ہندوستان اور مسلمان

محمد منصور عالم رحمانی 

 ہندوستان مسلمانوں کا وطن عزیز رہا ہے، مسلمانوں نے جب سے اسے اپنایا؛ اسے ترقی دی، نئی تہذیب اور نیا تمدن دیا، زندگی کے تمام شعبوں میں فطری اصول، انکشافی فنون، علوم و معارف، عمدہ نمونے، جینے کے بہترین سلیقے دیا۔ رہنے سہنے، کھانے پینے، لباس وپوشاک، تہذیب و ثقافت اور کلچر و تمدن کے دیگر پہلوو ¿ں میں تکلف و تجمل اور آرام و آسائش کی نئی نئی ایجادوں کے ذریعے نہایت دل کش اور دیرپا رنگ بھرے۔ قسم قسم کے لذیذ کھانے، خوشنما برتن، شیروانی، کرتا، پائجامہ اور شلوار جیسے بہترین پوشاک دیا۔ سونے، بیٹھنے کے لئے عمدہ سے عمدہ فرنیچر، زیب و زینت کو بکھیرنے والے پر کشش زیورات کے نمونے دیا۔ جان و مال عزت و آبرو، خاندان و اولاد اور ملک کی بقاءو تحفظ اور ترقی کے لئے مرکزی حکومت کا سسٹم دیا۔ بولنے کے لیے بحیثیت قومی زبان (national language ) ہندی کی تعیین و ترویج، بین الاقوامی زبان (International language) کی حیثیت سے اردو کی ایجاد اور اس کی ترویج و اشاعت، رابطہ کے لیے ڈاک کا آغاز و نظام، چلنے کے لیے عمدہ اور مضبوط شاہراہوں، سڑکوں، گلیوں اور بے شمار پلوں کی تعمیر، غریب پروری اور سفری سہولیات کے لئے لنگر، سرائے، مسافر خانے، حفظان صحت کے لیے نعمت رحمانی طب یونانی اور ہاسپٹل دیا۔ ہزاروں شفا خانے قائم ہوئے: صرف سلطان فیروز شاہ (/752 – 790) ہی کو لے لیجئے انہوں نے 500 / پانچ سو شفا خانے بنوائے۔ پر کشش جاذب نظر اور خوشنما فن تعمیر سے نوازا: آگرہ کا تاج محل، دہلی کی جامع مسجد، لال قلعہ، قطب مینار، حیدرآباد کا چار مینار – یعنی چار مینار والی مسجد جو مکہ مسجد کے پاس ہے اور آج یہ تحفئہ جمہوریت ہے، یہاں نہ تو اذان ہوتی ہے اور نہ ہی نماز ہوتی ہے – اور مکہ مسجد جس کی جیتی جاگتی تصویر اور فن تعمیر کا شہکار ہے۔ باغبانی اور شجر کاری کے دل کش نقوش مسلمانوں کی یادگار ہے: اس کے لئے مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں جن میں پودوں کے نام خصوصیات اور آبی ضروریات تفصیل سے تحریر کی گئیں۔ کاشتکاری پر خاص توجہ مبذول کی اور ہر عہد میں بیشمار بند، نہروں، کنوو?ں اور تالابوں کی بکثرت تعمیر ہوئی۔ 

 بحیثیت مجموعی تمام بادشاہوں اور حکمرانوں نے علوم و فنون کی ترقی میں جم کر حصہ لیا: اس کے لئے دار الترجمہ، کتب خانے، مدرسے، خانقاہیں مکاتب اور مسجدیں بکثرت تعمیر ہوئیں۔ بڑی بڑی جائدادیں بھی اخراجات کی تکمیل کے لیے وقف کئے۔ علمی سرگرمیوں میں شاہان ہند خود حاضر ہوتے اور حصہ لیتے تھے۔ سلاطین ہند کی توجہات اور فیاضی کا نتیجہ تھا، کہ: فن حدیث، تفسیر، فقہ اسلامی، شعرو ادب، فلسفہ، ہیئت، ریاضی، نجوم، منطق اور ہندسہ کے بڑے بڑے ماہرین اور ائمئہ علوم و فنون پیدا ہوئے، جنہوں نے عرب و عجم میں شہرت پائی، ان کی تصنیفیں آج بھی اس کی گواہ ہیں: یمین الدولہ سلطان محمود غزنوی نور اللہ مرقدہ (ماہ محرم شب عاشورہ 357 ھجری مطابق 21 / نومبر 971 __11 صفر 421 ھجری 30 / اپریل 1030 عیسوی) ہی کی مثال لے لیجیے، سلطان محمود غزنوی پانچویں صدی ھجری کے ممتاز فقیہ اور عالم دین تھے۔ فن حدیث، فقہ، شعرو ادب اور فصاحت و بلاغت کے بڑے امام تھے۔ فاضل محقق ابو نصر محمد بن عبد الجبا ر عتبی نے تاریخ الیمینی میں ان کی سیرت و سوانح، تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ الکبری میں ان کا تذکرہ لکھا اور ان کے مناقب میں مطول تحریر لکھی حنفیت سے شافعیت اختیار کرنے کے واقعے کو بھی بیان کیا اور ابوالمعالی عبد الملک الجوینی نے بھی اپنی کتاب مغیث الخلق فی اختیار الاحق میں اور قاضی احمد بن خلکان نے اپنی کتاب وفیات الاعیان میں آپ کی سیرت و سوانح کو بہت عمدہ تحریر کیا ابن الاثیر نے کامل میں اور ابو الفداءنے اپنی تاریخ میں اجمالا اور علامہ عبد الحئی لکھنوی نے جنة المشرق اور نزہتہ الخواطر میں اور دیگر بڑے بڑے مو?رخین سوانح نگاروں اور تذکرہ نویسوں نے آپ کے علم و فضل غزوات و فتوحات، رعایا پروری، عدل و انصاف، نرمی، علم دوستی اور ادب نوازی کی داستانیں تحریر کئے ہیں۔ آپ کے شاہی دربار کی علمی مجالس میں استفادہ و افادہ کی شہرت کی بنیاد پر علماءومشائخ، شعراءو ادبائ، فصحاءو بلغاءکی کثرت سے آمد و رفت رہتی۔

 مورخین نے آپ کی تصنیفات میں بہت ساری کتابوں کا نام شمار کرایا ہے: فقہ حنفی میں ساٹھ ہزار مسائل پر مشتمل کتاب التفرید فی الفروع حسن ترتیب، کثرت مسائل اور فروعات کی بنیاد پر مرجع و ماخذ کی حیثیت سے مشہور ہے، غزنہ کے علاقے میں اس کتاب کی زیادہ شہرت ہے۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے۔ 

 دین و دنیا کی ساری خوبیاں آپ میں جمع تھیں۔ آداب و القاب اور خطابات خوب نوازے گئے ہیں۔ علامہ عبد الحئی لکھنوی نے لکھا ہے کہ آپ کی شخصیت باستثناءایک سبب مجروح اور داغدار کرنے والے اسباب سے منزہ اور مبرا تھی۔ 

 

۱۱/ صفر یا ماہ ربیع الثانی۴۲۱ھ ۳۰/اپریل ۱۰۳۰ءمیں شہر غزنہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ 

 

 علم ہندسہ (geometry)، علم ہیئت (astronomy)، علم نجوم (astrology) اور فلسفہ? ہنود (indian philosophy) کے استاذ فن، امام، عالم، ماہر نجوم، مشہور فلسفی اور ماہر طبیب ابو الر ¸حان محمد بن احمد البیرونی محمود غزنوی اور مسعود غزنوی کے عہد میں تھے۔ بیرون، سندھ میں آپ کا تولد ہوا۔ آپ نے خوارزم میں بھی اقامت اختیار کی تھی اس لیے خوارزمی سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ بلاد ہند میں آپ کی آمد ہوئی، آپ نے یہاں کے علوم و فنون سے کسب فیض کیا، یہاں کی تاریخ اور تہذیب کو قلم بند کیا۔ سلطان مسعود بن محمود غزنوی اور مودود بن محمود غزنوی وغیرہ شہزادوں اور دیگر کے لیے کتابیں لکھے طبعیات، ہیئت، فلکیات، طب، نجوم ، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ، ارضیات، کیمیا، تمدن، مذاہب عالم وغیرہ علوم و فنون اور موضوعات پر ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں اور تحقیقی مقالے تحریر کئے۔ 

 

 نزہتہ الخواطرمیں علامہ عبد الحئی لکھنوی نے چند تصنیفات کا ذکر کیا ہے جیسے: کتاب الہند، کتاب الجمائر فی الجواھر(یہ کتاب جواہر اس کے انواع و اقسام اور متعلقات پر مشتمل ہے،ابوالفتح مودود بن مسعود الغزنوی کے لیے اس کتاب کی تالیف ہوئی تھی)،کتاب الآثار الباقیةعن القرون الخالیہ ف ¸النجوم والتاریخ، الاختلاف ف ¸ الاصول،?تاب تجرےد الشعاعات والانوار،?تاب الاحجار،خواص الاحجارال کریمة وغیرھا،کتاب مقالیدالھیئة ، کتاب الشموس الشافےةللنفوس، کتاب الصیدلة ف ¸ الطب (یہ کتاب دواو ¿ں کی ماہیات، خصوصیات،اسماءاور متقدمین کی رایوں سے اختلاف پر مشتمل ہے)،کتاب الاستیعاب ف ¸ تسطیع القرة، کتاب العمل بالاصطرلاب،، کتاب القانون المسعود ¸ (مسعود بن محمودبن سبکتگین کیلئےہوئی تھی)،کتاب التفہیم لاوائل صناعة التنجیم علا طریق المدخل، کتاب التنبیہ علی صناعة التمویہ، کتاب دلائل القبلة،، رسالاتہ ف ¸ تہذیب الاقوال، کتاب الاظلال،، مقا لة ف ¸ استعمال الاصطرلاب الکرای، کتاب الزیج المسعود ¸،اختصار کتاب بطل ¸موس القلوذ ¸،،کتاب ال Êرشاد ف ¸ احکام النجوم، ال Êستشہاد باختلاف الارصاد ، شرح علی دیوان ابی تمام،، کتاب مختار الاشعار والآثار،عجائب الہند (ہندوستان کے احوال و صفات پرمشتمل ہے) اس کتاب کے اندرہندسہ، فلکیات، مذاہب و ادیان وغیرہ سے متعلق بیشمار معلومات اور تحقیقات ہیں۔)

 

(نزہةالخواطر 1 / (70

 

 توحید کا تصور عقد بیوگان، دختر کشی اور رسم ستی کی تدفین، تحفظ نسواں اور حقوق نسواں مسلمانوں کی رہین منت ہے۔ ذات پات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر اونچ نیچ اور چھوت چھات جیسے گھناو?نے اوہام و خیالات کو پیروں تلے دباکر انسانی مساوات کا عظیم سبق، اخوت و بھائی چارگی کی تعلیم و تلقین اس کا نفاذ، تہذیب، اخلاق و آداب کی ترویج اور تعلیم و تعلم ہر انسان کا پیدائشی، بنیادی اور قانونی حق ہے: یہ عظیم ترین انقلابات مسلمانوں نے ہی برپا کئے۔ مذہبی رواداری کی عظیم مثال قائم کی: مندروں کے لئے سرکاری خزانے سے زمین کی فراہمی، تعمیری اخراجات، عبادت گاہوں اور تعلیم گاہوں کے لئے سرکاری وظیفے، ہدیے اور تحفے اس کا بین ثبوت ہیں۔ شودر، چھتری اور نچلے طبقے کے لوگ جنہیں لکھنے پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا: نہ قانونی، نہ سماجی اور نہ ہی مذہبی: انہیں بلا بلا کر تعلیم دی اور سرکاری عہدے پیش کئے۔ مسلم حکومتوں میں میخواری کا سد باب ہو?ا، افیون کی کاشت پر پابندی عائد کردی گئی۔ ملک کو آباد اور خوش حال کیا گیا۔ 

 اقتصادی اور معاشی ترقی کے لئے ہزاروں کارخانے اور فیکٹریوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ہمارے سامنے ہندوستان کے ایسے مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں کی ایک فہرست ہے جو اپنی ذاتی اور گھریلو ضروریات کی تکمیل سرکاری خزانے سے نہیں؛ اپنے علم و ہنر، محنت و مشقت اور مزدوری سے کرتے تھے: ٹوپیاں بن کر اور قرآن مجید لکھ کر روزی حاصل کرتے تھے۔

(مضمون نگار جامعہ فیضان ولی ایجوکیشنل الہنڈا کھاڑی، پوسٹ:بگھوا، بارسوئی،کٹیہار (بہار) کے بانی ومہتمم ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں