ایسے اندازے لگائے گئے یں کہ سعودی عرب بھی بیلسٹک میزائل کے آزمائشی تجربات میں مصروف ہے۔ اس تناظر میں اس شبے کو تقویت بعض سیٹلائٹ تصاویر سے حاصل ہوئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل سازی کے پروگرام کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک سابقہ بیان سے وزن ملتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران اپنے میزائل سازی کے سلسلے کو موقوف نہیں کرتا تو ا±ن کا ملک بھی بیلسٹک میزائل سازی کا پروگرام شروع کر سکتا ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ سعودی عرب میں ایک فوجی اڈے پر بیلسٹک میزائلوں کے تجربات اور امکاناً پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ دارالحکومت ریاض سے 230 کلومیٹر مغرب کی طرف واقع شہر الدوادمی کے قریب واقع اس فوجی اڈے کی تصاویر کے بارے میں سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہرمونیٹری میں واقع مِڈلبری انسٹیٹیوٹ برائے انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئیس کا خیال ہے کہ میزائل سازی کے اتنے وسیع پراجیکٹس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کو ایک طرح سے جوہری ہتھیار سازی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جیفری لوئیس نے یہ بیان سیٹلائٹ امیجز کا مطالعہ کرنے کے بعد دیا۔ ا±ن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک سعودی حکومت کی دفاعی صلاحیتوں کا اندازہ کم لگایا گیا ہے۔
فاعی ماہرین کی رائے ہے کہ سعودی عربں ایک فوجی اڈے پر بیلسٹک میزائلوں کے تجربات جاری رکھے ہوئے ہے
تازہ تصاویر کے حوالے سے واشنگٹن کے بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز سے وابستہ مائیکل ایلیمین نے بھی اندازہ لگایا ہے کہ یہ بیلسٹک میزائل سازی کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ جیفری لوئیس نے میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے واضح کیا کہ جسامت میں یہ چھوٹا میزائل ہے اور چینی میزائل ٹیکنالوجی کا شائبہ بھی محسوس ہوتا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ ہفتہ وار چھپنے والے دفاعی میگزین جین نے بھی سن 2013 میں الدوادمی کے خصوصی فوجی مرکز کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس فوجی مقام پر بیلسٹک میزائل کو داغنے کے دو لانچنگ پیڈز بظاہر چین سے خرید کر نصب کیے گئے تھے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے اور ریاض حکومت نے اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ سعودی عرب نے بیلسٹک میزائل سازی کی ٹیکنالوجی کس ملک سے حاصل کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے سعودی عرب کے لیے فوجی نوعیت کی ٹیکنالوجی کی فراہمی بعید از قیاس اور باعث حیرت نہیں ہے۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو )