کاشف شکیل
فراز کی آنکھیں موبائل اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ رگوں میں خون کے بجائے خوشی دوڑ رہی تھی۔ رواں رواں مبتسم تھا۔ میسیج ٹون بجتے ہی اس کے دل میں گدگدی سی ہوتی اور وہ سرشار ہوجاتا تھا۔
آج واٹساپ پہ اس کی پرانی دوست صبیحہ تھی۔ صبیحہ اس کی وہ دوست جسے کالج میں وہ سب سے عزیز رکھتا تھا۔ بارہا اسے دیکھ کر فراز کے دل میں پیار کی گھنٹی بجی مگر فراز کو لب اظہار نہ مل سکا۔ حالانکہ اس دل میں پیدا شدہ اس جذبے کو روکنا بے حد مشکل تھا۔ فراز خود کہتا تھا کہ زبان سے نکلی ہوئی بات کو مخاطب تک پہونچنے سے پہلے روک لینا آسان ہے بہ نسبت دل میں امنڈتے ہوئے عشق کے جذبات کے۔
اسے صبیحہ سراپا صبح لگتی تھی۔ امید کی پہلی کرن، روشنی کا استعارہ، صبح کی کرنوں سی سنہری اور دلکش۔ جب بھی یہ صبح طلوع ہوتی تو فراز نماز عشق شروع کردیتا۔
صبیحہ کوئی اس قدر غیر معمولی حسن کی حامل نہیں تھی کہ مسجود عشاق ٹھہرے۔ مگر ہائے جوانی کا صحرا کہ یہاں کنوارگی کی پیاس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ سراب بھی شراب نظر آئے۔
صبیحہ ہرگز سراب نہیں تھی۔ وہ اپنے اس عاشق کی نگاہ میں جام جم تھی۔ اگر وہ سیاہ ہوتی تو اس کو حجر اسود مان کر بوسے دیتا مگر وہ تو سفید تھی۔ قصر ابیض جیسی۔ جہاں فراز صرف اپنی حکومت چاہتا تھا۔
مانو آج اس کی امید بر آئی تھی۔ اسے صبیحہ کے واٹساپ پیغامات میں صبیحہ کا عکس نظر آ رہا تھا۔ وہ لام میں اس کی زلفیں دیکھتا تھا اور ہاء میں اسکی آنکھیں۔ راء اور زاء میں اس کے کمر کی لچک محسوس کرتا تھا۔
باتیں بڑی میٹھی میٹھی ہو رہی تھیں۔ فراز کے نگاہوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ کچھ شرارتی میسیج بھی کر رہا ہے۔
شام ہو رہی تھی مگر فراز موبائل اسکرین کو ہی پیش نظر رکھے ہوئے تھا۔ رات کا پھیلتا ہوا اندھیرا اس کی امیدوں کے اجالوں سے شکست خوردہ تھا۔ فراز کے لب پر یہ شعر جاری تھا۔
کئی روز بعد ملے ہیں ہم
ترے نام آج کی شام ہے
شاید باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ ویسے بھی دلبر کی باتیں دلچسپ ہی ہوتی ہیں۔
صبیحہ سے چیٹنگ کرتے وقت فراز کو وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ مگر جب اس کی اسکرین پر صبیحہ کا میسیج نمودار ہوا ” اچھا فراز! تم سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ کالج گروپ میں تمھارا میسیج دیکھا تو میں نے سوچا تھوڑی بات کر لوں، میرے شوہر آنے والے ہیں۔ سی یو سون۔ گڈ بائی۔ “
یہ میسیج اس کے خوابوں کے محل پر بجلی بن کر گرا اور اسے خاک کر گیا۔
فراز کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر فرش پر گرا اور ” چھناک ” سی آواز ہوئی۔ خدا جانے یہ اس کا دل ٹوٹنے کی آواز تھی یا موبائل اسکرین کی۔ اسکرین کرچی کرچی ہوکر کانٹے کی طرح فرش پر بکھری پڑی تھی اور فراز کا دل اس کا شکار ہو کر دس ہزار ٹکڑے ہوچکا تھا۔