ہماری زندگی ۔ہماری مرضی اور اے آر رحمن کی بیٹی

خبر در خبر (594)
شمس تبریز قاسمی
ہماری زندگی ۔ہماری مرضی ۔ہم کب شادی کریں گے ۔اس کا فیصلہ ہم خود کریں گے ،ہم کیا پہنیں گے ۔ یہ ہم خود طے کریں گے۔ہمارے لباس پر ،ہماری تعلیم پر ،ہماری طرز زندگی پر کسی کوبھی کچھ بھی بولنے کا کوئی حق اور اختیار نہیں ہے
یہ آج کی دنیا کا فیشن ہے ۔دنیا بھر کی خواتین کا نعرہ ہے۔ آزادی اور مساوات کاآئیڈیا ہے ۔مغرب سے اس نعرہ کی شروعات ہوئی اور دنیا بھر کے خواتین وحضرات یہی نعرہ لگاتے ہیں ۔عورتیں سب سے زیادہ اس کا استعمال کرتی ہیں ۔سماج اور معاشرہ میں جب بھی اس طرح کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو لبر ل خواتین میدان میں کود پڑتی ہیں اور ہماری زندگی ہماری مرضی کا نعرہ لگاتی ہیں ۔ اب ہمارا جسم ہمار ی مرضی کا نعرہ بھی خواتین نے لگانا شروع کردیاہے ۔
لیکن لبرل سماج میں آزادی اور مساوات کا یہ نعرہ یکطرفہ ہے ۔اگرکوئی خاتون پردہ نہیں کرتی ہیں، کوئی لڑکی ملازمت کرنا چاہتی ہیں ۔کوئی فلمی دنیا میں جانا چاہتی ہے تو اسے اس کی آزادی کا نام دیاجاتاہے، اس کی ستائش کی جاتی ہے،حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور کہاجاتاہے اس کی زندگی اس کی مرضی جیسے چاہے وہ گزارے ۔
دوسری طرف کوئی لڑکی پردہ کا اہتمام کرتی ہے ۔اپنے تحفظ کیلئے وہ نقاب پہنتی ہے تو اسے دقیانوسیت کا نام دیاجاتاہے ۔اس لڑکی کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر تنقید کی جاتی ہے ،اسے برا بھلاکہاجاتاہے اور آزادی نسواں کا نعرہ لگانے والی لبرل عورتیں ایسی عورتوں کو ان کی آزادی دینے سے روکتی ہیں ۔اس کی مذمت کرتی ہیں ،انہیں کٹر واد اور انتہاءپسند کہتی ہیں ۔
آج یہ بات ہم آپ کے سامنے اس لئے کررہے ہیںکہ اس کے بیک گراﺅنڈ میں ایک تصویر ہے ۔
یہ تصویر معروف موسیقی کار اے آر رحمن کی فیملی کی ہے ۔گذشتہ 7فروری کو انہوں نے ٹوئٹر پر یہ تصویر شیئر کی۔ کیپشن لکھا ہماری فیملی کی خواتین خدیجہ ،رحیمہ اور سارہ نیتا امبانی جی کے ساتھ اور اس کے ساتھ ایک ہیش ٹیگ لگایا
#Freedomtochoose
اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار نے کا حق

اس تصویر میں اے آر حمن کی بیوی سارہ ہیں جن کے سر پر دوپٹہ ہیں ۔ایک بیٹی رحیمہ ہے جن کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے ۔دوسری بیٹی خدیجہ ہے جو نقاب پوش ہیں اور چہر ہ مکمل مطور پرچھپا ہواہے ۔انہوں نے اس تصویر کے ساتھ یہ بتایا کہ ہر ایک کو اس کی مرضی اور آزاد ی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے ۔اگر کسی کی پسندی اور آزادی بغر حجاب کے ہے تو کسی کی آزادی اور پسند حجاب استعمال کرنے میں ہے اور اس تصویر میں اس کا مظاہر ہ ہورہاہے ۔یہی حقیقی اور صحیح مطلب ہے ہماری مرضی ۔ہماری زندگی کا
اے آر رحمن نے جیسے ہی یہ تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی لبرل طبقہ میں ہنگامہ برپا ہوگیا ۔ اپنی مرضی ۔اپنی زندگی کا نعرہ لگانے والے لبرل طبقہ نے تنقید اور اعتراض کی بوچھار کردی ۔اے رحمن کی ٹرولنگ شروع ہوگئی ۔ٹوئٹر نے تو اس تصویر کو پکچر آف ڈے میں شامل کرلیا لیکن لبرل طبقہ نے اسے دقیانوسیت ،انتہاءپسندی بتایا اور اے رحمن کو بے پناہ تنقید کا نشانہ بنایا ۔

اے آر رحمن کی بیٹی رحیمہ ،خدیجہ اور بیٹا آمین

ٹوئٹر پر فعال ایک لبرل خاتون سنند ا وشست نے لکھاکہ اس تصویر نے ہمیں بے پناہ صدمہ پہونچایاہے ۔ہندوستان میں کسی بھی لڑکی کو اس طرح چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک اور ایکٹویسٹ انشوکاترپاٹھی نے لکھاکہ اسلام میں اتنی انتہاءپسندی پائی جاتی ہے کہ اے آر حمن کے فلمی دنیا میں آنے کے باوجود یہ چیزیں ختم نہیں ہوئی ہے اور ان کی بیٹی آج بھی چودہ سوسال کے پرانے دقیانوسی والے مذہب پر عمل کررہی ہے ۔
یہ تصویر ہزاروں کی تعداد میں ری ٹوئٹ کی گئی ۔ ہزاروں کمنٹ کئے گئے کسی نے خدیجہ کی تعریف کی تو کسی نے اس کی فکر کو دقیانوسی قرار دیا جن لوگوں نے اس تصویر پر اعتراض جتایا اس میں سماج کی وہی لبرل خواتین زیادہ تھیں جو ہمیشہ ہماری مرضی ہماری زندگی کا نعرہ لگاتی ہیں خود کو فیمنزم کی علمبر دار سمجھتی ہیں ۔

https://twitter.com/varshasinghs/status/1093583819192524800

اس پورے واقعہ میں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگرکسی لڑکی کا برقع نہ پہننا ،اس کا حجاب کے بغیر رہنا انفرادی آزادی اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہے تو کسی لڑکی کا حجاب کرنا اور برقع پہننا اس کی آزادی اور مرضی کے مطابق زندگی گزارنا کیوں نہیں ؟۔سماج اور سوسائٹی میں یہ تفریق کیوں ہے ؟ اور کون ہے اس سوچ کیلئے ذمہ دار ؟ کب ختم ہوگی لبرل طبقہ کی یہ تنگ نظری ،انتہاءپسندی اور دقیانوسیت ۔حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ تنگ نظری ،انتہاءپسندی اور دقیانوسیت حجاب اور پردہ استعمال کرنے والی لڑکیوں میں نہیں بلکہ لبرل اور بے پردہ سماج میں ہے جہاں یکطرفہ پسند اور آزادی کو اہمیت حاصل ہے دوسرے کی آزای اور پسند یدگی کو آزادی نسواں نہیں مانا جاتاہے ۔
تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والے معروف موسیقی کار اے رحمن نے ٹوئٹر پر یہ تصویر شئر کرکے لبرل طبقہ اور مغرب کے پیر وکاروں کو اچھا آئینہ دکھایاہے ۔انہیں اپنی زندگی ۔اپنی مرضی کا صحیح مفہوم بتایاہے او راس کا حقیقی مطلب سمجھانے کی انہوںنے قابل ستائش کوشش کی ہے ۔ان کی بیٹی خدیجہ کی شخصیت ایک آئیڈیل اور رہنما کی ہے ۔ہندوستان سمیت دنیا بھر کی مسلم لڑکیوں اور خواتین کیلئے خدیہ ایک قابل فخر مثال ہے جسے اپنانے ،آئیڈیل بنانے اور سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔
پیاری بہن خدیجہ کے اس جذبے کو سلام
stqasmi@gmail.com