بین الاقوامی شہرت یافتہ ’خدا بخش لائبریری ‘ مودی حکومت کی تنگ نظری کا شکار

اشرف استھانوی
بہار کی شناخت ملک اور بیرون ملک میں جن چیزوں سے ہوتی ہے، ان میں ایک بڑا اور نمایاں نام خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کا بھی ہے، جو ریاستی راجدھانی پٹنہ میں گنگا ندی کے کنارے گھنی آبادی کے بیچ سے گذرنے والے اشوک راج پتھ پر، پٹنہ یونیورسٹی اور پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال (PMCH) کے درمیان واقع ہے۔ یہ لائبریری عربی، فارسی، اردو، سنسکرت، پشتو اور ترکی زبانوں کے نادر اور نایاب مخطوطات کے علاوہ مختلف زبانوں کی لاکھوں مطبوعہ کتابوں کے باعث اور اپنی علمی، تحقیقی و ادبی سرگرمیوں کی بدولت ایک بڑے اور قابل قدر علمی، تحقیقی، ادبی اور ثقافتی مرکز کا درجہ رکھتی ہے، جہاں حاضری دیئے بغیرنہ تشنگان علم کی پیاس بجھتی ہے اور نہ ہی طالبان تحقیق کی تحقیق مکمل ہوتی ہے۔
اہل علم کو جس عظیم شخصیت نے اتنابڑا علمی ذخیرہ عطا کیا انہیں دنیا خان بہادر خدا بخش خان کے نام سے جانتی ہے۔ وہ ایک نامور قانون داں اور عدالت آصفیہ کے میر مجلس یعنی چیف جسٹس کے علاوہ کتابوں کے بڑے رسیا بھی تھے۔ کتابیں جمع کرنے کا شوق انہیں جنون کی حد تک تھا۔ یہ شوق اور جنون انہیں اپنے والد مولا بخش مرحوم سے وراثت میں ملی تھی۔ جنہوں نے اپنے علمی ذوق کی تسکین کے لئے تقریباً 1400مخطوطات جمع کئے تھے۔ جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مخطوطات کا یہ ذخیرہ اپنے صاحبزادے خدا بخش خان کو سونپتے ہوئے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس میں نہ صرف اضافہ کریں بلکہ اسے ایک عوامی کتب خانہ کی شکل دینے کی کوشش کریں۔ خدا بخش خان نے اپنے والد کی آخری خواہش اور تمنا پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ کتابوں اور مخطوطات کی خریداری پر خرچ کیا۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ ’خدا بخش لائبریری ‘
بین الاقوامی شہرت یافتہ ’خدا بخش لائبریری ‘

کتابوں کی خریداری کا یہ عالم تھا کہ خدا بخش خان کبھی کسی کتب فروش کو اپنے دروازے سے مایوس نہیں لوٹنے دیتے تھے۔ مطبوعہ کتابوں کا حصول تو پھر بھی آسان تھا مگر مخطوطات کے ذخیرے میں اضافہ کرنا جوئے شیر کے متراف تھا۔ انہوں نے متقی نامی ایک شخص کو صرف اسی کام کے لئے 50روپے ماہانہ تنخواہ پر نادر و نایاب مخطوطات کی خریداری کے لئے مامور اور مقرر کیا۔ محمد متقی نے 18سال تک یہ کام پوری ذمہ داری کے ساتھ کیا اور نہ صرف ملک کے اہم شہروں بلکہ بیرون ممالک مثلاً مصر، شام، ایران اور عرب کے شہروں سے مخطوطات حاصل کئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرطبہ کے کتب خانوں کے بھی چند اہم مخطوطات خدا بخش لائبریر ی کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ایسے مخطوطات بھی شامل ہیں جن کا کوئی دوسرا نسخہ اب دنیا میں دستیاب نہیں ہے۔ قرآنی مخطوطات اور حضرت علی کی تحریر کردہ آیات بھی ہیں۔ اکثر مخطوطات رنگین اور مصور ہیں۔ خدا بخش کے ذخیرے میں 7ہزار قلمی تصاویر بھی شامل ہیں۔
خدا بخش خان نے اپنے والد کی خواہش کے مطابق کتابوں اور مخطوطات کے اس ذخیرے کو 14جنوری 1891ء کو باضابطہ ایک وقف نامہ کے ذریعہ پٹنہ کے عوام کو وقف کردیا۔ اسی سال 5اکتوبر کو گورنر سرچالیس ایلیٹ نے اس کا افتتاح کیا۔ شروع میں یہ بانکی پور اورینٹل لائبریری یا اورینٹل پبلک لائبریری کے نام سے جانی جاتی رہی اور اس کا محل وقوع خدا بخش کے ذاتی مکان کا ایک حصہ تھا۔ یہ لائبریری آج بھی اسی جگہ پر قائم ہے۔ خدا بخش خان کو ان کی اس عظیم عوامی خدمت کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے خان بہادر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ خدا بخش خان تاحیات اس لائبریری کے سکریٹری رہے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ان کے وارثین ہی لائبریری کا انتظام و انصرام دیکھتے رہے۔ 1969میں اس کی علمی اور تحقیقی اہمیت کے پیش نظر حکومت نے باضابطہ پارلیمنٹ سے ایک قانون بناکر اسے قومی اہمیت کا ادارہ قرار دیااور اسے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کا باضابطہ نام دیا گیا، جو لائبریری کے بانی کو نہ صرف خراج عقیدت تھا بلکہ اس حقیقت کا اظہار بھی تھا کہ یہ لائبریری اپنے بانی خدابخش خان کے نام سے الگ کرکے نہیں جانی جاسکتی۔ اس کے بعد سے یہ لائبریری حکومت ہند کی نگرانی میں ترقی کے منازل طے کرتی رہی۔ مرکزی وزارت ثقافت ملک کی 7 دیگر مرکزی لائبریریوں کی طرح اس کے کام پر نظر رکھتی ہے۔ لائبریری ایک مجلس منتظمہ کے تحت کام کرتی ہے جس کے چیئرمین ریاستی گورنر بحیثیت عہدہ ہوا کرتے ہیں۔ لائبریری کے سربراہ ایک ڈائرکٹر ہوتے ہیں۔ ڈائرکٹر اور مجلس منتظمہ کے ارکان کا انتخاب مرکزی وزارت ثقافت کرتی ہے۔ لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے ، مسلمانوں اور دیگر اداروں کی طرح یہ مشہور عالم خدا بخش لائبریری بھی پوری طرح نظر انداز ہے۔ لائبریری کو ملنے والے فنڈ میں بھی تخفیف کردی گئی ہے جس کے نتیجے میں لائبریری کی علمی و ادبی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئی ہیں۔ ریاستی ، قومی اور بین الاقوامی سطح کے سمیناروں اور لکچرس کا سلسلہ پوری طرح منقطع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز احمد کے جانے کے بعد سے ڈائرکٹر کا عہدہ بھی گذشتہ دو برسوں سے خالی پڑا ہے۔ اس لئے مقامی سطح پر بھی پروگرام نہیں ہورہے ہیں۔ کتابوں کی خریداری کا سلسلہ بھی پوری طرح بند ہے۔ کہنے کو تو یہ لائبریری پٹنہ کے ڈویزنل کمشنر کے اضافی چارج میں ہے۔ لیکن انہیں لائبریری یا اس کی ضرورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کمشنر کی دوسری مصروفیات بھی ہوتی ہیں پھر بھی اگر انہیں کتابوں سے دلچسپی ہوتی یا اس لائبریری کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا تو وہ اس اضافی ذمہ داری کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے اس کے لئے ضرور وقت نکالتے اور اس کی بہتری کے لئے کام کرتے۔ کچھ نہیں تو وہ لائبریری کے چیئرمین یعنی گورنر کے توسط سے اپنی بات حکومت ہند تک پہنچانے ، فنڈ بڑھانے اور نئے ڈائرکٹر کے تقرر کے سلسلے میں ضروری سفارش کرتے۔ مگر ابھی تک ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ انچارج ڈائرکٹر تو کیا ، چیئرمین یعنی ریاستی گورنر رام ناتھ کووند بھی بہت زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں یا وہ حکومت ہند کی منشا اور مصلحت کو سمجھتے ہوئے خاموشی میں ہی عافیت محسوس کررہے ہیں۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ طویل مدت تک لائبریری اپنے سربراہ سے محروم رہی ہو۔سربراہ کی غیر موجودگی کے سبب لائبریری کے عملے میں بھی بددلی پائی جاتی ہے۔ لائبریری کے توسیعی منصوبے تک مرکز کی سابقہ حکومت سے جو فنڈ دستیاب کرایا گیا تھا، اس سے عظیم الشان نئی عمارت تو بن کر تیار ہوگئی ہے مگر اس کے استعمال کے لئے پروگرام مرتب کرنے والا کوئی ڈائرکٹر بھی نہیں ہے۔ وزارت ثقافت حکومت ہند سے اس سلسلے کی فائل وزیراعظم دفتر (PMO) میں گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے دھول چاٹ رہی ہے۔ لائبریری کھلتی ضروری ہے مگر اس میں وہ علمی سرگرمیاں نظر نہیں آتی ہیں جو ماضی میں اور خاص طور پر ڈاکٹر اے آر بیدار کے زمانے میں نظر آتی تھی۔ بیدار کے زمانے میں جتنے نیشنل اور انٹر نیشنل سمینار ہوئے اور تحقیقاتی سرگرمیاں جتنی پروان چڑھیں وہ آج ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ لائبریری کی فیلو شپ اسکیم بھی گذشتہ دو سالوں سے ٹھپ ہے۔ جونیئر اور سینئر فیلو شپ باصلاحیت تحقیق کاروں کی جماعت کا انتخاب کرکے تحقیقی کام انجام دیئے جاتے تھے اور انہیں زیور طبع سے آراستہ کرکے اہل علم کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا۔ اس لئے تحقیق کے علاوہ طباعت کا شعبہ بھی کافی مصروف اور سرگرم رہا کرتا تھا۔ علمی و تحقیقی کاموں کی کثر ت کو دیکھتے ہوئے ایڈہاک اور یومیہ مزدوری پر بھی اہل علم کی خدمات مل جاتی تھیں۔ مگر آج کل یہ سب کچھ بالکل بند ہے۔ جیسے تیسے کرکے صرف مستقل ملازمین کو تنخواہ مل پاتی ہے۔ لائبریری جن کاموں کے لئے جانی جاتی تھی، وہ سارے کام ٹھپ پڑ چکے ہیں۔ لائبریری اپنی عظمت رفتہ پر آنسو بہاتی نظر آرہی ہے۔
مرکزی حکومت اپنی کامیابی کا ڈھول پیٹنے میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے لائبریری کو ایک کل وقتی ڈائرکٹر مہیا کرانے کا بھی وقت نہیں مل رہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت اس لائبریری پر بھی سنگھی نظریات کے حامل کسی شخص کو بٹھانا چاہتی ہے اور مجلس منتظمہ میں بھی اپنے ہم خیال لوگوں کو جگہ دینا چاہتی ہے۔ مگر موجودہ کمیٹی کی میعاد ابھی پوری نہیں ہوئی ہے، اس لئے وہ وقت کا انتظار کررہی ہے اور اسی لئے فی الحال اس کی دلچسپی اس لائبریری میں نظر نہیں آرہی ہے۔ فنڈ میں تخفیف پر اسی مصلحت کے تحت کی گئی ہے تاکہ کوئی بڑا کام نہ ہوسکے۔ لائبریری کو مزید آگے بڑھانے میں تو نریندر مودی حکومت کی دلچسپی تو شاید کبھی نہ ہو مگر اس کا استعمال کرنے میں دلچسپی ضرور ہوگی۔ مگر یہ کام اسی وقت ممکن ہوگا جب اس لائبریری پر ایک خاص نظریے کے حامل افراد کا قبضہ ہوگا اور اس میں ابھی تھوڑا وقت لگے گا۔ تب تک شاید یہ لائبریری اسی طرح کسمپرسی کا شکار رہے گی اور مرکزی حکومت کے منفی رویے کے خلاف آواز بلند کرنے والے کسی پریشر گروپ کے سرگرم عمل ہونے کا انتظار کرتی نظر آئے گی۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور مصنف ہیں)