مرثیہ بر وفات فقیہِ ملت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی رحمہ اللہ ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی بہار

اداسی کیوں ہے چھائی آج تم پہ باغِ رمضانی
ہوا رخصت ہے شاید وہ تمہارا میر حقانی

زبیر احمدؒ کی رحلت کا اثر ہے تم جدھر دیکھو
دکھی ہے ہر نفس آہ و بکا کی ہے یہ سامانی

بڑی حکمت سے سینچا پھر بہایا خوں پسینہ بھی
نمایاں ہے در و دیوار سے ان کی یہ قربانی

سنوارا بارہا جس نے یہاں کے زلف برہم کو
ہوا ہے حسن دوبالا بنا ماحول عرفانی

حسیں تعلیم و تربیت میں بالآخر کھلا چہرا
بڑھا ہے بالیقین شہرہ جو پھیلی ہر سو تابانی

حدیث و فقہ میں جن کی مہارت بھی مسلم تھی
ہوا کرتی تھی منطق فلسفہ میں ان کی سلطانی

نظامت پھر نفاست حق گوئی بھی ظاہر تھی
مرتب زندگی تھی بس ہوا تھا فضلِ ربانی

نفوسِ قدسیہ نے ان کو سینچا اک زمانے تک
انہی میں ہے نمایاں سعید حبر حقانی

یہی ہے شجرۂ طیب تمہارا جامعہ اشرف
قیامت تک رہے باقی خدا یہ نقشِ رمضانی

یہاں خدام ہیں سب آج بہت ہی غمزدہ یارو !
ہوئے رخصت ہیں جو ان سے یہاں کے شیخ حقانی

زبیرؒ اتقیاء کو تو عطا کر اے خدا ! جنت
کہ تھے خادم شریعت کے ہو ان پر فضلِ یزدانی

خدا کا فضل ہے بیشک رفاقت جو ملی ان کی
ضیائے پُر معاصی پر ہوا ہے فیضِ ارزانی

★ نتیجہ فکر: حضرت مولانا اظہار الحق صاحب صاحب مظاہری
(ناظم جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں، سیتامڑھی)