ڈاکٹر شاہ زماں حق
ڈپٹی ڈائریکٹر شعبۂ جنوبی ایشیا وہمالیہ، پیرس (فرانس)
چھوٹی عمر سے ہی، بعض بچّے موت جیسی عجیب و غریب شے سے واقف ہو جاتے ہیں ۔ بچّوں کی بہت ساری کہانیوں میں موت کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ زیادہ تر کہانیوں میں یا تو سوتیلی مائیں ہوتی ہیں یا کہانی کے شروع میں ہی ایک جملے میں یہ بیان رہتا ہے کہ شہزادی کی ماں مر گئ اور اُس کے باپ نے دوسری شادی کر لی۔
موت کیوں ہوتی ہے ؟ موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ لوگ غم میں مُبتلا کیوں ہوتے ہیں ؟ وہ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ مرنے والا واپس کب آتا ہے ؟ مرنے والا واپس کیوں نہیں آتا ؟ جیسے جیسے بچّے بڑے
ہوتے ہیں ویسے ویسے یہ سارے سوالات اُن کے ذہن میں پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ البَتّہ یہ سوالات بچّوں کو ایک گہری بے چینی یا افسردگی میں مبتلا کر سکتے ہیں ۔
بر صغیر میں موت کے بارے میں بات کرنا بہت منحوس یا نامناسب مانا جاتا ہے ۔ جب ہم اس کا ذکر بچّے سے کرتے ہیں ، تو اُنہیں فوراً خاموش کر دیتے ہیں کیونکہ عموماً ہمیں موت کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا حتی کہ ہمارے پاس خود اِس سِلسِلے میں کوئ جواب نہیں ہوتاہے۔ ہمارا جواب حسن تعبیر پر مُشتَمِل یہ ہوتا ہے کہ فلاں اللہ کو پیارا ہو گیا یا آسمان کا تارا بَن گیا ۔
اِروِن یالوم کی ایک نفسیاتی کتاب جب میرے ہاتھ لگی جس کا نام Existential Therapy ہے، تو میں نے دیکھا کہ ایک باب کا عنوان ”بچّوں میں موت کا تصوّر“ کے موضوع پر ہے۔ یالوم امریکہ کے ایسٹین فورڈ یونیورسیٹی میں نفسیات کے پروفیسرکے طور پر پڑھا چکے ہیں ۔ نفسیات سے جُڑے اُنکے ناول اور کتابیں فرانس میں کافی مقبول ہیں۔
اِروِن یالوم کا ماننا ہے کہ بچّوں میں موت سے اُنکے خوف اور اُنکے احساسات پر بہت کم رِسرچ ہوئے ہیں۔ اپنے تجربے اور اپنے رفیقِ کار کے تجربوں کی بنیاد پر انہوں نے کچھ نتیجےاخذ کیے ہیں لیکن یہاں میں دو کا ذکر کرنا چاہوں گا :۔
⁃ بچّوں کے لئے موت بہت بڑی پہیلی ہے۔ دراصل اُنکی نشوونما کے دوران ایک اہم ذہنی ورزش یہ بھی ہے کہ وہ کِس طرح موت سے جُڑی زخم پذ یری اور تباہی پر قابو پائیں۔
⁃ بچّوں کے ذہن میں موت کا مسئلہ بہت زیادہ رہتا ہے اور اس کی وجہ سے دماغی پریشانی کی کیفیت بہت جلد نمایاں ہو جاتی ہے۔
ارون یالوم نے ایک واقعہ یوں ذکر کیاہے کہ اُن کے پانچ سالہ بیٹے نے اُن سے کہا کہ ”تم جانتے ہو، میں اپنے دادا اور نانا دونوں سےواقِف نہیں ہو سکا۔ دونوں کی موت میری پیدائش سے پہلے ہوگئ“۔ یالوم نے بیٹے سے پوچھا کہ ”کیا تم اُن کی موت کے بارے میں اکثر سوچتے ہو ؟“ بیٹے نے جواب دیا کہ کوئ لمحہ ایسا نہیں ہے جب وہ اُنکے بارے میں نہیں سوچتا۔ یہ سُنکر یالوم سکتے میں پڑ گیا۔
میری اپنی یادداشت کے مُطابِق میرے دادا کی موت اُس وقت ہوئ جب میری عمر غالِباً نو یا دس مہینے ہوگی ۔ اِس بات کا مُجھے کافی مَلال ہے اور بچپن سے ایک سخت کمی کا احساس رہا کہ میں اپنے دادا کو نہیں جان سکا۔
اِرروِن یالوم نے اِس بات کا بھی ذِکر کیا ہے کہ بچّے بڑے ہونے سے ڈرتے ہیں۔ ایک ساڑھے چارسال کے بچّے نے اچانَک اپنے باپ سے کہا، ” میں ہر روزموت سے ڈرتا ہوں، میں کبھی بوڑھا نہیں ہونا چاہتا اور میں کبھی مرنا نہیں چاہتا۔ “
یالوم نے ایک دوسرے بچّے کے بارے میں بتایا کہ اُسنے اپنی ماں سے کہا کہ اُس کے سَر پر ایک پتھر رکھ دے، اِس طرح وہ کبھی بڑا نہیں ہوگا اور نہ کبھی مرے گا ۔
میری بیٹی نے ساڑھے تین سال کی عمر میں ایک روز مجھ سے کہا کہ وہ چاہتی ہےکہ اُس کی عمر تھم جائے۔ میں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے، دراصل ہر سِکنڈ یا ہر لمحہ ہم سب بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ سُنتے ہی وہ دہا ڑیں مار مار کر رونے لگی۔ بڑی مُشکِل سے اُسے چُپ کرایا گیا۔ میری بیٹی کا خوف یہی تھا کہ جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی جائیگی، ویسے ویسے مرنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ اَب میری بیٹی ساڑھے چار سال کی ہے، اور نہ جانے کتنی بار موت کے خوف کا اظہار کر چکی ہے۔ میں نے اپنی بچی سے موت کے بارےمیں اِس سے قَبل کبھی بھی کچھ ذکر نہیں کیا۔ کچھ کہانیاں جو اُسنے پڑھی ہیں،جیسے سِنڈریلا یا ایسنو وھائٹ اور
سات بونے، اُسمیں اکثر بڑے کی ہی موت ہوتی ہے۔ موت کا بڑوں بوڑھوں سے لازمی رشتہ معلوم ہوتا ہے ۔
کچھ بچّوں کو یہ بھی کہتے سُنا گیا ہے کہ ” میں ایک ہزار سال تک زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔ میں دُنیا کا سب سے زیادہ بوڑھا بننا چاہتا ہوں“۔
ایک دن صبح صبح میں اپنی چار سالہ بچّی کو سوتے ہوئے چھوڑکر کسی کام سے باہر چلا گیا۔ جب میں
نے گھر فون کیا تو میری بیوی نے کہا کہ بیٹی اُٹھتے ہی بولی کہ پاپا مَر گئے۔ میں مسکرائ اور میں نے کہا کہ ”فون ذرا بیٹی کو دینا“۔ لیکن میری بچّی نے فون پر آنے سے منع کر دیا اور پھر کہا ”وہ مر گیا“۔ یہاں پر مَرنا اُس کے لئے دراصل بِچھڑنا تھا اور وہ شدید غُصّے کا اظہار کر رہی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ اُسکا باپ بعد میں لوٹ آئیگا۔ اِسی بات کو Sigmund Freud نے اپنی کتاب The interpretation of dreams میں بیان کیا ہے کہ ایک نہایت ہی ذہین دَس سالہ بچّے نے اپنے باپ کی اچانک موت پر کہا کہ ”میرا باپ مر گیا ، میں سمجھ سکتا ہوں لیکن وہ رات کے کھانے پر کیوں نہیں آتا، مجھے سمجھ میں نہیں آتا“-
میرا ماننا ہے کہ بچوں کی یہ کیفیت اِس لئے ہے کہ وہ اپنے بڑوں کو موت کے سامنے بے بس دیکھتے ہیں۔ اور سبھی سوالوں پر بڑوں کے پاس بہت سارے جوابات ہوتے ہیں لیکن موت کا ذکر آتے ہی بڑوں کے چہرے پر ایک بے بسی نمایاں ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنی چار سالہ بیٹی سے پوچھا کہ ”اگر میں مَر گیا تو وہ کیا کرے گی؟“ بیٹی نے جواب دیا کہ وہ دعا گائے گی۔ دراصل ہرشب سونے سے پہلے اُس کو یو ٹیوب پر دُعا سُناتا ہوں۔ دعا کی قراءت اُسے گانے کی مانند لگتی ہے۔ میں نے اپنی بچّی کو یہ سکھایا ہے کہ دُعا سے حِفاظت مِلتی ہے ۔ اُس کے جواب سے میں حیران ہوگیا۔ بیٹی کا یہ ماننا تھا کہ دُعا پڑھنے سے سَب کچھ ٹھیک ہو جائیگا اور میں پھر واپس آ جاؤں گا۔
اِسلامِی کلچر میں دُعا دوا ہے۔ دُعا میں شفا اور طاقت مانی جاتی ہے۔ ایسا ہی یالوم نے امریکی کلچر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ مریضوں کے دل سے موت کا خوف دور کرنے کے لئے یہ طریقہ کارآمد ہے کہ انسان کا عقیدہ کسی بہت عظیم محافظ میں ہو جو ہر لمحہ اُسکی نِگہبانی کرتا رہے ۔
موت کے تصور کے معاملے میں اِروِن یالوم کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچّوں میں ذہنی بے چینی کی کیفیت اُنکے یہاں زبان و تجریدی سوچ کی کمی کا سبب ہے ۔ وہ بہت ساری باتوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ اوپر سے والدین کی غلط بیانی اُن کی پریشانی میں مزید اضافہ کی وجہ ہو سکتی ہیں ۔
ایسی صورت حال میں یالوم نے شعبہ تعلیم کے ماہرِ مفکّر جیروم بُرُنَر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ بچّوں سےاُن کے نشونُما کے ہر دور میں ہر موضوع پر دانشمندانہ اور مخلصانہ گفتگو ہو سکتی ہے ۔
اگر آپ کا بچّہ بھی موت کے تصور کو لے کر کئ سوال اُٹھاتا ہے، تب یہ بہتر ہے کہ آپ خود اس مسلئہ کو سنجیدگی سے لیں ۔ بجائے اِس کے کہ وہ اِس پریشانی میں مبتلا رہے، اور اِس کا جواب کہیں اور سے ڈھونڈنے کی کوشش کرے، اُس کی ذہنی صحت کے لئے یہ مضر ہو سکتا ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ بچّے کی روز مرّہ زندگی پر منفی اثر پڑے ۔