طلاق ثلاثہ بل سے مسلمانوں کا کچھ نہیں ہونے والا!

 رضوان ریاضی 

آج مورخہ 31 دسمبر 2018 کو راجیہ سبھا میں تین طلاق پر بحث ہوگی جبکہ پورا ملک معاشی تنگی سے گیڈر کی طرح ہواں ہواں ہواں ہواں چلا رہا ہے اور وطن عزیز کے نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے دو وقت کی روٹی کے لیے چھوٹی موٹی نوکری کی خاطر آفسوں کا چکر لگا رہے ہیں۔ اس موضوع پر بحث کے لیے پارلیمنٹ میں وقت نہیں ہے حالانکہ یہ ملک کے لیے اہم مسئلہ ہے۔ جبکہ حکومت کے ایوان بالا میں آج تین طلاق بل لانے کے لیے وہ لوگ بحث کریں گے جو شرعی علوم میں طفل مکتب کا بھی درجہ نہیں رکھتے۔ چلیں کوئی بات نہیں، اس ملک میں ایسا ہی دیکھا جاتا رہا ہے کہ کم پڑھا لکھا زیادہ پڑھے لکھے پر حکومت کرتا ہے اور یہاں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی جاہلوں کو اپنا رہبر بنانے کے لیے ووٹ دینے قطار میں کھڑا ہوتا ہے۔

 یہ چبدی چبدی کے شوربے کیا تین طلاق کا بل نافذ کریں گے، سچ تو یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں کسی بھی صورت میں اپنے دین ہی کا قانون مقدم رکھتا ہے خواہ کسی بھی ملک میں ہو۔ ڈنمارک میں لاکھ کوشش کی گئی کہ مسلمان اپنا تشخص چھوڑ دیں، لیکن باوجودیکہ مسلم آبادی بہت کم ہے، انھوں نے اپنے گھروں میں اسلامی تعلیمات اور اصولوں کو زندہ رکھا۔ ہم تو ہندوستان جیسے عظیم ملک میں ہیں جہاں سیاسی خدمات سے لیکر ملکی تجارت تک مسلمانوں کا لامتناہی جال بچھا ہوا پے اور قانون مسلمانوں کے حق میں بھی ہے۔ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ طلاق بل بل بل بل بل کرتے کرتے خود ہی سب بل میں گھس جائیں گے اور مسلمان اپنے دین پر جیسے تھا ویسے ہی ہے اور رہے گا۔

اس بل سے نہ تو مسلمانوں کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ہندووں کو، اگر حکومت کو دلچسپی ہے تو وہ بڑبڑائے۔ اس حکومت نے تو حد ہی کر دی کہ پیشاب اور گوبر کے موضوع پر بحث کرتی ہے لیکن کبھی ملک کے نوجوانوں کے مسائل پر منہ نہیں کھولتی۔ ایسی احمق حکومت کے پاس پیشاب، گوبر، گائے ماتا، بھینس نانی، بیل بابا، سانڈ نانا کے علاوہ کچھ موضوع تو ہے نہیں۔

اس سے قبل بھی موجودہ حکومت میں کئی طرح کے لا ابالی ڈھنگ کے قوانین لائے گئے ہیں جن سے مسلمانوں کا کچھ نہیں ہوا۔ مرد اپنے ہی صنف یعنی مرد سے شادی کر سکتا ہے۔ کسی کی بیوی کسی کے ساتھ رات گزار سکتی ہے اور شوہر کچھ نہیں بول سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی شوہر دوسرے کی بیوی کے ساتھ گڑبڑ کرے اس کو گڑبڑ نہیں کہا جا سکتا۔ بھائی ان سب قوانین سے مسلمانوں کا کچھ فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان ہمیشہ سے اسلامی قانون کو ہی مانتے آیا ہے اور اس پر اس کا خاتمہ بھی ہوگا۔ اب جس کو یہ پسند ہے کہ اس کی بیوی پڑوسی کے ساتھ جائے، وہ اس قانون کا لطف لے اور عذاب الہی کو اپنے اور اپنے ملک پر مسلط کرے۔ ہم مسلمان پہلے بھی ایک قانون کو مانتے تھے اور آج بھی وہی قانون مسلمانوں کے لیے ہے اور قیامت کی صبح تک وہی قانون رہے گا۔

اب جبکہ سارا ملک ادھر ادھر کی بحث میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہے، یہ اچھا موقع ہے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں قبضہ کر لیں کہ تعلیم کسی کی بھی جاگیر نہیں، جتنی زیادہ محنت اتنی زیادہ کامیابی، اگلا دن ایسا آ رہا ہے کہ علمی اور صناعی قابلیت کی بنیاد پر روشن مستقبل تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سرکاری نوکریوں میں مسلمان تعصب کے شکار ہوتے ہیں لیکن یہ بھی حق ہے کہ اس تعصب کا شکار ہم سے زیادہ اہل وطن بھی اپنے درمیان ہی بھید بھاؤ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں نراش ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں جب علمی اور صناعی قابلیت ہوگی تو وہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیں گے۔

رہی بات پارلیمنٹ میں طلاق بل پاس کرانے نہ کرانے کی تو اب اس حکومت کے پاس ان جیسے غیر ضروری کاموں کے علاوہ بچا بھی کیا رہ گیا ہے۔

میں اپنے بھائیوں سے یہ بھی کہوں گا کہ اس متعصب حکومت میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ عدم رواداری سامنے آئی ہے، وہیں مسلمانوں کا ایک عظیم فائدہ بھی ہوا ہے۔ وہ یہ کہ اس حکومت کے ایام میں جتنا ہندوستانی مسلمانوں نے صبر و تحمل اور اتحاد کا ثبوت دیا ہے، اس سے قبل اس کی مثال کم ملتی ہے۔ اسی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ آج سارے مسلک والوں کے درمیان ایک دوسرے سے قربت ہوئی ہے اور سارے مسلک والے یکجا ہو کر پہلے کے مقابلے آج زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ کم سے کم جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے ایسا خوشنما منظر اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملا۔

(مضمون نگار ماہنامہ رہنما، نئی دلی کے ایڈیٹر ہیں)