نئی دہلی: (پریس ریلیز) آج بابری مسجد ملکیت معاملہ کی سماعت کے دوران عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ وہ چھ ہفتوں کے اندر حکومت اتر پردیش کی جانب سے کرائے گئے دستاویزات کے تراجم کا مطالعہ کریں اور اس تعلق سے عدالت کو مطلع کریں تاکہ حتمی بحث شروع کی جاسکے نیز عدالت نے فریقین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ مصالحت کے تعلق سے غور کریں عدالت نے کہا کہ اگر سمجھوتے اور مصالحت کی ایک فیصد گنجائش بھی موجود ہو تو اس کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ عدالت نے اپنے حکمنامہ میں مزید کہا کہ وہ 6؍ مارچ کو عدالت کی نگرانی میں مصالحت کیئے جانے کے تعلق سے فیصلہ صادر کریگی۔واضح ہوکہ عدالت نے ترجموں کے مطالعہ کے لئے فریقین کو چھ ہفتوں کا وقت دیا ہے اور اب مقدمہ کی باقاعدہ سماعت آٹھ ہفتہ بعد ہوگی ، وکلاء اور فریقین کے نمائندوں سے کھچا کھچ بھری عدالت میں جیسے ہی جمعیۃعلماء ہند کے لیڈ میٹر سول پٹیشن نمبر 10866-10867/201 (محمد صدیق جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اتر پردیش)پرسماعت شروع ہوئی چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائے چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں نے سب سے پہلے فریقین کے وکلاء کو سیکریٹری جنرل آف سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے تیار کی گئی مقدمہ کی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ اگر فریقین حکومت اتر پردیش کی جانب سے کرائے گئے تراجم سے متفق اور مطمئن ہیں تو عدالت معاملے کی سماعت شروع کرنے کے لئے تیار ہے، چیف جسٹس رنجن گگوئی نے یہ بھی کہا کہ جب تمام فریقین دستادیزات کے درست ترجمہ کو کو لیکر مطمئن ہوجائیں گے تو ہم سماعت کا آغاز کرسکتے ہیں اور ایک بار جب سماعت شروع ہوگی تو ہم نہیں چاہیں گے کہ بعد میں کوئی بھی فریق ترجمہ میں خامی کاحوالہ دیکر سماعت ٹالنے کامطالبہ کرے ۔اس پر رام للا کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدیاناتھن نے عدالت سے کہا کہ دستاویزات کامطالعہ کرنے کے لیئے دیا گیا وقت کب کا ختم ہوچکا ہے ، لہذا اب مزید وقت نہیں دیا جانا چائے ۔اس کے جواب میں جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہو ئے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک حکومت اتر پردیش کی جانب سے ترجمہ کرائے گئے دستاویزات کا مطالعہ نہیں کیا ہے جس پر رام للا کے وکیل نے اعتراض کیا اور عدالت سے شکایت کی کہ یہ مقدمہ کی سماعت ٹالنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ 5؍ دسمبر 2017ء کے سپریم کورٹ کے آرڈر کے مطابق تراجم مکمل ہوچکے ہیں۔ دیگر ہندو فریقین کے وکلاء نے بھی عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں موجود ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے پہلے ہی تراجم کا مطالعہ کرلیاہے لہذا آج یہ کہنا کہ انہیں مزید وقت چاہئے مقدمہ کی سماعت کو طول دینے کے مترادف ہے ۔ اس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس بینچ میں موجود دو ججوں(جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر) کے علم میں ہے کہ میں اس معاملے میں بحث کرنیکے کے لئے ہی آیا تھا اور آج بھی تیار ہوں لیکن یو پی حکومت کی جانب سے ترجمہ کرائے گئے دستاویزات کا مطالعہ کیئے بغیر میرے لیئے بحث کرنا ممکن نہیں ہوگا ،لہذا مجھ پر الزام عائد کرنا کہ میں بحث کے لیئے تیار نہیں ہوں غلط ہے ۔فریقین کی بحث کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہتے جب تک کہ فریقین کے وکلاء سماعت کے لیئے تیار نہ ہوں ۔
دوران بحث جسٹس ایس اے بوبڑے نے کہا کہ اگر فریقین کے درمیان اس معاملے کولیکر مصالحت کی ایک فیصد بھی امید ہے تو انہیں یہ چانس لینا چاہئے اور سپریم کورٹ اس کے لیئے تیار ہے جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ اگر عدالت اس کے لیئے تیار ہے تو مجھے اعتراض نہیں ہے لیکن رام للا کے وکیل ویدیاناتھن نے اس پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ اس سے قبل کوشش کی جاچکی ہے، لیکن اس کاکوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ فریق مخالف کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ رنجیت کمار نے عدالت سے کہا کہ انہیں مصالحت منظور نہیں ہے اس لئے عدالت جلد از جلد معاملے کی حتمی بحث کی تاریخ مقرر کرے۔اسی درمیان بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مصالحت انہیں منظور ہے لیکن یہ اس شر ط پر کہ ہندؤں کو رام کے جنم استھان پر پوجا کرنے کی اجازت ہوگی اور ہندؤں پر کم سے کم شرائط ہوں گی۔مگر مخالف فریقین کے وکلاء کی دلیلوں سے عدالت مطمئن نہیں ہوئی اور اب مصالحت کے تعلق سے وہ آئندہ 5؍مارچ کو اپنا فیصلہ دیگی۔
آج کی عدالتی پیش رفت پر اپنے اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ پیش رفت امید افزاہے اورہم عدالت کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہیں ، جمعیۃعلماء ہند ابتداہی سے صلح اور امن کی حامی رہی ہے اور اس معاملہ میں باہمی مذاکرات کو اولیت دیتی آئی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اس معاملہ میں جب بھی صلح کی کسی کوشش کاآغاز ہوا تو مخالف فریقین نے اپنے اڑیل رویہ سے اس کوشش کو ہمیشہ سبوتاژکیا ہے اور آج بھی عدالت میں ان کے وکلاء نے کچھ اسی قسم کے رویہ کا اظہارکیا ہے ، ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں ،اس لئے اگر عدالت اپنی نگرانی میں مصالحت کی کوئی نئی کوشش کرتی ہے تو ہم اس کے لئے تیارہیں ، اس لئے کہ ہم ہمیشہ سے اس اہم مسئلہ کا پرامن طورپر حل چاہتے ہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ عدالت نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ مصالحت کی کوشش کے دوران بھی قانونی عمل جاری رہے گا ،بلاشبہ یہ ایک اچھی بات ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ہندواورمسلم کا تنازعہ ہرگزنہیں ہے بلکہ ملکیت کے حق کی لڑائی ہے مگرافسوس اس پر مسلسل سیاست کرکے کچھ لوگوں نے اسے ہندواور مسلمان کاجھگڑابنادیا ہے ، جمعیۃعلماء ہند نے تو روزاول سے ہی اپنا یہ موقف واضح کردیا ہے کہ قانون اور شواہد کی بنیادپر عدالت جو بھی فیصلہ دیگی ہم اسے قبول کریں گے ، لیکن مخالف فریقین کی سوچ اس کے قطعی برعکس ہے یہاں تک کچھ لوگوں کے ذریعہ ڈراور دھونس کی سیاست سے یہ باورکرانے کی کوشش بھی ہورہی ہے کہ برعکس فیصلہ آنے کی صورت میں وہ اسے قبول نہیں کریں گے ، مولانا مدنی نے کہا کہ ملک اور قوم کے تناظرمیں یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے اگر عدالتوں کا احترام نہیں ہوگا اور اس کے فیصلوں کو ردکیا جائے گا تو ملک میں لاقانونیت پھیل سکتی ہے اور پھر ہر شخص طاقت سے اپنی بات منوانے کے لئے آزادہوگا ، مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہم عدالت کے تازہ فیصلہ سے مطمئن ہیں اور مصالحت کو لیکر آئندہ 5؍مارچ کو وہ جو بھی فیصلہ دیگی ہم اس کا استقبال کریں گے ۔آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء جس میں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹرراجیو دھون،سینئرایڈوکیٹ راجیو رام چندرن،ایڈوکیٹ ورندا گروور ، ایڈوکیٹ آن ریکاڈر اعجاز مقبول کے علاوہ ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ واصف رحمن خان،ایڈوکیٹ محمدعبداللہ، ایڈوکیٹ زین مقبول، ایڈوکیٹ ایوانی مقبول،ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ ہمسینی شنکر، ایڈوکیٹ پریانشی جیسوال و دیگر موجود تھے ۔