ڈاکٹر سید احمد قادری
آج جنسی استحصال کے خلاف جنگ کا عالمی دن World Day of the fight against sexual exploitation) )ہے۔ عالمی سطح پر جنسی استحصال اور تشدد کی وارداتیں عام ہوتی جا رہی ہیں اور ہم اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جنسی تشدد اور استحصال کی شکار ہونے والی لڑ کیوں کی زندگی تقریباََ تاریکی میں ڈوب جاتی ہے ، بہت کم ایسی خاتون ہوتی ہیں جو ایسے سانحہ کے بعدسماج میں بہتر زندگی گزار پاتی ہیں ۔ اس لئے یہ مۂلہ پوری عالمی برادری کیلئے سماجی اور معاشرتی طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔ جس کے تدارک کے لئے Unisef کے ذریعہ 2009 ء سے ہر سال 4 ؍ مارچ کوWorld Day of the fight against sexual explotation کا اہتمام اور انعقاد کیا جاتا ہے ۔ تاکہ اس اہم عالمی مسلۂ پر بہت سنجیدگی سے ان کے تدارک کے لئے غور و فکر کیا جائے۔
عام طور پر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جنسی استحصال کے کسی بڑے سانحہ کے بعد ملک کی مختلف سیاسی پارٹیاں ، سماجی ادارے اور بعض این جی اوز وغیرہ جلسہ، جلوس، مظاہرے اور احتجاج کیا کرتے ہیں ۔ جیسا کہ کٹھوعہ کی عاصفہ اور دہلی کی نربھیا کے سانحے کے بعد دیکھنے کو ملا۔ ایسے اہم مسئلہ پر قد غن لگانے کے لئے بہت سخت اقدام کئے جانے کی ضرورت ہے، گرچہ ایسے سانحات کے مجرموں کو سزا دینے کے لئے قوانین تو بہت ہیں ، لیکن افسوس کہ ان قوانین پر عمل بہت کم ہی ہوتا ہے ، خاص طور پر غربت زدہ خواتین کو انصاف کم ہی ملتا ہے ۔
جنسی استحصال کی شکار مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین ہوتی ہیں ۔ خواہ وہ دفاتر ہوں ، فلمی دنیا ہو، کھیل یا ادب و آرٹ کا میدان ہو یا سیاسی و صحافتی دنیا ہو یا جنگی حالات ہوں ۔ ان تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین نے ابھی حالیہ دنوں میں جس طرح ’’ می ٹو ‘‘ کی مہم کے تحت اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کو اجاگر کیا ہے، اس تحریک نے اچھے اچھوں کی پول کھول دی ہے ۔ یہاں تک کہ سب کی پول کھولنے والے صحافی رہ چکے اور وزارت کی کرسی پر براجمان ایم جے اکبر کو اسی جرم میں اپنی بہت قیمتی کرسی گنوانی پڑی اور سماج میں ان کی جو کریہہ شبیہ ابھری ، وہ ایک الگ بحث ہے ۔ سیاسی سطح پر تہلکہ مچانے والے صحافی ترون تیج پال کا پورا کیرئر اسی بنیاد پر تباہ ہو گیا اور ابھی تک وہ جیل میں سڑ رہے ہیں ۔چند ماہ قبل 2018 ء کا نوبل امن انعام بھی ’ می ٹو‘ کے عالمی اثرات کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ 2018 ء کا نوبل امن انعام دو ایسی شخصیتوں کو ملا ہے ، جنھوں نے جنگ کے حالات میں جنسی مظالم اور استحصال کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ ان میں کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس مکویگے اور دوسری شخصیت نادیہ مراد ہیں ، جو عراق کی شہری ہیں اور جرمنی میں قیام پزیر ہیں ۔ 2014 ء میں داعش جنگجو ؤں نے نادیہ کے ساتھ تین ماہ تک جنسی تشدد اور ظلم وبربریت کا مظاہرہ کرتے رہے ، بڑی مشکلوں سے وہ اس قید و بند سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئیں ۔ ان پر ہونے والے جنسی تشدد کو کے بی بی سی کی ایک فارسی زبان کی نامہ نگار نفیسہ کہن ورد نے بے نقاب کیا ۔ جنسی استحصال کی شکار نادیہ اور صحافی نفیسہ نے جنگی حالات میں خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد اور بربریت کے خلاف تحریک چلائی ، اور ایسے لوگوں کے چہرے کو بے نقاب کیا، جو ایسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس دونوں ی دلیرانہ کوششوں سے عالمی سطح پر جنگ کے دوران ہونے والے جنسی ظلم و تشدد کے خلاف مؤثر رائے عامّہ تیار کرنے میں مددملی اور آخر کار ان مظالم کی شکار ہونے والی اس خاتون کو امن کے لئے نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا ۔ اس نوبل امن انعام سے بے شک عالمی سطح پر جنگ کے دوران عورتوں پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، اس کے تدارک کے لئے کوششیں تیز ہونگی ۔اس لئے کہ جنگی حالات میں جنسی سانحات صرف داعش تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ ایسے مظالم بین الاقوامی سطح پر عام ہیں ۔ روہنگیا مسلم خواتین کے ساتھ بھی ایسی زیادتیوں کی خبریں ابھی حالیہ دنوں میں موضوع رہی ہیں اور بڑی تعداد میں میانمار کے فوجی افسروں پر ان الزامات کے تحت اقوام متحدہ نے عالمی کریمنل کورٹٹ میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے ۔ نادیہ کے ساتھ جس دوسری شخصیت کو نوبل امن ایوارڈ کا مستحق سمجھا گیا ، وہ کانگو کے ڈینس مکو یگے ہیں۔جو پیشے کے لحاظ ایک گائینا کلوجسٹ ( ڈاکٹر)ہیں ، جو گزشتہ کئی برسوں سے جنگ کے دوران جنسی مظالم کی شکار ہونے والی خواتین کو طبّی امداد پہنچانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی پوری زندگی جنسی استحصال کی شکار ہونے والی خواتین کی مدد کے لئے وقف کر رکھی ہے اورایسی خواتین کو ٹوٹ کر بکھرنے کی بجائے زندگی سے لڑنے کا حوصلہ دیتے ہیں ۔
خواتین پرکئے جانے والے جنسی تشدد کے اس عالمی مسئلہ پر ایک نظر ہم ڈالیں توبڑا ہی ہولناک منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ Unisef کے مطابق عالمی سطح پر ہر سیکنڈ میں آٹھ لڑکیاں جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ چھوٹے بچے اور بچیوں کا بھی جنسی استحصال ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے اور ہر سال 3 لاکھ سے زائد بچے اور بچیوں کا، جنسی استحصال کے لئے اغوأ یا اسمگل کیا جاتا ہے ۔ افسوس کہ عالمی سطح پر ایسے غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی مفادات کے لئے، منظم گروہ یا گینگ جو گزشتہ چند برسوں میں ہزاروں نہیں ، بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مختلف علاقوں سے معصوم اور ناداربچے ، بچیوں کو اغوأ کر چکے ہیں ، لیکن حکومت ایسے مئلے پر سنجیدہ نظر نہیں آتی ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر ایسے اغوأ کئے جانے والے بچے غریبوں، مزدوروں ، جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے یا پھر ایسے بچے ہوتے ہیں ، جو، جنگ اورقدرتی آفات مثلاََ زلزلہ، سیلاب، خشک سالی سے شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں ۔ان کے علاوہ مختلف ممالک میں پناہ گزیں مہاجرین کے بچے بھی ہوتے ہیں ، جنھیں طرح طرح کے سبز باغ دکھا کراور بہلا پھسلا کر ایک ملک سے دوسرے ملکوں میں اسمگل کیا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے ایسے فاقہ زدہ غریب اور مزدور لوگ اپنے بچہ کی گمشدگی پر کیا احتجاج کرینگے، ان کی آوازاس قدر نحیف اورکمزور ہوتی ہے کہ وہ اپنے غم وغصہ کا اظہار اس شدت کے ساتھ کر سکیں کہ ان کی آواز ایوان بالا یا اعلیٰ حکام تک پہنچ سکے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے غریبوں کے بچوں کی گمشدگی کی خبر کسی بڑے اخبار یا ٹی وی چینل کی سرخی یا بریکنگ نیوز نہیں بنتی ۔ ہاں کبھی کسی گینگ نے بڑی رقم کے حصول کے لئے کسی دولت مند یا ہائی پروفائل گھرانے کے بچہ کو اغوأ کر لیا تو اس علاقے کی پولیس اور انتظامیہ پوری طرح متحرک ہو کر بچہ کو ڈھونڈھ نکالتی ہے اور اس طرح انھیں اپنی پیٹھ بھی تھپ تھپانے کا موقع مل جاتا ہے ۔
بچوں کی گمشدگی کے سلسلے میں ہم اپنے ملک کے چند بڑے شہروں پر ایک نظر ڈالیں ، تو بہت حیران کن اطلاعات ملتی ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں جہاں 2014 ء میں گمشدہ بچوں اور بچیوں کی تعداد 1500 تھی ۔ وہیں یہ تعدا بڑھ کر 2015 ء میں تقریباََ 8000 سے بھی تجاوز کر گئی ۔ یعنی سال 2015 ء میں ہر روز اوسطََ 22 بچے اغوأ یا گم ہو ئے ۔ ان بچوں میں جہاں 12 سال تک کے لڑکے غائب ہوئے ہیں ، وہیں 12-18 سال کی لڑکیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ نابالغ بچوں اور بچیوں کی گمشدگی کا یہ معاملہ دہلی کے مقابلے ممبئی میں زیادہ ہے ۔ ظاہر ہے ممبئی بڑا اور صنعتی شہر ہے ، جہاں بچوں کا کاروبار کرنے والے بہت زیادہ ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں ہر ماہ 884 بچے، بچیاں لا پتہ ہو جاتی ہیں ۔ یہاں سے اغوأ کی جانے والی معصوم اور نابالغ لڑکیوں کو ملک کے طول و عرض میں جسم فروشی کے ناپاک دھندے یا پھر فحش(پورن) فلموں میں ملوث کر دیا جاتا ہے ۔ عالمی سطح پر گم ہونے والے بچے اور بچیوں کے اعداد و شمار پر ہی ایک نظر ڈالیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں تقریباََ 12 لاکھ سے زائد بچوں اور بچیوں کی خرید وفروخت کا سلسلہ جا ری ہے ۔ جس میں بڑی تعداد ہندوستان کے بچے ، بچیوں کی ہے ۔ ہمارے ملک میں ہر سال بشمول ممبئی ، دہلی تقریباََ ایک لاکھ سے زائدنابالغ بچے اور بچیوں کو اغوأ کر لیا جاتا ہے ۔ بھارت میں ایک سروے کے مطابق انیس برس سے کم عمر کی چالیس فی صدلڑکیاں جنسی تشدد اور ظلم کی شکار ہوتی ہیں ۔ کٹھوعہ کی عاصفہ اور دلی کی نربھیا وغیرہ کی چیخوں کی بازگشت مدھم بھی نہیں پڑتی ہے کہ ا س بازگشت میں کئی مذید چیخیں شامل ہو جاتی ہیں۔
جنسی زیادتی اور استحصال کے واقعات پر ایک نظر ڈالیں کہ جو لڑکیاں جنسی استحصال کی شکار ہوتی ہیں ، ان میں جن کا قتل کر دیا جاتا ہے وہ تو سماجی کے طعن وتشنہ سے مکتی پا جا تی ہیں ، لیکن جو زندہ رہ جاتی ہیں ،ان کا مستقبل بالکل تاریک ہو جاتا ہے اور ان کے سامنے بھی خودکشی کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہوتا ۔ اس لئے کہ ایسی لڑکیاں عام طور پر سماج میں بے عزّت اور بے آبرو سمجھی جانے لگتی ہیں اور سماج میں انھیں اچھوت سمجھا جانے لگتا ہے ، ایسی لڑکیوں سے کوئی شادی کے لئے بھی رضا مند نہیں ہوتا ۔ ہر لڑکی مختارن مائی یا نادیہ مراد نہیں ہوتی ، جو اپنی اجتمائی آبرو ریزی کے بعد خودکشی کے بجائے ہمت، حوصلہ اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سماج کی ایسی لڑکیوں کے لئے، جو جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ ان کا سہارا بن کر انھیں زندگی جینے کا حوصلہ دے ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ قانون کے محافظ اور حکومت کی باوقار کرسیوں پر بیٹھے لوگ ایسی غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی حرکات اور جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔
جنسی استحصال کی شکار ہونے والی لڑکیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اخبار اٹھا کر دیکھیں ، شائد ہی کوئی دن ایسا ہوگا کہ اس دن کسی صفحہ پر جنسی جرائم کی خبریں نہ ہوں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی وارداتیں کیوں ہو رہی ہیں اور ان میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ۔ ان میں ایک اہم وجہ فحش عام فلموں کے ساتھ ساتھ پورن فلموں تک بہ آسانی پہنچ۔ ایسی فلموں کو دکھانے اور دیکھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ دوسری وجہ اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسیٹیوں اور کوچنگ مراکز میں بڑھتی لڑکے اور لڑکیوں کی آزادانہ دوستی اور تیسرے والدین کی اپنے بچوں کے حرکت و عمل پر نگہداشت سے لا تعلقی، اور اس کے بعد شراب اور نشیلی ڈرگس کی بہ آسانی حصولیابی ۔ یہ تمام چیزوں نے نہ صرف جنسی استحصال میں اضافہ کیا ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور تہذیبی روایات کو بھی پامال کر رہی ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جنسی استحصال مخالف جنگ کے عالمی دن پر نوجوانوں ، بچوں اور بچیوں کی، مختلف پلیٹ فارم کے ذریعہ ذہن سازی کی جاتی، رائے عامّہ تیار کیا جائے اور اس بہت اہم مسئلہ پر موجود قوانین پر بھی از سر نو جائزہ لیا جا ئے کہ ان میں کون سی خامیاں ہیں کہ ایسے قوانین کے موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ویسے اس سلسلے میں شیو سینا کے سربراہ کا یہ مشورہ بھی قابل عمل ہے کہ جنسی استحصال کے مرتکب کو وہی سزا دی جائے ، جو اسلامی قانون کے تحت ہے ، یعنی سنگسار یا موت۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے مجرمانہ فعل کرنے والوں میں خوف و دہشت فطری طور پر پیدا ہوگا اور ایسے معاملات اور سانحات میں یقینی طور پر بہت تیزی سے کمی آئیگی۔ آج کے دن کانگو کے ڈینیس مکو یگے، جرمنی کی نادیہ مراد اور پاکستان کی مختارن مائی کی ہمّت ، حوصلے اور جرأت کو سلام کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔
رابطہ: 9934839110