ندشوں میں جکڑی والدین کی محبت!!!!!!

سیدہ تبسم منظور
   بیٹی !! خوشبو ہے۔۔۔ ہوا کا جھونکا ہے۔۔۔۔نرم ونازک کلی ہے۔۔۔۔پھولوں کی مہک ہیں۔۔۔۔ وفاؤں جیسی ہیں۔۔۔ تپتی زمین پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں۔۔۔ دل کے زخم مٹانے کو آنگن میں اتری شبنم کی بوندوں کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔۔بیٹیاں رنگ برنگی تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔چڑیوں کی طرح چہکتی ہیں ۔۔۔۔بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں۔۔۔۔بیٹیاں ان کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں ۔۔۔۔بیٹیاں تو دعاؤں جیسی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ہر روپ میں رحمت ہیں ۔۔۔۔۔پیار۔۔۔محبت ۔۔۔ایثار ۔۔۔قربانی کا بے لوث خزانہ ہیں بیٹیاں!!!!!! یہ تو ہم بیٹی کی تعریف میں کہتے اور پڑھتے بھی ہیں ۔مگر کیا حقیقت بھی یہی ہے؟؟؟؟؟؟ شاید نہیں!!!!!
  لڑکے اور لڑ کیاں، یعنی اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت سے ایسا نظام قائم کیا ہے کہ مرد و عورت دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ دور جہالت میں لوگ بیٹی کی پیدائش پر بیٹی کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ یہ ظلم صرف عرب ممالک تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ پوری دنیا میں یہی حال تھا مگر جب ہمارے نبی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو اس طرح کی تمام رسومات کا خاتمہ فرمایا ۔ اور بیٹیوں کی پرورش پر جنت واجب کر دی۔
  نیا دور۔۔۔۔ ٹیکنالوجی کا زمانہ۔۔۔۔۔۔ہر چیز شوشل میڈیا پر موجود ہے۔آہستہ آہستہ معاشرہ ترقی پر گامزن ہے۔پر آج بھی بہت سارے والدین کی سوچ نہیں بدلی ہے۔ کہیں نہ کہیں بیٹی کو پرایا دھن اور بوجھ ہی سمجھا جاتا ہے۔۔۔اسے گھر میں رکھو دوسرے کے گھر جانا ہے یہ سب توہم میں سے بہت سوں نےاپنے بڑوں سے بھی سنا ہے۔ آج بھی کئی شہروں اور گاؤں میں پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو چہار دیواری کے اندر رکھنا ہی اپنی عزت اور شان
سمجھتے ہیں ۔ یہ تو دستور ہے زمانے کا کہ ایک بیٹی کو اپنے والدین کا گھر چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بیٹے اور بیٹی میں فرق کیوں کیا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک بیٹا سہارا بن سکتا ہے اور بیٹی نہیں بن سکتی ۔۔۔۔ اگر ہم تھوڑا سا غور وفکر کریں کہ ہم بیٹے اور بیٹی کی پرورش میں کیا فرق رکھتے ہیں تو ہمیں خود ہی سمجھ آجائے گا۔بیٹا جو کرنا چاہے کرسکتا ہے۔۔۔۔جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے۔۔۔۔جو پہننا اوڑھنا چاہے پہن اوڑھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔ جتنے دوست احباب بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔ اس پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ چاہے جو بھی ہو وہ تو لڑکا ہے!!!! لیکن ہم بیٹی کو گھر سے باہر نکلنے دیتے ہی نہیں ۔۔۔۔وہ اپنی مرضی سے کچھ کر ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔نہ اپنی مرضی سے پہن اوڑھ سکتی ہے۔۔۔۔ نہ دوست بنا سکتی ہے۔ہم بیٹی کو پیار تو بہت کرتے ہیں …مگر اس کے پنکھ کاٹ کر اس سے کھلی ہوا میں سانس لینے کا حق چھین لیتے ہیں۔ پیار کے نام پر گھر کی چار دیواری میں جکڑ کے رکھتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جیسے کسی چڑیا کو سونے کے پنجرے میں رکھ دیا ہو۔ہر وقت اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ایک لڑکی ہے۔۔۔۔کمزور ہے اسے احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔۔۔ تو اس لڑکی میں خود اعتمادی کہاں سے آئیگی؟؟وہ  باہر کے ماحول سے کیسے آگاہ ہوگی؟؟اور اس میں قوت فیصلہ کیسے پیدا ہوگا؟؟
بیٹے کی توہم حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے  اور وہ سارے کام کر سکتا ہے۔ اور باہری کام لڑکے کو ہی کرنے چاہیے۔ اگر بیٹا گھر میں بیٹھے تو ہم اسے زور زبردستی سے گھر سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ وہی اگر بیٹی گھر سے باہر جانا چاہے تو ہم ہزار سوال کرتے ہیں اسے جانے سے روک دیتے ہیں بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کرا دیتے ہیں۔کیوں اس کا حوصلہ نہیں بڑھایا جاتا؟؟؟ حد تو یہاں تک ہوتی ہے کہ یہ سب ہم اس کے تحفظ کے نام پر کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو جتنے خطرے ایک لڑکی کے لیے ہوتے ہیں اتنے ہی خطرے لڑکے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ بیٹی کے تحفظ کے نام پر ہم اپنی بیٹی کو کمزور اور ڈرپوک بناتے جاتے ہیں۔ ہم اپنی بیٹی کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ وہ خود اپنی حفاظت کر سکے۔ بیٹی کی حفاظت ضرور کریں مگر ان کے ساتھ کھڑے رہیں ۔انہیں خود سے کچھ کرنے کا موقع دیں ۔تحفظ اور پیار کے نام پر بیٹیوں کو قیدی نہ بنائیں۔ہر کیسی کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا تھوڑا تو حق ہونا ہی چاہےنا!!!
  افسوس ہوتا ہے کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہر کام میں مرد کی مردانگی سے مشابہت دی جاتی ہے۔۔۔ وہ معاشرہ جہاں مرد کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہےاور لڑکی کو صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جس چیز  پر مرد ہاتھ رکھ دے وہ فقط اسی کی مان لی جاتی ہے۔ اس معاشرے میں اگر کسی کو سب سے زیادہ اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے تو وہ اس معاشرے میں رہنے والامرد ہے۔ایسا کیوں؟؟؟ عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق تو دور کی بات ہے وہ تو کھلی ہوا میں سانس تک نہیں لے سکتی۔ مرد کو زمانے کے رسم و رواج ہی نہیں خود اس کے گھر کی عورتیں بھی اس کی ضد، جھوٹی انا اور ہٹ دھرمی پر اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ زندگی میں کئی بار وہ خود بھی کئی موقعوں پر مردوں کے مقابلے میں ذلت ، حقارت اور کمتری کا نشانہ بنی ہوتی ہیں ۔کہیں اگر اسی مرد کی کسی بات پر عورت نے انکار کردیا تو گویا مرد کی مردانگی کو چیلنج لگتا ہے.کیوں ہوتا ہے ایسا؟؟؟بیٹیوں کو بھی اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو نکھارنے کا موقع دیں ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ آخر ایک بیٹی کو محبت کے نام پر یہ بندشیں کیوں دیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
SHARE