آمنہ احسن
کچھ موضوع ایسے ہوتے ہیں،کہ ان پر لکھنے کو دل کو کرتا ہے،پر قلم ساتھ نہیں دیتا ۔کچھ ایسی ہی کیفیت ہے میری دو ، تین دن سے جس بھی موضوع پر بھی لکھنے بیٹھوں ناکام ہی رہتی ہوں ۔ارد گرد کے حالات سے پریشان ، سوچ میں گم ۔خود سے پوچھتی رہتی ہوں کہ ہمارا معاشرہ ، ہم سب اتنے بے حس کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ ہمیں کہاں جانا تھا ، اور ہم کس سمت چل پڑے ہیں؟کچھ دن پہلے علیشا نامی کے ایک خواجہ سراہ کو 8 گولیاں ماری گئی ، اور اس پر ستم یہ ہوا کہ جس ہسپتال میں اسے زخمی حالت میں لے کر جایا گیا ، وہاں ڈاکٹر سے لے کر نرس تک کوئی بھی اس کے علاج میں دلچسپی لیتا نظر نہیں آیا ۔کوئی دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ خواجہ سرا ہوتا کیا ہے ؟ اور کوئی اس سوچ میں تھا کہ علیشا ڈانس کیسا کرتی ہے ۔زخموں کی تاب نہ لانا تو بہانہ ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ علیشا کو ہمارے مردہ رویوں نے ہمارے بے حس معاشرے نے مار ڈالا ۔خیر ابھی میں یہ ہی سوچ رہی تھی کہ علیشا اور اس جیسے باقی لوگ کب تک ہماری بے حسی کا شکار ہوتے رہیں گے کہ پرسوں رات پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک بل پیش کیا ، جو غالبا تحفظ نسواں بل کا جواب تھا ۔اس بل کے مطابق ، اسلام آپ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ آپ اپنی بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کر سکتے ہیں ۔مزید کہتے ہیں کہ بیوی کو اتنا مارے کہ ہڈی نہ ٹوٹے ۔کل سارا دن اس بل پر لوگوں کے تاثر دیکھتی رہی ، کچھ دوستوں نے اس کا مذاق اڑایا ، کچھ نے مذمت کی اور کچھ نے تائید کی ۔جہاں تک میرا سوال ہے تو میں نہ تحفظ نسواں بل کے حق میں تھی ، نہ نظریاتی کونسل والوں کی طرف سے پیش کیے گئے بل سے مجھے کوئی سروکار ہے ۔میاں بیوی کا رشتہ محبت اور عزت پر قائم ہوتا ہے ، ذرا سوچیں اگر اس رشتے میں مقدمے اور عدالت آجائے تو کیا یہ رشتہ خوبصورت رہ پائے گا ؟۔۔بالکل بھی نہیں ۔میرے خیال میں ہم سب کو ایک قوم کی حیثیت سے ان بلز کی ضرورت نہیں بلکہ counseling کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے ، ایک دوسرے کی بات سننے اور اختلاف ہونے پر بات برداشت کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا ۔
ملت ٹائمز کے خصوصی شمارہ’’ مسجد اقصی نمبر‘‘ کا ٹیرف کارڈ
یہ جو عدم برداشت دن بدن بڑھتی جارہی ہے ، اس پر قابو پانا ہوگا ۔بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کو،اسکے گھر والوں کو عزت دیں ۔اور مرد کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کو عزت اور پیار دیں اس کا مقام دیں ۔یہ کیا کہ پہلے یہ فیصلہ ہو کہ شوہر کو ہاتھ اٹھانے پر گھر سے باہر نکال دیا جائے یا بیوی پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دے دی جائے ؟اور اس پر یہ ستم ظریفی کہ یہ سب اسلام کے نام پر کیا جائے کہا جائے کہ عورت پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت ہے ۔اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے آیات بھی سنائی جائیں ۔ہم ایک قوم کی حیثیت سے اتنے گر چکے ہیں کہ مذہب کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے نہیں گھبراتے ۔وہ لوگ جو اسلام کی تعلیمات پر %1 بھی عمل نہیں کرتے وہ بھی اس بل کی حمایت میں قرآن کی آیات سناتے ہوئے نظر آئے ۔کیوں ؟ کیونکہ آپ اپنی بیوی کو کسی نہ کسی طرح ڈرا سکے ؟ کبھی سوچا ہے آپ سے مار کھانے والی عورت بیشک آپ سے بے پناہ ڈرے گی ، پر عزت وہ آپ کی کبھی نا کر سکے گی ۔بیوی کی تو خیر پروا کسی کو نہیں ، کبھی اپنی اولاد کا سوچے ، کیا کبھی بچے ایسے باپ سے محبت کر پاتے ہیں جو ان کی ماں کو پیٹتا ہو ؟ ہرگز نہیں ۔اس کے علاوہ معاشرہ آپ کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ آپ کے پیچھے کوئی بھی آپ کی عزت نہیں کرتا ۔ ظاہر ہے جو شخص اپنی بیوی کو انسان نا سمجھے ۔لوگ اسے کیوں انسان سمجھے ؟اور وہ لوگ جو دو دن سے مذہب کی اڑ میں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں ، ہمیں آیات پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں ، ان سے ایک سادہ سا سوال ہے ،
ہماری پیارے نبی ﷺ نے 11 خواتین سے عقد کیا ، کوئی بتائے گا ان 11 خواتین میں سے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کس پر ہلکا پھلکا تشدد کیا ؟
کسی پر بھی نہیں ، انہوں نے اپنے گھر کی ہر عورت کو عزت دی ، پیار دیا اور ہم سب کو بھی یہی کرنے کا حکم دیا ۔
اس لئے آیندہ مذہب کے نام پر اپنی غلاظت صاف کرنے کی کوشش نا کرے ۔یہ معاشرہ جو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ بیوی کو مارنا ہے یا نہیں مارنا ، ہم بھلا خواجہ سراؤں کو عزت کیوں دے گے اور کیسے دے گے ؟ مجھے بتائے علیشا کی بات کس سے کروں؟ کیسے کروں ؟ جہاں میں خود محفوظ محسوس نہ کرو وہاں دوسرے کے لئے تحفظ کیسے مانگوں ؟
خدارا عزت کیجئے رشتوں کی یا صنف کی نہیں بلکہ انسانیت کی۔(ملت ٹائمز)
(مصنفہ کا تعلق پاکستان سے ہے جو حقوق نسواں پر عموما لکھتی ہیں)