نور اللہ جاوید
کالی کٹ شہر کے قلب میں واقع”گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“کی پرشکوہ عمارت کو دیکھنے کے بعدبادی نظر میں شہر کا سب سے مہنگا پرائیوٹ انگریزی میڈیم معلوم ہوتا ہے۔جہاں بچوں کی تعلیم کے عوض مہنگی فیس دینی ہوگی۔لیکن یہ شہر کا سب سے 125سالہ قدیم کیرالہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والا سرکاری اسکول”گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“ ہے۔یہ اسکول انفراسٹکچر اور سہولیات، کلاسیس روم، لیپ، فٹ بال اسٹیڈیم، بیڈمنٹن کورٹ، ٹینس کورٹ، جم اورپرشکوہ قدیم لائبریری کے اعتبار سے بین الاقوامی معیار کا ہے۔
”گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“کی صورت اور سیرت میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ کیا کیرالہ کے دیگرسرکاری اسکولوں کی صورت و سیرت بھی بدل رہی ہے؟شمالی کوزی کوٹ سے ممبر اسمبلی’کامریڈ پردیپ کمار‘بتاتے ہیں وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ ہیں،سامراج واداور نجی کرن کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہتے ہیں،مگر سوال یہ تھا کہ اگرہم تعلیم کے نجی کرن کے خلاف ہیں تو پھر کیا ہم نے اس کا متبادل پیش کیا ہے؟پردیپ کہتے ہیں کہ2008میں ایل ڈی ایف حکومت کے دور میں ہم نے وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ کے سامنے سرکاری اسکولوں کے معیار اور انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی۔کیوں کہ ہم اساتذہ کی بحالی میں قابلیت اور استعداد سے سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں قابل استعداد اساتذہ کی کمی نہیں ہے،چوں کہ ماحول کے عدم سازگار اور خراب انفراسٹکچرکی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار روز بروز گراوٹ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ایک سوال یہ بھی تھاکہ جب کالج، میڈیکل،انجینئرنگ میں داخلہ کیلئے ہرکوئی سرکاری اداروں کو ترجیح دی جاتی ہے تواسکولنگ تعلیم کیلئے پرائیوٹ اسکولوں کی طرف رخ کیوں کیاجاتا ہے؟۔
پردیپ کماربتاتے ہیں کہ ایل ڈی ایف حکومت نے ہمیں پورا پروجیکٹ پیش کرنے کو کہا اورہم (Promoting Regional Schools to International Standard through Multiple interventions).کے نام سے حکومت کے سامنے ایک پروجیکٹ پیش کیا جس کے تحت ریاست کے تمام اسمبلی حلقوں میں کم سے کم ”دس ماڈل“ اسکول بنانے کا ہدف مقررکیا۔کمار کہتے ہیں کہ حکومت نے اس تجویز کو منظور کیا کہ اور ہر اسمبلی حلقے میں اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتربنانے کیلئے خصوصی فنڈ 5کروڑ حکومت نے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
پردیپ کمار نے کہا کہ یہ کامیابی کی پہلی شروعات تھی، چوں کہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی اس لیے ان کے سامنے چیلنج تھاکہ وہ سب سے پہلے اپنے حلقہ انتخاب میں ایک ماڈل اسکول بناکر دکھائیں۔اس کیلئے ہم نے ”گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“کاانتخاب کیا۔چوں کہ یہ 125سالہ قدیم ادارہ تھا مگر اسکول انفرانسٹکچر کی کمی کی وجہ سے یہاں کوئی تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتا ہے۔ہم نے اسکول کو ماڈل بنانے کیلئے ملک کے بڑے آرکٹیکچر سے رابطہ کیا اور ”فضل شبانہ فاؤنڈیشن“ سامنے آئی او ر اس نے ہمیں 16کروڑ روپے عمارت کی تعمیر کیلئے فراہم کردیا۔اس کے بعد اسرو نے بھی مدد کیلئے ہاتھ بڑھایا اور اس نے ہمیں کمپوئٹر دیا۔اسی طرح کئی اداروں نے سائنس، فزکس اور کمسٹری کے لیپ کیلئے تعاون کیا اور کسی نے میوزک اکیڈمی کیلئے۔انہوں نے کہا کہ صرف چند سالوں میں صورت حال یہ بدل گئی ہے۔
گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“میں داخلہ کیلئے بڑے بڑے پرائیوٹ اسکولوں میں زیر تعلیم بچے کے والدین ہم سے رابطہ کرنے لگے مگرہم نے 50فیصد سیٹیں پانچویں جماعت تک سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والوں کیلئے،35فیصد سیٹیں اسکول کے آس پاس رہنے والوں کیلئے ریزرو ہیں۔15فیصد سیٹوں میں سے پرائیو ٹ پرائمری اسکولوں میں سے آنے والوں کو دیا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے عموماً احساس کمتری کے شکار ہوتے ہیں ہم نے اس جانب بھی توجہ دی ہے۔ہمارے اسکول میں مشہور موسیقی اے آر رحمن، مشہور آسٹریلیائی کرکٹ بریڈلی او ر دیگر مشہور شخصیات آچکے ہیں۔پردیپ کمار کہتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی نگرانی نہیں ہونے کی وجہ سے معیار میں گراوٹ آتی ہے۔کیرالہ حکومت کے نئے قانون کے مطابق ہرایک اسکول مانٹیرٹنگ کمیٹی ہے۔جس میں مقامی ممبر اسمبلی، اسکول پرنسپل، ہیڈ ماسٹر اور گارجین سے دو نمائندے جس میں سے ایک مرد اور ایک خاتون ہوتی ہیں۔ممبراسمبلی پردیپ کمار بتاتے ہیں کہ معیاری تعلیم کی وجہ سے بین الاقوامی سطح کے ایوارڈ مل چکے ہیں۔
گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس کی کامیابی کے بعد ممبر اسمبلی پی آر آئی ایس ایم(پروموٹنگ،ریجنل اسکول ٹو انٹر نیشنل اسٹنڈرتھرو ملٹی پل انٹروینشن)کے تحت اپنے ہی حلقہ انتخاب شمالی کوزی کوڈ میں 2.5ایکڑ پر مشتمل ”گورٹمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول کرراپرمبا“کی تعمیر کررہے ہیں۔گورٹمنٹ ووکیشنل ہائی سیکنڈری اسکول فارگرلس“کی ہی طرح اس اسکول میں بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق تمام سہولیات ہوگی۔اس کے علاوہ اس اسکول کو مکمل طور پر ماحولیات دوست بنایا گیاہے۔شولر پینل نصب کیا گیا ہے جس سے روزانہ 30کیوی الیکٹرک سٹی پیدا ہوتی ہے۔
کیرالہ حکومت نے اس کیلئے 12کروڑ روپے دیے ہیں۔یہاں 2500بچے 5ویں جماعت سے 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں پردیپ کمار کہتے ہیں کہ 2011سے 2016تک کانگریس کی قیادت والی حکومت تھی مگراس حکومت نے اس اسکیم میں رخنہ نہیں ڈالا۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مخالفت بھی نہیں ہوئی ہے۔یہاں طلباء کیلئے باسکٹ بال اور ہاکی کورٹ بھی بنائے گئے ہیں۔پردیپ کمار کہتے ہیں کہ وہ اپنے حلقے انتخاب میں کم سے کم 10بین الاقوامی معیار کے اسکول بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پی آر آئی ایس ایم(پروموٹنگ،ریجنل اسکول ٹو انٹر نیشنل اسٹنڈرتھرو ملٹی پل انٹروینشن)اسکیم کے تحت دوسرے اسمبلی حلقوں میں بھی کام ہورہے ہیں اور آئندہ چند سالوں میں کیرالہ کے سرکاری اسکولوں کے نقشہ بدل جائے گا اور تعلیم کے نجی کرن کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوگئے تھے اس کا ہم اس مقابلہ کرسکتے ہیں۔
کیرالہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں لٹریسی شرح صد فیصد ہیں،سب سے زیادہ میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالجز ہیں۔یہ کیرالہ کی ترقی کی غمازی کرتی ہے۔ تاہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فوج کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا کیرالہ حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیرالہ جغرافیائی اعتبار سے ملک کی دوسری ریاستوں سے مختلف ہے۔ بیشتر علاقہ بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے زرعی زمین کی بہتات نہیں ہے اور نہ ہی بڑے پیمانے پر یہاں صنعت کاری کی گنجائش ہے۔تعلیم کی وجہ سے عوام ماحولیات کے تئیں بیداربھی ہیں اور اس کی وجہ سے کیمیکل کارخانے یہاں قائم نہیں ہورہے ہیں۔اس اعتبارسے کیرالہ میں چھوٹی صنعتیں اور ماحولیات دوست صنعت کاری کے ہی امکانات ہیں۔دوسرے یہ کیرالہ کے نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم کے رجحا ن کی وجہ سے یہاں کے لوگ مزدوری کے اور غیر منظم سیکٹر کی طرف نہیں جاتے ہیں۔اس کی وجہ کارخانے بیرونی مزدوروں پر منحصر ہے۔
چناں چہ اس وقت کیرالہ کی 3.5کروڑ آبادی میں 50لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ان حالات سے نمٹنے کیلئے بھی کیرالہ کی وزارت محنت نے2017میں ہراضلاع میں نوجوانوں کی رہنمائی کیئے”کیرئیر ڈیولپمنٹ سنٹر قائم کیے ہیں“اس کے تحت نوجوانوں کو دوطرح سے رہنمائی کی جاتی ہے۔کورسیس کا انتخاب ایک بڑا مسئلہ ہے،طلباء کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے ان کیرئیر کیلئے کونسا کورس زیادہ بہتر ہے۔عموماً لوگوں کا رجحان میڈیکل اورانجینئرنگ کے شعبے میں ہوتا ہے۔جب کہ ان دونوں شعبوں میں روزگار کے مواقع اور چیلنجز زیادہ ہیں۔جب کہ کئی ایسے کورسیس اور شعبے ہیں جہاں روزگار آسانی سے مل سکتے ہیں۔اسی طرح نوجوانوں کی صلاحیت کو ابھارنا اورا ن میں خوداعتمادی پیدا کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔ان سنٹروں کے ذریعہ کیئرانفارمیشن، کیرئیر گائڈ لائنس،کیئرئیر کونسلنگ،ریزوم بلڈنگ،ما ک انٹرویو،امپلائمنٹ کونسلنگ،موٹی ویشن کلاسیس،اسکیل ڈیولپمنٹ پروگرامس،کیئرئیر لائبریری،ریڈنگ روم،کیئرمیگزین اور کمپوئٹر لیپ جیسی خدمات فراہم کی جاتی ہے۔ملک کی دوسری ریاستوں میں چل رہے اسکیل ڈیولپمنٹ پروگرامس سے یہ بالکل مختلف ہیں۔کیرالہ کے ”کیئرئیر ڈیولپمنٹ کے ذریعہ طالب علموں کی ہمہ جہت صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاتاہے۔ کیئرئیر ڈیولپمنٹ سنٹر پریمبرا کے آفیسر کہتے ہیں ان سنٹروں کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ہمارے نوجوان مرکزی حکومت کی ملازمت، ریاستی حکومت کی ملازمت اور خلیج و یورپی ممالک کے سرکاری ملازمت میں جگہ مل رہے ہیں۔اس کا سہرا کیرالہ کے وزیر محنت ٹی پی رام کرشنن کے سرجاتا ہے۔
کیرالہ کے تعلیمی ماڈل میں خواتین کے امپاورمنٹ کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔کوزی کوڈ میں واقعہ ڈپلوما کورسیس فارگرلس انسی ٹیوٹ میں 500سے زاید بچیاں ڈپلومہ کورسیس کررہی ہیں۔پرنسپل بتاتے ہیں کہ یہاں وہی کورسیس کرائے جاتے ہیں جو خواتین کیلئے مناسب ہیں،جس میں فیشن کورس، میڈیکل ان ڈپلوما کورسیس وغیر بھی شامل ہیں۔
جنوبی ہند اور شمالی ہندکے طرز سیاست کا یہی فرق ہے کہ جنوبی ہندکی ریاستیں حکومتیں انفراسٹکچر اور امپاور منٹ کی طرف توجہ دیتی ہیں۔جب کہ شمالی ہندکی ریاستوں کی حکومت سائیکل تقسیم، ڈریس تقسیم اور دیگر نمائشی پروگرام کے ذریعہ عوام کی ہمدر د بننے کی کوشش کرتی ہے۔یہی صورت حال سیاسی لیڈروں کا ہے۔شمالی ہندکے سیاست داں انتخابی فائدے کیلئے نوجوانوں کو جرائم کے دلدل میں ڈھکیل دیتے ہیں اور جنوبی ہندکے سیاست داں تعلیم کے فروغ کے ذریعہ عوام میں ا پنی پکڑ مضبوط بناتے ہیں۔