یوم جمہوریہ: کثرت میں وحدت کا پیغام

اے آزاد قاسمی 

15؍ اگست 1947کو مجاہدین آزادی کی ناقابل فراموش جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد ہمارا یہ ملک آزاد ہوا۔ ایک طویل اور صبرآزماں جدوجہد کے بعد ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت ملی کسی بھی ملک اور باشدگان ملک کیلئے آزادی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک کی آزادی میں جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کی قربانیاں شامل ہیں، وہیں جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی سرگرم شمولیت اور قربانیاں بھی کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔ پہلے ملک کی آزادی کے حصول کی خاطر اور بعد ازاں جمہوریت کے قیام کیلئے ملک کے مسلمانوں اور علماء کرام نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا اور جس انداز میں یہاں کے مسلمانوں کی جاں فشانی، حریت، شہادت اور قربانیاں شامل تحریک رہیں، اُن کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہاں کے مسلمان آزادی کے حصول اور جمہوریت کے قیام کی تحریک میں ہر ہراول دستہ کے طور پر شامل رہے۔ کیونکہ ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار ایک قائد ، لیڈر اور رہنماء کی رہی بایں وجہ کہ ظالم انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے غصب کیا تھا اور یک لخت اسے حاکم سے محکوم بننا پڑا تھا، اس لئے غلامی کے داغ کو مٹانے کیلئے اصل لڑائی بھی انہیں کو لڑنی پڑی تھی ۔ 

دورِ فرنگی سے نجات حاصل کرنے کے بعد مجاہدین آزادی نے یہ ضروری سمجھاکہ جمہوری طرز حکومت کے قیام کیلئے ایک متوازن اور جامع آئین مرتب کیا جائے۔ چنانچہ اس وقت کے بااثر اور دور اندیش قانون ساز افراد کی ایک ٹیم کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں آئین سازی کی ذمہ داری سپرد کی گئی، جس کی تیاری کے بعد اِسے دستور ساز اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا اور یوں قانون ساز اسمبلی نے 26؍ جنوری 1950 کو جمہوریہ ہند کے آئین کے نفاذ کو ہری جھنڈی دی۔اس طرح 26 جنوری 1950 کو باضابطہ دستور ہند کا نفاذ عمل میں آگیا اور تب سے اب تک جمہوری طرز حکومت ہمارے یہاں قائم ہے ۔

معمارِ آئین کی جانب سے تیارکردہ ایک ایسا جمہوری نظام یہاں قائم ہے، جس میں ہر ایک کو اس کے مذہب، طور طریقوں اور علاقی رسم و رواج اپنانے کی پوری آزادی حاصل ہے، جس کا خواب ہمارے اکابر ین اور مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا۔ اس دن کی اہمیت ہمارے لئے بایں معنی بھی بے حدخاص ہے کہ یہی وہ دن ہے جو آزادی اور جمہوریت کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ آج کے دن کو پورے ملک میں یوم عہد کے طور پربھی منایا جاتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس دن کو یاد کرکے اپنے آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی طور ہم اپنے اس عظیم دستور اور آئین پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور اس کی حرمت کی پوری پوری حفاظت کریں گے۔ فی الواقع آج کا دن ہمارے بزرگوں کی لافانی کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں ملنے والی جمہوریت ، جامع اور مکمل آئین ایک انمول وراثت ہے۔ ایک ایسا جامع اور مکمل دستورجس کے اندر بنیادی انسانی حقوق کو اولیت دی گئی ہے ، نیزجزبہ حب الوطنی کو فروغ دینے اور آپسی اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے کیلئے اخلاقی پاسداری کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، تاکہ ہمارا یہ ملک وحدت میں کثرت کی مثال بن سکے ۔

ہمارے ملک کو آبادی کے لحاظ سے بھی دنیا کی سب سے بڑی پارلیمنٹری اور غیرمذہبی جمہوری ملک ہونے کا شرف حاصل ہے۔ہمارے ملک کا آئین ایسا جامع اور مکمل ہے جس میں ملک میں بسنے والے شہریوں کو اپنی حکومت منتخب کرنے کیلئے بااختیار بنایا گیا ہے، ہر ایک کو آزادی رائے اور آزادی خیال کی مکمل اجازت دی گئی ہے اور اس کی شخصی تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ دستور ہند میں ملک میں بسنے والے اقلیتوں اور پسماندہ لوگوں کو بھی پوری پوری آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی ثقافت کی ترویج و اشاعت کیلئے علیحدہ اسکول ، کالج ، انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور دستور میں دیئے گئے حق سے فائدہ اٹھائیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں، آئین ہند میں ملک میں بسنے والوں کیلئے شخصی آزادی کو بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے جسے متعدد دفعات کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ملکی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی بھی شخص کو اسی وقت سزاکا مستحق قرار دیا جائے گا، جب اس پر لگایا گیا الزام قانون کی نگاہ میں جرم ہو پھربھی اس شخص کو اپنی صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کیلئے پورا پورا موقع دیا جائے گا، ملک کی حکومت، کابینہ اور قانون ساز اسمبلی کوکسی بھی فیصلہ کیلئے جوابدہ بنایا گیا ہے۔ اس میں اس بات کا بھی برملا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ البتہ مذہبی آزادی کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی۔اس کے علاقائی رسم و رواج اور مذہبی آزادی کی بھی پوری پوری حفاظت کی جائے کی۔ 

آئین ہند میں جہاں یہ کہا گیا کہ یہ ملک ایک سیکولر غیر مذہبی جمہوریہ ہوگا وہی اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ہر ایک کو اس کی مرضی اور پوری آزادی کے ساتھ مذہبی فرائض اداکرنے کی اجازت ہوگی۔ کسی کے ساتھ اس کے مذہب ، اس کے کلچرل ،رنگ ونسل، اور لسانی اقلیت و اکثریت کے بناء پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جائے گا۔ ہر ایک کو اس بات کی پوری پوری اجازت ہوگی کہ وہ دستور میں تفویض کئے گئے دائرہ میں رہ کراپنے اپنے مذہب کی تبلیغ و تشریح کرسکتا ہے۔ یعنی آزادی ہند کے متوالوں نے آزادئ ہندکے فوراً بعد ایک ایسا جامع اور مکمل آئین ہمیں عطاء کیا، جس میں کئی دفعات ایسے ہیں جو انسانی وقارکے ساتھ جینے اور انسانی ضروریات کے ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے جو زندگی کو ’’ بامعنی، مکمل اور قابل زیست بناتے ہیں شامل ہیں ، جس کے ذریعہ سب کے ساتھ مساوات اور عدم تفریق کی گنجائش نکالی گئی ہے،جس پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے اور کیوں نہ ہو۔ہمیں چاہئے کہ ہم دنیا کی اس سب سے بڑی ضخیم تحریری دستور کے تحفظ اور فروغ کے لئے ایک ایسے جامع ایجنڈے کو ترجیح دیں جس سے ہمارے اس پیارے ملک میں جمہوریت اور جمہوری قدروں کی جڑیں اور مضبوط سے مضبوط تر ہوں۔

اسی خوشی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پورا ملک ایک ساتھ اپنے اپنے طور پر مجاہدین آزادی اور شہیدان وطن کو خراج عقیدت پیش کرتاہے اور ملک کے تئیں ان کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہر گلی، محلہ ، گاؤں قصبہ اور شہر میں آج کے دن کوقومی تہوار کی شکل میں منایا جاتا ہے، مختلف طرح کے کلچرل پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ، اسکولوں، کالجوں، اہم اداروں، انسٹی ٹیوٹ اور مدارس وغیرہ میں چراغاں کئے جاتے ہیں۔ پرچم کشائی کے بعد بچوں کے درمیان کئی طرح کے مسابقتی پروگرام رکھے جاتے ہیں اور میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دیارِ غیرمیں مقیم ہندوستانی بھی اس دن کو بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور آنے والی نئی نسلوں کو اس دن کی اہمیت و ضرورت سے روشناس کراتے ہیں ۔

سرکاری طور پر یوم جمہوریہ کا سب سے بڑا اور پروقارپروگرام نئی دہلی میں منعقد ہوتا ہے۔ راج پتھ سے انڈیا گیٹ تک اور لال قلعہ سے ’ امرجوان جیوتی ‘ تک جشن میں عوام و خواص کی شمولیت دیکھی جاتی ہے۔ وزیراعظم اس موقع پر شہداء کو یاد کرتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کا پروگرام راج پتھ پر صدر جمہوریہ ہند کی صدارت اور قیادت میں شروع ہوتا ہے، جس میں قومی پرچم کشائی اور سلامی کے بعد تینوں فوجیوں کے جوان صدر کو سلامی پیش کرتے ہیں اس کے بعد مختلف طرح کے ثقافتی پروگراموں کے ذریعہ فوجی طاقت کابھی مظاہرہ کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگ انڈیا گیٹ کے اطرف میں کھڑے ہوتے ہیں اور اس تاریخی پل اور ثقافتی ورثہ کا حصہ بنتے اور اس قومی جشن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوم جمہوریہ کی تقریبات کا جو سلسلہ 26 ؍جنوری کی صبح شاہراہ راج پتھ سے شروع ہوتا ہے، 29؍ جنوری کو وجے چوک پر صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ اختتام عمل میں آتا ہے جس میں تینوں فوجی ٹکریوں کے ساتھ ، بینڈ باجے ، ساز اور ثقافتی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں، صدر جمہوریہ ہند کی آمد پر فوجیوں کے ذریعہ سلامی دی جاتی ہے، قومی ترانہ جن گن من گایا جاتا ہے اور ملٹری بینڈ اور مختلف فوجی ٹکریوں کے ساز بجائے جاتے ہیں اور آخر میں ترانہ ہند ی ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ گایا جاتا ہے ۔

ملک کی خود مختاری، اس کی سالمیت اور تحفظ کے عہد و پیماں اور نئی امنگوں اور نئی آرزوؤں کے ساتھ اس اہم تقریبات کو الوداع کہہ دیا جاتا ہے کہ: 

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا 

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

مذہب نہیں سیکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا 

abdullahaqasmi@gmail.com

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں