سیمیں کرن
یتیمی کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگر صاحبو! دراصل یہ ایک کیفیت ہے اور یہ کیفیت جب دل کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو پھر یہ قبر تک جان نہیں چھوڑتی یہ حزن آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے مختلف شکلیں اور روپ دھارتا ہے مگر پیچھے وہی ظالم کیفیت کارفرما ہوتی ہے۔
بہت سے زخم ادھڑے پڑے ہیں، ساری فلم انکھوں کے آگے پھر سے چل رہی ہے جب یتیمی نے مرے دروازے پہ دستک دی تھی، وہ لاہور سے ماموں کی شادی میں شرکت کی مہینوں سے چلتی تیاریوں کے بعد ہماری گاڑی فیصل آباد کے لیے روانہ ہوئی جس میں زندگی کرتا کھیلتا مسکراتا پورا خاندان سوار تھا اور پھر کھڑلیا نوالہ کے پاس بدترین ایکسیڈنٹ جس میں میری ماں کو بدترین چوٹیں آئیں۔ تب ہاں تب یتیمی ہمارے دروازے پہ ہلکی سی دستک دے رہی تھی۔
وہ ان دیکھی انہونی سی چاپ شاید میرے دل پہ پڑتی تھی جو مرے آنسو تھمتے ہی نہیں تھے، وہ چالیس دن میری آنکھوں نے خشک رہنے کے سارے سبق بھلا دیے اور پھر جس دن ماں چلی گئی یتیمی ہمارے گھر دستک دے کر ہمیشہ کے لیے مکین بن کر داخل ہوگئی میں نے خود کو دیکھا اور اپنے ساتھ جنمے ماں جایوں کو، یہ راتوں رات کیا ہوا تھا ہمارے چہروں کو، دنیا کو، لوگوں کو، رویوں کو، ہم ایک دم سے محرومیوں کی صف میں کھڑے تھے اور پھر چار سال بعد جب ہمارا باپ بھی کچھ کہے بغیر اپنی ہمسفر کے پہلو میں جا سویا تو یتیمی کی کیفیت ہمارے گھر کی حاکم بن گئی یہ بین ڈال ڈال کر ہمارے گھر کی ویرانی پہ روتی تھی، دیواروں سے لپٹتی تھی، ہم سب شل بازؤوں، منجمند جسموں کے ساتھ کونوں کھدروں میں دبکے رہتے اور رات کو گھر میں کوئی روشنی کرنے والا نہ ہوتا، اندھیرا اور یتیمی مل کر ہمارے ساتھ روتے۔
آج واقعہ ساہی وال کے ان معصوموں کو دیکھ کر میرے اپنے سارے زخم ہرے ہوگئے ہیں کیونکہ ننھا عمیر اور وہ چھوٹی چھوٹی پریاں ان کے چہروں پہ وہی کیفیت دھند کی طرح پھیلی دیکھی ہے جس نے ان کے چہروں کو بالکل دھندلا دیا ہے۔ وہ کچھ بھی نہ بولیں تو بھی لہو کے چھینٹے چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ یہ یتیموں کے چہرے ہیں جن کا قافلہ سرراہ بری طرح لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ کوئی مشیت خداوندی نہیں تھی جس پہ شاید صبر و مرہم کو ئی حیلہ و وسیلہ ہوتا۔ یہ ریاست مدینہ کے جغادری سپاہی تھے جنھوں نے ایک ہنستا کھیلتا خاندان خون میں نہلا دیا مجھے یاد ہے کہ اس حادثے کے بعد ایک عرصہ تک ہم لوگ گاڑی میں سفر کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ آج ہول پڑتا ہے چین نہیں آتا کہ یہ بچے آج کے بعد سوئیں گے کیسے، ان معصوموں کے زندگی پہ اعتبارات کیسے قائم ہوں گے۔
اس ریاست مدینہ کو اور اس کے اہل کاروں کو کیا وہ معاف کر پائیں گے؟
کل کو ننھا عمیر کسی غلط رستے پہ چل پڑا، اک یتیم بچہ بگڑ گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
آپ کے پاس کل معقول بہانہ ہوگا اسے مار دینے کا؟!
آپ نے دراصل زیادہ ظلم یہ کیا کہ ان تین معصوموں کو زندہ چھوڑ دیا عبرت بنا کر، ان کو بھی مار دیتے، آپ کے جھوٹ مکر و فریب کی کاٹھ کی ہنڈیا یوں چوراہے پہ تو نہ پھوٹتی۔
عباس تابش نے شاید آج کے لیے ہی کہا تھا
تو پرندے مار دے، سرو صنوبر مار دے
تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے
کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ نے معصوم چڑیوں جیسے پرندے شکار کیے ہیں؟
اور وہ جو آپ کا نشانہ چوک گیا ہے تو وہ تین ننھی چڑیاں شاید اب کبھی پرواز نہیں کر پائیں گی۔
میں ان اہلکاروں کی ” مردانگی “ پہ بھی عش عش کر اٹھی جو گاڑی میں یہ سجی سنوری ایک جیسے کپڑے پہنے گڑیاں نہ دیکھ سکے ننھے ہاتھو ں میں فیڈر شاید میزائل لگا ہوگا، اور مار دینے کے بعد گاڑی سے سامان کے سوٹ کیس منتقل کیے جارہے ہیں، کیا ان سورماؤں کو اسی وقت یہ اندازا نہیں ہوگیا تھا کہ ان سے بھیانک غلطی و جرم کا ارتکاب ہوا ہے؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی انسان نہیں تھا؟ کوئی ایک آدمی؟ جو غلطی کا ادراک کرکے اپنے جرم کی نوعیت کا اندازا کرکے وہیں اپنے پستول سے اپنا بھی خاتمہ کرلیتا؟
بہت پڑھا ہے سنا ہے کہ جہاز ڈوبے تو کپتان خود کشی کر لیا کرتے ہیں، امریکی و مقبوضہ کشمیرمیں فوجیوں میں ظلم دیکھ دیکھ کر خود سوزی بڑھ گئی مگر شاید یہ کافروں کی ایمان افروز باتیں ہیں، ریاست مدینہ میں ایسے موقع پہ ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ خوفناک دہشت گرد ہلاک کردیے، بیانات بدلے جاتے ہیں مگر خون ناحق ایسا ہے کہ ٹپک ٹپک جاتا ہے، وہ دیکھیے صاحب آپ کے دانتوں سے رس رہا ہے جھوٹ بولنے سے پہلے شاید آپ آئینہ دیکھ کر منہ پونچھنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے آپ کو اس نئے نشے میں یہ بھی نہیں یاد رہا کہ ہمارے ہاں میتوں کا پرسہ دینے کو پھول نہیں لے جائے جاتے۔