اٹھایا۔اس پر ہرسال 727 کروڑ روپیہ خرچ ہوتے ہیں۔یہ ساڑی پولسٹر کپڑے کی ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے ساڑی بنانے والے خاندانوں کو سال بھرکام ملتا رہتا ہے۔یہی نہیں جو لوگ اپنی پاورلوم فیکٹری کو ماڈرنائز کرنا چاہیں انہیں سازوسامان میں50 فیصد سبسبڈی دی جاتی ہے۔اس اسکیم سے 17ہزار لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔اسی طرح ایس سی/ایس ٹی طلبہ کے لئے 104اوراقلیتی طلبہ کیلئے 206 رہائشی اسکول اورڈگری کالج تعمیر کئے گئے۔اس اسکیم پر ایک ہزار836کروڑ روپیہ صرف ہوئے۔
اس کے علاوہ کھیتی کے لئے فی ایکڑ 8000 روپیہ سالانہ کی اسکیم وضع کی گئی۔اس سے 50لاکھ کسانوں نے فائدہ اٹھایا اور اس پر12ہزار کروڑ روپیہ خرچ ہوئے۔اسی طرح بھیڑ Sheep پالنے والی دوقوموں گولا اورکروما کے ہر فرد کوروایتی طرز پر زندگی گزارنے کیلئے مفت بھیڑیں دی گئیں۔ اس پر 12ہزار کروڑ روپیہ صرف ہوئے۔یہی نہیں ان بھیڑوں کے لئے مفت چارہ بھی فراہم کیا گیاجس پر 66 کروڑ روپیہ صرف ہوئے۔ماہی گیروں کے لئے 50cc کی موٹر سائیکل اور Pickup گاڑی کا نظم کیا گیا اور 50-50 ماہی گیروں پرمشتمل سوسائیٹیوں کو ایک ایک گاڑی دی گئی۔ان گاڑیوں میں خصوصی BOX لگاکر دئے گئے تاکہ مچھلی پکڑنے سے لے کربازارمیں پہنچانے تک مچھلیاں تازہ رہیں۔اس سے تین لاکھ لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔تنہا زندگی گزارنے والی خواتین کے لئے فی کس ایک ہزار روہیہ ماہانہ وظیفہ رکھا گیا۔اس سے ایک لاکھ 25ہزار736مطلقہ یا کنواری رہ جانے والی خواتین کو فیض پہنچا ۔۔۔مکھی اور مچھر کے کاٹنے سے ایک خاص بیماری Filaria میں مبتلا ہوجانے والوں کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ دیا گیا۔اس سے 13ہزار 84مریضوں نے فائدہ اٹھایا۔ ایک اسکیم کلیان لکشمی اور شادی مبارک کے نام سے وضع کی گئی۔اس کے تحت شادی اور نکاح کے لئے فی لڑکی ایک لاکھ 116روپیہ دئے جاتے ہیں۔اس اسکیم کے تحت اب تک 40 لاکھ ایک ہزار899 لڑکیوں کو رقم دی جاچکی ہے۔ایسے 25ہزار حجاموں کو جو اپنی دوکان ماڈرن طرز پر بنانا چاہتے تھے ایک سے دولاکھ روپیہ کی مدد دی گئی۔۔۔
سن اسٹروک سے متاثر ہونے والے مریضوں کو 50 ہزار روپیہ دینے کی اسکیم کے علاوہ 100یونٹ ماہانہ سے کم بجلی استعمال کرنے والے تین لاکھ 35ہزار135خاندانوں کے بل معاف کئے گئے۔رمضان اور کرسمس کے دوران ساڑھے چار لاکھ لوگوں کو مفت کپڑے دئے گئے۔دس ایکڑ زمین پر دس کروڑ کی لاگت سے ایک کمیونٹی بھون کی تعمیر کی گئی جہاں ہر فرقہ اپنے تہوار کی تقریبات منعقد کرسکے۔مسجد کے ائمہ‘ موذنین اور مندرکے پجاریوں کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔اس سے 17ہزار تین سو امام اور پجاری فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی درجنوں اسکیمیں ہیں۔ میں نے ہندوستان کی کسی بھی ریاست کی فلاحی اسکیموں میں اس طرح کی اسکیمیں نہیں دیکھیں۔یہاں تک کہ مرکزی حکومت کی وزارت برائے اقلیتی امور کی اسکیموں میں بھی ایسی کوئی اسکیم نظر نہیں آئی۔ تلنگانہ حکومت نے مذکورہ بالاعوامی اسکیموں کے علاوہ مسلمانوں کی فلاح کے لئے جو مخصوص فیصلے اور اقدامات کئے وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔حالانکہ مذکورہ اسکیمیوں میں بعض ایسی ہیں جن سے زیادہ فائدہ مسلمانوں کو ہی پہنچا۔اب ایسی حکومت اور ایسی پارٹی کو فرقہ پرست اور عوام دشمن کہنے والوں کوکیا نام دیا جائے؟
میں پھر اعادہ کرتاہوں کہ مجھے کسی پارٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اس ملک کے ووٹر خود باشعور ہیں۔پچھلے تقریباً پانچ برس میں مودی حکومت اور امت شاہ کے شرپسندوں نے ملک بھر میں جو افراتفری مچائی ہے اس کی زد میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں۔راجستھان‘مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے نتائج اس کے شاہد ہیں۔لیکن میری تشویش کا پہلو یہ ہے کہ خود مسلمان من حیث الجماعت کیا کر رہے ہیں۔۔۔اویسی برادران کا طرز سیاست متشدد اور ملت کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں نے اویسی برادران کا کیا کوئی نفع بخش متبادل کھڑا کیا ہے۔۔۔؟
بہرحال یہاں کلیدی ذکرتلنگانہ راشٹر سمیتی کے قائد چند ر شیکھر راؤ کا چل رہا ہے۔۔۔اس ملک کے عام شہری چوروں اور خدمت گزاروں کا فرق پہچان گئے ہیں ۔۔۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو مطلوبہ اکثریت سے کہیں زیادہ سیٹیں دے کر انہوں نے یہ ثبوت دیدیا ہے۔۔۔پوری مرکزی حکومت‘وزیر اعظم‘بی جے پی‘کانگریس‘ٹی ڈی پی’ بایاں محاذ اور دوسری جماعتوں نے مل کر ٹی آر ایس کو شکست دینے کا ہر حربہ اپنایالیکن وہ تلنگانہ کے کجریوال کونہیں ہلاسکے اور خود انہیں ہی ذلت آمیز شکست کی دھول چاٹنی پڑی۔۔۔پورا ملک ایسے ہی کجریوالوں کی تلاش میں ہے لیکن 20 کروڑ مسلمانوں کی تلاش کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔۔۔عام مسلمان کی تو بات کیا خود اُن پُرجوش قائدین کا کوئی سراغ نہیں ہے جو ‘بی جے پی کے معاون’ اویسی برادران کو تلنگانہ سے باہر قدم نہ نکالنے کی وارننگ دے رہے تھے ۔۔۔






