معیاری تعلیم کی شمع روشن کرنا ہی مولانا اسرار الحق قاسمی کو اصل خراج عقیدت

کانسٹی ٹیوشن کلب میں دیوبند اولڈ بوائز اور وطن سماچار کی جانب سے منعقدہ تعزیتی اجلاس میں دگ وجے سنگھ، طارق انور، کے سی تیاگی، ای ٹی بشیر، الیاس اعظمی، ایم جے خان، مفتی اعجاز ارشد اور خالد انور سمیت متعدد قومی، ملی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی شرکت 

نئی دہلی: دیوبند اولڈ بوائز ایسوسی ایشن اور وطن سماچار کے زیراہتمام دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں معروف قومی و ملی رہنما اور رکن پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں کانگریس پارٹی کے قد آور رہنما دگ وجے سنگھ، طارق انور، ای ٹی بشیر، کے سی تیاگی، الیاس اعظمی ،علی انور انصاری، صابر علی، مفتی عطاء الرحمن قاسمی، پپو یادو، منوج چودھری، خالد انور ایم ایل سی، ساجد چودھری ،حکیم ایاز الدین ہاشمی، حاجی عمران انصاری، ڈاکٹر ایم جے خان، بدرالدین خان ، مولانا مطیع الرحمن مدنی، عمران قدوائی، بلال احمد یوتھ کانگریس، مولانا اعجاز عرفی قاسمی، مفتی قاسم نوری، ڈاکٹر تسلیم رحمانی، انجینئر محمد اسلم علیگ، صابر عالم قاسمی، قاری اسجد زبیر، مولانا نوشیر، منظر امام، گوتم وگ، یاسین جہازی اورعظیم اللہ صدیقی قاسمی سمیت بڑی تعداد میں ملکی و ملی ، سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اپنے محبوب لیڈر مولانا اسرارالحق قاسمی کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کی۔

اس موقع پر مقررین نے کہاکہ مولانا ایک زندہ دل ولی تھے۔مولانا نے ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر کبھی بھی اپنی طاقت اور قوت کا اعتراف نہیں کرایا ۔ اس وقت جب کشن گنج کو جلانے کی کوشش ہوئی تب مولانا اپنی ذات کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کے بیچ میں چلے گئے، باوجود اس کے کہ ان کی داڑھی نوچی گئی انہوں نے کبھی کسی سے قصاص نہیں لیا اور ہمیشہ عفوو درگذر کی تعلیم دیتے رہے جو انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی تھی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ مولانا تعلیم و تعلم کے میدان میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کے قیام کے لئے انہوں نے طارق انور سمیت دیگر قومی رہنماؤں کے ساتھ مل کر جو قربانی دی وہ تاریخ کے زرین صفحات کا ایک نمایاں باب ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے جمعیۃ علماء ہند، ملی کونسل اور پھر ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن کے بینر تلے جو خدمات انجام دی ہیں وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہمیں مولانا اسرارالحق اکیڈمی بنا کر ان کے کارناموں کو زندہ و جاوید رکھنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مولانا نے ایک ادیب ایک عالم دین، ایک مفکر اور اعلیٰ درجے کے ولی کامل تھے جو ریا و نمود کو بالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی خود نمائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا نے علماء کے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ کس طرح سے وہ سادہ لوحی کی زندگی گزاریں اور ان کا شعار کیا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم مولانا نے تعلیم نسواں کے میدان میں جو پیش رفت کی تھی اور جس طرح سے وہ ملک کے کونے کونے میں معیاری تعلیم کے ساتھ مدارس اسلامیہ کا جو جال دیکھناچاہتے تھے اسے ہم قائم کرنے کی سعی مسعود کریں اور یہی ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے تاکہ کوئی بھی فرد تعلیم کے زیور سے محروم نہ رہ جائے ۔ پروگرام کی نظامت دیوبند اولڈ بوائز کے صدر مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے کی جبکہ شکریہ کے کلمات وطن سماچار کے ایڈیٹر محمد احمد نے ادا کئے، جبکہ معروف بین الاقوامی اسکالر شیخ صلاح الدین مقبول کی دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔