تحفظ کے نام پہ ذہنی غلامی اور نہیں

احساس نایاب 

عورت کی حقیقی پہچان بھلے صنف نازک ہے لیکن وقت اور حالات کے مطابق خواتین نے ہر میدان میں خود کو ثابت کیا ہے چاہے سیاست ہو میڈیکل ہو یا فوج ہی کیوں نہ ہو یہاں تک کہ چاند پہ بھی عورتوں نے اپنے قدم جمالئیے، باوجود اس کے آج بھی ہمارے سماج، معاشرے نے اس سچائی کو قبول ہی نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سے عورت کو بوجھ ذمہ داری سے بڑھ کر سمجھا ہی نہیں , چاہے وہ آسمانی سفر ہی کیوں نہ کرلے , ویسے دیکھا جائے تو ہندوستان میں جہاں ایک طرف مسلم پرسنل لاء بورڈ خواتین کی تائید میں خواتین کے حقوق کے لئے شریعت اسلامیہ کے حدود میں آگے آنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے وہیں اس کے برعکس ہمارا سماج معاشرہ یہاں تک کے ہمارے گھریلو ماحول میں بھی عورتوں کو تائید نہیں مل رہی جس کی وجہ سے آگے آنے والی خواتین بھی اپنے قدم پیچھے لے رہی ہیں اور ان صورتحال میں خواتین کا آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

اگر سماج عورتوں کا تعاون کرے اور انہیں فریقی دنیا کے سامنے حقیقی آئینے کو پیش کرنے کا موقع دے تو یقین مانے سائرہ بانو اور عطیہ جیسی مہیلا آندولن کی خواتین پیدا نہیں ہوں گی …… کیونکہ ہندوستان کی آزادی میں جتنی کوشش اور جتنی محنت مجاہدین نے آزادی کے لئے کی تھی اتنی ہی محنت اور تائید ان کی ماں، بہنوں نے بھی کی ہے۔

مثال کے طور پہ محمد علی جناح سے لیکر محمد شوکت علی اور محمد علی جوہر ہیں، ان کی ماں نے جس قدر جنگ آزادی کے لئے اپنے سپوتوں کو وقف کیا ہر لمحہ قدم بقدم ان کی تائید کی اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں اس کے علاوہ محمد علی جناح کی بہن محمد علی جناح کو آزاد پاکستان کو وجود میں لانے کے لئے مکمل تائید کی تھی اور اگر ہم اسلامی تاریخ کے آئینے میں بھی جھانک کر دیکھیں گے تو ہمارے پیغمبر اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت کو پہلے قبول کیا اور وہ اپنے وقت کی کامیاب باوقار خود مختار تاجرہ ہونے کے باوجود انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرممکن ہمت افزائی کی جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تبلیغی کام کو باآسانی انجام دیتے رہے , انہیں کی طرح اور بھی کئی خواتین موجود ہیں جن کے وجود سے تاریخ کے اوراق آج بھی روشن ہیں اور انشاءاللہ تاقیامت جگمگاتے رہیں گے کیونکہ وہ تمام مسلم خواتین کے لئے مشعلِ راہ کی طرح ہیں , جیسے ام عمارہ رضی اللہ عنہ جنہونے جنگِ احد میں اپنی بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ آقا دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہادری کی تعریف کی , انہیں کی طرح خولہ بنت الازور نے بھی اپنے بھائی ضراربن الازور کو دشمنون سے چھڑانے کے لئے تنہاء دشمنوں کی صفون کو خاک کردیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی تو بات ہی نرالی تھی انہوں نے تو دین کے خاطر اپنے گھر، شوہر یہاں تک کہ بچوں سے بھی دوری اختیار کرلی , انہیں کی طرح خنساء رضی اللہ عنہ نے راہِ الٰہی میں اپنے 6 بیٹوں کو قربان کردیا پر زبان سے ایک شکایت تک نہ کی اور ام جمیل فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ عنہ کی حق گوئی کا تو یہ عالم تھا کہ ان کی حق گوئی ان کے بھائی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا ذریعہ بن گئی اور حضرت سمیئہ رضی اللہ عنہ کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے جنہوں نے اسلام کے لئے خواتین میں سب سے پہلے شہادت حاصل کی ۔

ایسے تھے ہمارے بزرگانِ دین جنہوں نے نازک صنف ہونے کے باوجود بھی ہر میدان میں بنا ڈرے بیباکی سے حق کو تھامے رکھا چاہے میدانِ جنگ میں دشمنوں کو خاک میں ملانا ہو یا دشمن کی خنجر خود کے گلے پہ کیوں نہ رکھی گئی ہو …….

لیکن آج بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ جس مذہب میں ایسی دیندار، نڈر، بیباک جنگجو خواتین گذری ہیں دورحاضر اسی قوم کی خواتین کو آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے ……

جیسے کچھ قلمکار خواتین ہیں جو اپنے قلم سے سماج کو اصل آئینہ دکھانا چاہتی ہیں تاکہ باضمیر عوام کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا سکیں، کئی اساتذہ ہیں جو بچوں کو اچھا شہری بنانے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ معاشرہ کو بہتر بنا سکیں لیکن خواتین کو گھر کی چار دیواری ہو یا باہر کی دنیا ہر قدم پہ ہر موڈ پہ غیروں سے لیکر اپنوں کے درمیان بھی سخت آزمائشوں سے گذرنا پڑتا ہے ان کی حوصلہ افزائی ہمت افزائی کرنے کے بجائے انہیں ڈرا دھمکا کر ان کے ارادوں کو ان کے قلم کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے انہیں اتنا مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں، اپنی قابلیت کو بھول کر تاعمر گھٹ گھٹ کے جینے پہ مجبور ہوجاتی ہیں …… انہیں جلسوں اور محفلوں کی زینت تو بڑے فخر اور شان سے بنایا جاتا ہے لیکن راہِ حق پہ چلنے سے آخر کیوں ایک عورت کو منع کیا جاتا ہے ؟؟؟ 

جبکہ مسلمان تو اللہ پہ توکل رکھتا ہے اور جانتے ہیں کہ جینا مرنا، عزت ذلت سب کچھ تو اللہ کے ہاتھوں ہے اور اللہ چاہیں تو عزت دین یا ذلت یہ تو اللہ کی رضا پہ ہے کہنے کو تو ہم سبھی یہاں تک کہتے ہیں کہ ایک پیڑ کا پتہ بھی ہلنے کے لئے اللہ کی رضا چاہئیے تو آخر کیوں آج کے مسلمان ان فسطائی طاقتوں سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں اتنے خوفزدہ ہیں کہ حق بات کہنے سے خود تو کتراتے ہیں ساتھ ہی خواتین کو بھی روکتے ہیں ؟؟؟

کیا آج کے مسلمانوں کو اللہ کی ذات پہ یقین بس بیانات اور تحریریں دیتے وقت ہی رہتا ہے ؟؟ جبکہ دنیا کا ہر مسلمان یہاں تک کہ کچھ غیر مسلم لوگ بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تو، کل کائنات کا واحد مالک ہے، لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم ڈر ڈر کے جینے کو ہی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں , اگر ایسا ہی حال رہا تو امت میں کہاں ایسی مائیں پیدا ہونگی جو سماج کی بہتری کے لیے بہتر کام کرسکیں اور کہاں محمد بن قاسم جیسی اولادیں پیدا ہوں گی جو مظلوموں کے خاطر ظالموں کو دھول چٹاسکے ویسے تو ہم اپنے بزرگانِ دین کے نقشہ قدم پہ چلنے کے بڑے سے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم صرف وہی کرتے ہیں جو آج کی جدید دنیا ہم سے کروارہی ہے اور یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہم لوگوں نے شریعت کو اسلامی احکامات کو بھی اپنے مفاد کے لئے من مطابق مروڑ لیتے ہیں تاکہ ہماری زندگی آسان گذرے اور یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ آج یہ ہر مسلم گھر کی کہانی ہے سننے اور پڑھنے میں تو بات بہت تلخ کڑواہٹ سے بھری ہے لیکن یہی آج ہر گھر کی حقیقت ہے … کیونکہ آج ہر کوئی قوم میں محمد بن قاسم جیسے نوجوانوں اور ام عمارہ , خولہ بنت الازور اور خنساء جیسی خواتین کو دیکھنا چاہتے ہیں , لیکن کوئی اپنے گھروں میں ایسے نوجوانوں اور خواتین کی طرح اپنی اولاد کی پرورش کر ان کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں ان جیسا بنانا نہیں چاہتے نہ گھر والے نہ ہی قوم کے ذمہ دار رہنما، لیکن ایک بات ذہنشین کرلیں جب تک ہم مسلمان اپنے ڈر کو مات دیکر جیت حاصل نہیں کرینگے جب تک ہم اپنی ذہنیت نہیں بدلینگے اس وقت تک ہم یا ہماری قوم فلاح نہیں پائے گی کیونکہ مسلمانوں کے لئے وہ وقت عنقریب ہے جب ہر مسلمان چاہے عورت ہو مرد ہو یا بچے ہر ایک کو دین کی خاطر دشمن کے آگے ڈٹ کے گھرے رہنا ہے اُسے اپنی صلاحیت و قابلیت کے بل بوتے دھول چٹانی ہے ایک جنگجو سپاہی کی طرح ہر میدان میں خود کو ثابت کرتے ہوئے منہ توڑ جواب دینا ہے, اسلئے خواتین ہوں یا کوئی اور کسی کو کبھی کمزور نہ سمجھیں نہ ہی کمزور بنانے کی کوشش کریں کیونکہ ایک چونٹی بھی ہاتھی کو ڈھیر کرنے کی قوت رکھتی ہے اور یہ تمام نشانیاں اللہ سبحان تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ہیں تاکہ وہ ان پہ غور وفکر کرتے ہوئے فیضیاب ہوسکیں جینے کا اصل مقصد سمجھ سکیں، اس لئے آج کی ہر صنف نازک یہی کہتی ہے کہ

تحفظ کے نام پہ ذہنی غلامی اب اور نہیں …….

عورت بھلے نرم و نازک ہے پر کمزور نہیں یہ یاد رہے

جبراً جلے تو ابر بنکے دشمن کو یہ فنا بھی کرے ……

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں